درویشوں کا ڈیرہ


ڈاکٹر خالد سہیل سے ہلکی پُھلکی شناسائی ان کے مضامین کے حوالے سے ہی تھی۔ یہ امیر حسین جعفر ی تھے۔ اردو ادب کے مایہ ناز شاعر اختر حسین جعفری کے منفرد شاعر اور دانش ور بیٹے جنہوں نے کینیڈا میں اُن کی قربت میں بارہ تیرہ سال کا عرصہ گزارا۔ پاکستان آئے اور ہمارا اُن سے مکمل غائبانہ تعارف کروایا۔ کہیں اُن کے ایک خواب کا بھی ذکر ہوا۔

تو پہلی مبارک باد ڈاکٹر خالد سہیل کو۔ آپ کوئی خواب عرصہ دراز سے بنتے چلے آرہے ہیں۔ تواس خواب کا پورا ہونا بھی تو خوش قسمتی ہے۔ میں سمجھتی ہوں یہ ایک ہش جہت شخصیت والے انسان جو ایک مسیحا ہے، ماہر نفسیات ہے، علم و ادب کا شناور ہے، مفکر اور دانش ور ہے نے ذہین، جذبات سے بھری ہوئی، حساس اور خوبصورت ادب تخلیق کرنے والی لڑکی کے روحانی ملاپ کی آمیزش سے ایک ایسا تجربہ کیا ہے جس نے ترک ناول نگار ایلف شفق کی The Forty rules of love کی طرح ادب میں ایک نئی طرحدار اور منفرد روایت کو جنم دے کر اِس تخلیقی کاوش کو خانوں میں بانٹ دیا ہے۔ آپ اِسے وکھری ٹائپ کا ناول کہہ لیں۔ افسانوی مجموعہ سمجھ لیں۔ یہ جگ بیتی ہوسکتی ہے۔ آپ بیتی کا نام دے سکتے ہیں۔

آپ کا جی چاہے سفر نامے کا نام دے لیں کہ یہاں سات سمندر پار سے لے کر ماضی کی گچھاؤں میں جانے کے راستے اور پگ ڈنڈیاں ہیں جن پر چلتے ہوئے آپ کہیں دانشو روں کو سُنتے ہیں۔ آپ پر جہانوں کی حکمت کے راز افشاہوتے ہیں۔ کتاب بھری پڑی ہے مگر ایک آدھ مثال پڑھ لیجیے۔ درویش رابعہ کے ایک سوال پر کہ انسان کی بڑائی اور اس کی عاجزی کا کیا رشتہ ہے کہتا ہے۔ علم میں غرور اور تخلیقی صلاحیتوں میں نرگسیت ہے۔ اسی لیے بہت سے عالم مغرور ہوجاتے ہیں اور بہت سے فنکار خود پرست۔

اس کے خیال میں فن کی ریاضت کے ساتھ ساتھ من کی ریاضت بہت ضروری ہے کہ یہ بندے میں عاجزی، انکساری اور بڑائی پیدا کرتی ہے۔ درویش کے مطابق دانائی کے راز جاننے کے تین راستے ہیں۔ پہلا وجدان، دوسرا جمالیات اور تیسرا منطق۔ پہلا سنت صوفیوں اور سادھوں کا راستہ، دوسرا شاعر اور فنکاروں اور تیسرا سائنس دانوں کا۔ درویش، شاعر اور فنکار کو بھی معیار کی حد بندیوں میں قیدکرنا ہے۔ چھوٹا فنکار چھوٹا انسان، بڑا فنکار چھوٹا انسان، چھوٹا فنکار بڑا انسان، بڑا فنکار بڑا انسان۔

کتاب پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کیسے دونوں کی شخصیتوں کی پرتیں کھلتی ہیں۔ دھیرے دھیرے، دھیمے دھیمے، کہیں بچپن، کہیں جوانی، کہیں طالب علمی اور کہیں حال۔ اس سفر میں ان کے اندردبی ہوئی بہت سی نا آسودہ آرزوئیں، خواہشیں، جذبات و احساسات کے طوفان، سوچوں کی گُھمن گھیریاں اور مشکلات قاری سبھوں سے آشنا ہوتے ہیں۔ ایسے میں رابعہ کا برگزیدہ لوگوں کی طرف جانا اور روحانی تجربات سے مستفیذ ہوناجب کہ درویش کا مختلف کرداروں کے روپ دھار کر ان کے تجربات سے آپ کے علم میں اضافہ کرنے کی کاوش ہے۔

مکالمہ سوال اس سارے تخلیقی عمل کی جان ہیں۔ جس کے سہارے وہ ایک دوسرے کے دل کی گہرائیوں تک اُترتے ہیں۔ دانائی اور حکمت کے موتی ذہن کی بند سیپوں میں پلتے ہیں اور باہر آتے ہیں۔ زندگی کا سچ کڑی حقیقتوں کی صورت عیاں ہوتا ہے۔ درویش دن کے طلوع ہونے اور رات کے نمودار ہونے جیسے سچ کا اظہار کرتا ہوا گویا کہتا ہے چالیس سال کے بعد نئے تجربات نہیں ہوتے۔ پرانوں کی تکرار ہوتی ہے۔ درویش کا خیال ہے کہ شاعر، ادیب اور فنکار کی بقا اور اس کی نئی زندگی کے لیے، نئے تجربات بہت ضروری ہیں۔ اس کے خیال میں رابعہ سے ملاقات اور یہ سلسلہ بھی ایک نیا تخلیقی تجربہ ہے۔

ایک نئے تجربے کا یہ انوکھا سا خیال و احساس شاید کہیں درویش کے لاشعور میں تھا۔ جسے اُس نے ایک آدھ بار کچھ عملی صورت دینے کی کوشش بھی کی۔ مگر تخلیق کار کی تشفی نہ ہوئی۔ لُطف نہ آیا، سیرابی نہ ہوئی۔ دراصل درویش کو اپنے بچپن میں اپنے صوفی والد کی لائبریری سے تذکرۃ الاولیا پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اِس دیومالائی ہستی رابعہ بصری کی شخصیت اور فلسفہ حیات نے اُسے اتنا متاثر کیا کہ درویش اس کے سحر میں مبتلا ہوگیا۔

رابعہ مثبت سوچ و فکر والی وہ لڑکی ہے جو اکثرو بیشتر چیزوں کے روشن پہلو دیکھتی ہے۔ شر سے خیر کا پہلو کشید کرتی ہے۔ نامساعد حالات کے جبر اور گٹھن کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکتے ہوئے اپنی ایک تصوراتی دنیا بسا تی ہے۔ جب بھی وہ گٹھن کا شکارہوتی ہے وہ اپنی اُس جنت میں پناہ ڈھونڈ لیتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ مجھے بھی کبھی یہ خیال تھا کہ میں کسی سے اتنا بھرپور تخلیقی مکالمہ کروں گی۔ ایک ایسے شخص سے جو لکیر کا فقیر نہیں ہوگا، نہ ہی مصلحت پسند ہوگا۔ اس کے اپنے نظریات و افکارہوں گے۔ اور یہ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ رابعہ نام جو ہمیشہ درویش کو ہونٹ کرتا تھا۔ اسی نام کی لڑکی سے اس کی ملاقات ہوگئی۔ سچی بات ہے وہ جو کہتے ہیں کہ ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں۔ اُسے یہ نئی دنیا مل گئی۔

اُسے رابعہ الربا کی قربت میسر آگئی۔ اور وہ جو زمانوں سے زندگی، موت، حیات، محبت، نفرت، دوستی و دشمنی، مرد، عورت کے تعلقات جنس اور دیگر حیاتی رازوں کو جنس مخالف سے مکالمہ کرکے آگہی حاصل کرنے کا خواہش مند تھا۔ اپنے اِس تجربے میں کامیاب ہوا۔ بھلا اب وہ کیسے نہ کہے کہ مجھے لگتا ہے جیسے اِس سلسلے نے ایک خوبصورت پینٹنگ کی صورت اختیار کرلی ہے۔ ایسی پینٹنگ جس میں اُسے قوس و قزح کے سارے رنگ نظر آتے ہیں۔

قاری درویش کی سوچ سے اتفاق کرتا ہے کہ اس میں کہیں مکالمے کا رنگ ہے، کہیں وہ سائنس دانوں کی تھیوریوں سے آشنا ہوتا ہے، کہیں ادب کے ذائقے چکھتا ہے، کہیں زندگی کے تجربات سے لبالب بھرے واقعات اور مشاہدات سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس کے مطابق ان رنگوں میں سب سے گہرا اور پائیدار رنگ دوستی کا ہے۔ یہ رنگ جو بقیہ سب رنگوں پر غالب آتا جارہا ہے کیونکہ یہ دوستی، خلوص، اپنائیت، عزت و احترام، محبت کے جذبات سے لدی پھندی ہے۔ اِس عمل میں جو اہم بات نظر آتی ہے وہ سیکھنے اور سکھانے کا عمل ہے۔

آپ دونوں کا بہت شکریہ۔ آپ نے اپنے قاری کو خوبصورت تحفہ دیا اور اُسے مالا مال کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).