جنگ آخر کیوں؟


ایک عرصہ پہلے بین الاقوامی تعلقات کا ایک نظریہ ”ڈائورژن تھیوری“ پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ آج کل مشرقی سرحد کے دونوں طرف پھیلے جنگ کے سائے اور آج شاہراہ قراقرم پہ فوجی نقل و حرکت کو دیکھ کر ایک بار پھر سے وہی تھیوری یاد آ گئی تو خیال آیا کہ اس تھیوری کو اپنے قارئین کے سامنے کیوں نہ رکھا جائے کہ وہ اس کے تناظر میں اپنے اپنے ملکوں میں پھیلے موجودہ جنگی بخار کا تجزیہ کر سکیں۔

”ڈائورژن تھیوری“ کے مطابق وہ ریاستیں جو اندرونی عدم استحکام کا شکار ہوتی ہیں اور عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہوجاتی ہیں تو اپنے عوام کی توجہ معروضی مسائل سے ہٹانے کے لیے جنگ کا ماحول پیدا کرتی ہیں تا کہ اپنے اقتدار کو جواز فراہم کر سکیں۔

اصل میں ایوان اقتدار میں بیٹھے شاطر دماغ انسانی نفسیات سے کھیلنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ نہ صرف انسانوں بلکہ ارتقائی سیڑھی پہ موجود تمام جانوروں میں سب سے طاقتور اور بنیادی جذبہ، جذبہ بقا ہوتا ہے۔ جب ان جانوروں کو کسی ایسے خطرے کا اشارہ ملتا ہے جہاں ان کی بقا خطرے میں پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو یہ اپنی بھوک پیاس بھول کر اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ صدیوں سے ارباب اقتدار اسی انسانی جذبہ بقا کو رابطے کے میسر ذرائع کے ذریعے بے جا استعمال کر کے قومی غیرت و مذہبی جذبات ابھار کر اپنے اقتدار کو طوالت دینے کا گھناؤنا کھیل کھیلتے رہے ہیں۔

اب ذرا اس تھیوری کے تناظر میں اپنے موجودہ حالات کا جا ئزہ لیتے ہیں۔ پاکستان میں 2018 کے وسط میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف ”تبدیلی“ اور پرانے چہروں کے ساتھ ”نئے پاکستان“ کی تشکیل کے خوابوں کا بوجھ اٹھائے ایوان اقتدار میں داخل ہوئی۔ اقتدار کے پہلے چھ ماہ میں ہی حکومتی غیر سنجیدگی اور مسائل کی پرکھ میں ناسمجھی نے وہ خواب چکنا چور کرنا شروع کر دیے جن کی آس پہ عوام نے اپنے ووٹ کا وزن تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈالا تھا۔

ایک طرف معاشی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا تھا تو دوسری طرف اس کا بوجھ اشیائے صرف کی قیمتوں میں کئی گنا اضافے کی صورت میں سیدھا عوام پہ ڈال دیا گیا۔ علاوہ ازیں ہزاروں گمشدہ افراد، ماورائے عدالت قتل اور بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں ریاستی اداروں کے کردار کے رد عمل میں پشتون تحفظ موومنٹ، شہری تحفظ موومنٹ اور بائیں بازو کی عوامی تحریکوں نے پاکستانی ریاستی پالیسی پر سنجیدہ سوال اٹھا دیے ہیں۔

جبکہ سرحد کے دوسری طرف نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کو اپنے ملک میں کچھ اس سے ملتے جلتے چیلینجز کا سامنا ہے۔ عام آدمی کی زندگی بڑھتی طبقاتی تقسیم کے نتیجے میں شدید تر مشکلات کا شکار ہے۔ امیر غریب کے درمیان گزشتہ چند سالوں کے دوران بڑھتی تفریق نے ہندوستان میں بھی عوامی تحریکوں کو جنم دیا ہے۔ حال ہی میں مہارشٹرا سے ممبئی کی جانب پچھتر ہزار کسانوں کا مارچ ہندوستان کے نچلے طبقات میں ریاستی پالیسیوں کے خلاف پھیلے عدم اطمینان کی ایک نشانی ہے۔

ان کسانوں کی ٹوپیوں کا رنگ اور ان کے اٹھائے ہوئے سرخ جھنڈوں پہ درانتی اور ہتھوڑے کے نشان جہاں ہندوستانی تاریخ میں سماجی تحریکوں کے نئے رخ کا تعین کر سکتے ہیں وہیں ایک دلچسپ امر کا اشارہ بھی ہیں کہ پاکستانی میڈیا جو بھارت میں ہونے والے ہر حکومت مخالف احتجاج کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا رہا ہے اس تحریک پہ مکمل خاموش رہا۔ اس خاموشی میں یقیناؑ اہل نظر کے لیے نشانیاں ہیں۔ علاوہ ازیں مودی دور میں انتہا پسندی میں اضافے اور ہندوستان کے سیکولر چہرے پہ لگنے والے داغوں کے ساتھ ساتھ کانگرس کی ٹوٹ پھوٹ اور ایک مضبوط متبادل کی غیر موجودگی نے جہاں ہندوستان کے روشن خیال اور انسان دوست طبقوں میں عدم اطمینان کو بڑھاوا دیا ہے وہیں ہندوستانی ریاست کے جواز پہ سنجیدہ سوالوں کو جنم دے دیا ہے۔

سرحد کے دونوں اطراف اس اندرونی عدم استحکام اور نئی ابھرتی عوامی تحریکوں کو کچلنے اور عوام الناس کی توجہ کا رخ ان کی زندگی کے مسائل سے ہٹا کر ایک سرحد پار دشمن پہ لگانے کے لیے سرحدوں پہ کشیدگی اور جنگ کے بگل بجانے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ جس کا سرا سر فائدہ دونوں ملکوں کے ارباب اقتدار کو ملے گا۔ اور سرحد کے دونوں طرف پسے ہوئے طبقات ہر دو صورتوں یعنی جنگ ہو یا صرف جنگ کا شور مچایا جائے سراسر خسارے میں رہیں گے۔

اسی شور شرابے کے دوران جنگی ترانوں کی گونج میں ہر مدافعتی آواز ”قومی مفاد“ کے بہانے دبا دی جائے گی۔ قومیت پرستی اور حب الوطنی کے نام پہ دونوں طرف کئی غریب جانوں کی بلی چڑھائی جائے گی۔ پوری انسانی تاریخ میں جنگ و جدل کا گھناونا کاروبار ہمیشہ بالاتر طبقوں کے مفادات کے تحفظ، ان کے شوق جہان بانی، اور ان کی حرص مال و زر کے لیے کھیلا جاتا رہا ہے۔ اور اس کھیل میں ہمیشہ پسے ہوئے طبقات اپنی طبقاتی شناخت کا شعور نہ ہونے کے سبب اپنی زندگیوں کے نذرانے پیش کرتے رہے ہیں۔

اب وقت آ گیا ہے کہ سرحد کے دونوں طرف موجود اکثریتی مظلوم، پسماندہ اور امن پسند عوام اس جنگ و جدل کے گھناؤنے کاروبار میں استعمال ہونے سے انکار کر دیں۔ ان دنوں ساحر کی یہ نظم ہی سرحد کے دونوں طرف کے امن پسند اور شریف انسانوں کا ترانہ ہونا چاھیے :

خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).