چرس اور شراب بیچنے والی لڑکیاں ۔ اصل کہانی


سندھ کے شہر حیدرآباد کی مارکیٹ پولیس اسٹیشن کا ایک کارنامہ اخبارات کی زینت بنا ہے، خبر یہ ہے کہ سرے گھاٹ کے علاقے سے دو نوجوان خوبصورت لڑکیوں کی ایک تصویر، چار شراب کی بوتلوں اور دو کلو چرس کے ساتھ پولیس نے میڈیا کو جاری کی ہے اور ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ، مارکیٹ پولیس نے منشیات بیچنے والی دو لڑکیوں صائمہ لیاقت اور نتاشا گل کو گرفتار کرکے ان کے قبضے سے شراب کی چار بوتلیں اور دو کلو چرس برامد کر لیا۔

پولیس کے اس کارنامے پر سوشل میڈیا پر متضاد خبریں آ رہی ہیں۔ جس میں اکثریت کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی پولیس افسرایس ایچ او منیر عباسی نے ذاتی عناد کے اوپر کی ہے اور اس افسر کی خواہش تھی کہ گرفتار ہونے والی لڑکی نتاشا گل اس کے ساتھ دوستی رکھے۔ اس خبر کی تصدیق تو نہیں ہو سکی مگر، نتاشا کی خوبصورتی اور پولیس کی طرف سے منشیات کے کاروبار میں ملوث لڑکیوں سے صرف دو کلو چرس اور شراب کی چار بوتلیں برامد کرنا ایسا ہی ہے جیسے ہندوستانی فلموں میں کوئی پولیس افسر کسی خوبصورت لڑکی کو اس کے ساتھ تعلق نہ رکھنے پر دو بوتل شراب میں جیل بھیجنے کی دھمکی دیتا ہے۔

جس علاقے سرے گھاٹ سے ان لڑکیوں کو گرفتار کیا گیا ہے وہ کسی وقت میں حیدرآباد کی انتہائی با رونق بازار حُسن ہوا کرتی تھی، سرے گھاٹ سے شروع ہوکر ایک طرف تلک چاڑھی، دوسری طرف چھوٹکی گھٹی اور تیسری طرف واڈھن جوپڑ تک پھیلی ہوئی اس بازار میں شام کو اتنی خوشبو ہوتی تھی کہ حیدر آباد کا آدھا شہر مہکتا تھا۔

اسی محلے میں سب کچھ تو بند ہو چکا ہے مگر رقص کے فن کو کچھ گھرانے زندہ رکھے ہوئے ہیں وہیں پر رہنے والی ان دو لڑکیوں کو گرفتار کر کے جس طرح چرس اور شراب کا کیس لگایا گیا ہے اور ان کی تصویر جاری کی گئی ہے اس پر سندھ بھر میں پولیس کی اس کارروائی کو مشکوک انداز میں دیکھا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ عجیب کیس ہے، پورا شہر منشیات کا گڑھ بنا ہوا ہے مگر پولیس کی نظر صرف ان دو لڑکیوں پر پڑی؟

حیدر آباد کے ایک سینئر صحافی مہران ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز رؤف چانڈیو سے جب میں نے اس معاملے پر بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ عموما ایسی چھوٹی مقدار میں شراب اور چرس برامد ہونے پر کیس تو درج کیا جاتا ہے مگر اس طرح لڑکیوں کے فوٹو جاری نہیں کیے جاتے ہیں اس کیس میں لگ رہا ہے کہ کوئی ٹارگیٹڈ معاملا ہے اور کوئی ان لڑکیوں کو سبق سکھانا چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تھانے کے ایس ایچ او منیر عباسی ہیں جن کے کہنے پر یہ کارروائی ہوئی ہے۔

میرے اس سوال پر کہ پولیس نے چرس اور برآمد شدہ شراب کی تصویر بھی تو دی ہے، رؤف چانڈیو نے جواب دیا کہ اتنی شراب تو روزانہ حیدر آباد کے کئی پولیس والوں کی جیب میں ہوتی ہے جب وہ شام کو وائین شاپس سے مفت میں اٹھاتے ہیں خود بھی پیتے ہیں اور بیچتے بھی ہیں۔ رؤف چانڈیو کا مزید کہنا تھا کہ پولیس کا حیدر آباد میں میم پوری اور گٹکے کے کاروبار میں بھی ہاتھ ہے اور سابق ایس ایس پی عرفان بلوچ اور پیر محمد شاہ کے ادوار میں ان معاملات میں کمی آئی تھی مگر اب تو حالت یہ ہے کہ منشیات کا کاروبار عروج پر ہے اور آسمان صرف ان دو بے بس لڑکیوں پر گرا ہے۔

لاہور میں رہنے والے سندھی لکھاری انورعزیز چانڈیو نے نتاشا کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ، ”رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔ “ حیدرآباد مارکیٹ تھانہ پولیس کے ایس ایچ او کی جانب سے مبینہ طور پر اک فنکارہ رقاصہ نتاشہ کو دوستی نہ رکھنے پر منشیات فروشی کا الزام لگا کر گرفتار کر کے لاک اپ کرنے کی مذمت کی جاتی ہے۔ پولیس کے اعلی عملداروں سے واقعے کی مکمل جانچ کرنے اور قانون کے مطابق عمل درآمد کرنے کی اپیل کی جاتی ہے۔ فنکار، رقاص، موسیقار، گویے، چترکار اور مجسمہ ساز ہر سماج کا اسی طرح سے اہم حصہ ہیں جس طرح سے پولیس اہلکار، جج، صحافی، ڈاکٹر، مذہبی رہنما، استاد اور قلمکار ہمیں سب کی قدر کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).