شیخ ایاز: شاعری اس کی محبوبہ تھی


2 مارچ کو شیخ ایاز کا جنم دن ہے۔

شاہ عبدالطیف بھٹائی کے بعد شیخ ایاز سب سے بڑا شاعر مانا جاتا ہے۔ ﺍﮔﺮ شیخ ایاز ﮐﻮ ﺟﺪﯾﺪ ﺳﻨﺪﮬﯽ ﺍﺩﺏ ﮐﮯ ﺑﺎﻧﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺑﮯﺟﺎ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ شیخ ایاز نے اپنی قلم اور ذہنی شعور کی وجہ سے بڑا نام کمایا۔ شاعری، نثر، آپ بیتی، سمیت اس نے سندھی ادب کو بہت سی کتابیں دیں، جو آج بھی مقبول ہیں۔ ان کی شاعری کو جب جب موسیقی کی ترنم دے کر، سُروں میں گایا گیا، تو وہ گیت ہر طبقے میں بہت ہی زیادھ مشہور ہوئے۔ شیخ ایاز نے مختلف موضوعات پہ شاعری کی ہے، وہ عشق رومانس پیار محبت کو بھی سراہتا ہے، اس نے حسن اور جمالیات پر بھی اشعار اور غزلیں لکھی ہیں۔ وہ دھرتی سے محبت کو گاتا ہے، تو اس نے انقلاب کے نعرے بھی لگائے، اس نے غربت میں پسے طبقے کو بھی شامل کیا، اور اس نے مختلف مذاہب کو بھی جگہ دی ہے۔

وہ کہتا ہے ”جب کبھی مجھ پر شاعری کی کیفیت طاری ہوتی ہے، تب کائنات کا ہر ذرہ اپنا سر ہتھیلیوں پہ اٹھا لیتا ہے، کہ میں تمہارے شکار کے لیے ہوں۔ کیا چاند، کیا ستارے، کیا کہکشائیں، کیا گھنگور گھٹائیں، کیا حسین و دلکش لڑکیاں، سب مجھے کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ، ہمیں اپنی شاعری میں منظوم کرو۔ جیسے ہم تمہاری شاعری کے ذریعے وہ امرتا حاصل کریں، جس کو موت بھی فنا نہیں کر سکتی۔ “

شیخ ایاز دو مارچ 1923 ء کو شکارپور میں پیدا ہوئے، اس کا پورا نام مبارک علی شیخ تھا، پر وہ شیخ ایاز کے نام سے مشہور ہوئا۔ وہ نہ صرف ایک شاعر پر پیشے کے اعتبار سے ایک اچھا اور کامیاب وکیل بھی تھا، جو اکثر اپنے کیس جیت جایا کرتا تھا۔ اسے نے ایک مرتبہ کہا کہ : ”میں دعویٰ کرتا ہوں کہ، میں نے نوے فیصد سے زیادہ فوجداری کیس جیتے، یہ دعویٰ بہت ہی کم پاکستان کے وکیل کریں گے۔

اس کی عقل و فہم، اور حافظہ اتنا تیز تھا کہ، جلد ہی ہر چیز کو دل و دماغ میں محفوظ کر لیتا تھا۔ اس نے بیرونی ممالک کا سفر کر کے وہاں کے ادب کو بھی غور سے پرکھا۔ وھ ﺳﻨﺪﮪ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﮐﮯ ﻭﺍﺋﺲ ﭼﺎﻧﺴﻠﺮ ﺑﮭﯽ رہا۔ شیخ ایاز نے اردو میں بھی شاعری کی، اور ان کی کتابیں بھی شایع ہوئی۔ اس ﻧﮯ ”ﺷﺎﮦ ﺟﻮ ﺭﺳﺎﻟﻮ“ ﮐﺎ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﻈﻮﻡ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﮐﯿﺎ، ﺟﻮ ﺍﺭﺩﻭ ﺍﺩﺏ ﻣﯿﮟ ﺳﻨﺪﮬﯽ ﺍﺩﺏ ﮐﺎ ﻧﯿﺎ ﻗﺪﻡ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ درجنوں کتابیں لکھنے والے شیخ ایاز کو انعامات و اکرامات بھی درجنوں ملیں۔ 23 ﻣﺎﺭﭺ 1994 ﺀ ﮐﻮ ﺁﭖ کو ملک ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺍﺩﺑﯽ ﺍﯾﻮﺍﺭﮈ ﮨﻼﻝ ﺍﻣﺘﯿﺎﺯ، 16 ﺍﮐﺘﻮﺑﺮ 1994 ﺀ کو ﻓﯿﺾ ﺍﺣﻤﺪ ﻓﯿﺾ ﺍﯾﻮﺍﺭﮈ ﻣﻼ۔ اس کے علاوہ سندھ میں بھی اسے بہت سے انعامات سے نوازا گیا۔

شیخ ایاز نے اپنے کسی کتاب میں لکھا تھا کہ، ”جب مجھے پتا چلا میں بیمار ہوں، اور جلد ہی موت مجھے اپنی آغوش میں لے لی گی، تو میں سارا دن لکھتا تھا۔ اتنے حد تک کہ، جب تک ہائیکورٹ میں میری کیس کی باری آئی، میں اپنے بینچ کے نیچے نوٹ بک چھپا کہ لکھتا تھا۔ جب میرے کیس کی سنوائی شروع ہوتی تھی تو، میں جھٹ سے نوٹ بک بند کر کے اپنے کیس کی طرف توجہ دینے لگ جاتا تھا۔ پر کسی وکیل کو کبھی شک نہ ہوئا، کیونکہ وہ سمجھتے تھے میں اپنی کیس کے حوالے سے تقریر درج کر رہا ہوں۔

میں رات کو تین بجے اٹھ اٹھ کر نظم اور نثر لکھتا تھا، کیونکہ میں جانتا تھا میرے پاس وقت کی قلت اور کام کی کثرت ہے۔ مجھے موت کی خواہش ہرگز نہ تھی، پر مجھے معلوم ہے کہ موت برحق ہے، ہر کسی نے ایک دن مرنا ہے۔ میری نظر میں آخری فاتح موت ہے پر عشق اس کو چکما دے سکتا ہے۔ میں موت کے ساتھ کبڈی کبڈی کھیلتا آیا ہوں، پر وہ مجھے ابھی گرا نہیں پائی ہے۔ چھ دفعہ میں نے اسے ہرا دیا ہے، اگر ساتویں مرتبہ وہ جیت بھی جائے تو کوئی بڑی بات نہیں۔ ”شیخ ایاز کو شاعری سے اس قدر لگاؤ تھا کہ، وہ کہتا تھا کہ شاعری میری محبوبہ ہے، ایک دفعہ اس نے کہا کہ“ ﺷﺎﻋﺮ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺷﺎﻋﺮ ﻧﮩﯿﮟ۔ ”

اس عظیم شاعر کو بہت دفعہ دل کا دورہ پڑا، اور طبیعت دن بہ دن بگڑتی گئی۔ اور آخر ﺷﯿﺦ ﺍﯾﺎﺯ ﮐﺎ انتقال حرکت قلب ﺑﻨﺪ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ 28 ﺩﺳﻤﺒﺮ، 1997 ﺀ ﮐﻮ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ۔ وہ ایک ایسا عظیم شاعر ہے، جو مر کر بھی فنا نہیں ہوئا، اس کی پیاری محبوبہ شاعری نے اسے کبھی مرنے نہیں دیا، ہمیشہ اس کو نیا جیون اور جلا بخشتی رہی ہے۔

آج اس کی جنم دن پہ ہم اسی ہی کی شاعری کے ذریعے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

سخی پیا کو ملنا تو کہنا کہ،

چاندنی تمہارے بن نہیں ہوگی۔

تم کو آنا ہے تو اماوس کی کالی راتوں میں ہی آجاو،

کیونکہ دوسری رات پھر نہ ہوگی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).