تحریک بستر بند اور تحریک بارود جیکٹ


تحریک ترک دنیا اور تحریک طالبان بظاہر الگ الگ مگر مقاصد، اہداف اور نتائج میں یکسو یکساں اور یک زباں ہیں۔ اول الذکر دنیاوی کام کاج، گھریلو ذمہ داریوں، روزگار، خاندانی حقوق وفرائض، معاشرتی اعمال اور ثقافتی رنگارنگی سے کنارہ کشی اور کنی کترانے کی ترغیب اور تحریص دلاتی ہے۔ تو تحریک طالبان بھی دنیاوی ضروریات حاجات ماں باپ بہن بھائی اور بیوی بچوں کے فرائض سے آپ کو مبرا قرار دیتی ہے۔ بارود بھری جیکٹ پہنا کر جنت اور وہاں کی حور و قصور کا نشہ دلا کر زندگی اس کی خوبصورتی اور امتحانات سے ایک دم آزاد کرتی ہے۔ دونوں آپ کو دنیا اور اس کی ”آلائشوں“ سے پاک کرتی ہیں۔ بس ایک جیکٹ پہناکر جنت بھیجتی ہے اور دوسری تحریک آپ کو بستر، دو جوڑے کپڑے اور سال کی زاد راہ گھر سے لے جانے کی اجازت دیتی ہے۔

جیکٹ والا بھی نہیں سوچتا کہ جب وہ پرزہ پرزہ ہوکر جنت پہنچ جائے گا تو اس کی بیوی اور بچے زندگی کا جہنم کون سے ایندھن سے گرم کریں گے۔ اور دنیا ترک کرنے بھی بستر اٹھانے کے بعد نہیں سوچتے کہ جانے کے بعد اس کی بیوی کے بشری ضروریات، بیمار بچے کی دوا، اور تعلیم و تربیت کا کیا ہوگا؟ جس ماں کے قدموں میں جنت تھی اس کو چھوڑ کر وہ کون سی جنت کو کمانے نکلا ہے؟ بوڑھا باپ جو چند دن کا مہمان ہے جس کے اس پر قدم قدم اور سانس سانس ڈھیروں احسانات ہیں جو اسے دیکھ کر جیتتا ہے۔ اس بوڑھے کے بے پناہ حقوق اس بیٹے نے ادا کرنے تھے۔ اللہ کی راہ میں نکلے ہوئے ایک نیک بندے کو سوڈان میں اطلاع ملی کہ اللہ نے بیٹا دیا اور اٹھارہ سال بعد جب وہ پھر سوڈان میں تھا تو اطلاع ملی کہ آپ کا بیٹا اللہ کے پاس چلاگیا۔ اللہ اللہ کیا شان ہے۔ سبحان اللہ۔

کیا کوئی بتا سکتا ہے اللہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے مشہور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کب کب اور کتنے مہینوں کے لئے اپنے بچے اور مدینہ چھوڑ کر باہر کے شہروں اور ملکوں میں تبلیغ کی عرض سے تشریف لے گئے تھے۔ صحابہ کاشتکار اور تاجر تھے۔ زکوٰۃ دیتے تھے کئی شادیاں کیں تھیں۔ (یہاں ایک شادی سے جان چھڑائی جا رہی ہے ) ۔ جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قبریں دنیا بھر میں پھیلی ہوئیں ہیں، وہ یا جہاد میں ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوئے یا سرکاری فرائض کے سلسلے میں تشریف وہیں لے گئے اور بہت سارے، واقعہ حرا کے بعد مدینہ چھوڑ کر جان اور دین بچا گئے۔ ایسا کوئی صحابی نہیں جو سالوں بعد تبلیغ سے آئے اور بچے کو نہیں پہچانتا تھا۔ بلکہ الٹا حضرت عمر کے پاس ایک صحابیہ شکایت لاتی ہے کہ اس کا شوہر رات بھر تہجد اور دن بھر روزے رکھتا ہے۔ اور اس کی بشری تقاضوں کا خیال نہیں رکھتا۔ آج عمر (رض) ہوتے تو پتہ لگتا کہ انہوں نے تو محاذ جنگ پر شادی شدہ مجاہد کے لئے تین مہینے کے بعد چھٹی کا قانون بنایا تھا۔

جیکٹ اور بستر والوں کے اہداف بھی مشترکہ اور ہم آہنگ ہیں۔ یعنی پختون اور پختونخوا۔ ایک سکول کالج یونیورسٹی پر حملے کرتا ہے دوسرا اس کی تعلیم سے نفرت دلاتا ہے۔ ایک بازار میں پختونوں کو مارتا ہے۔ دوسرا کہتا ہے یہ آپ کے اعمال کی وجہ سے ہوتا ہے (قاتل بے گناہ ہے )۔ ایک اس کے بچوں بھائیوں کو سکولوں بازاروں میں بموں سے اڑاتا ہے۔ دوسرا کہتا ہے۔ کوئی پتا بھی اللہ کی مرضی سے نہیں ہلتا (قاتل بے گناہ ہے ) ۔

ایک پختون عرب کی چلچلاتی دھوپ میں غیر انسانی حالات میں مزدوری کرتا ہے۔ دوسرا ان پیسوں پر کوئی روزگار کرنے اور مسافر بھائی کے بچوں کی نگہداشت اور تربیت کرنے کی بجائے سال سال گھر سے باہر رہتا ہے۔ اور دلیل بھی یہی دیتے ہیں۔ کہ جب بندہ سالوں غیر ممالک میں مزدوری کرتا ہے تو اس کی بیوی کا کوئی حق نہیں ہوتا؟ نبی کریم کا فرمان ہے نو حصے رزق تجارت اور ایک حصہ رزق باقی کاموں میں ہے۔ سال میں دو دفعہ لاہور میں اکٹھا ہونے کی صورت میں اگر دس لاکھ پختون تین ہزار روپے کا خرچہ کرتے ہیں تو سالانہ چھ ارب روپے کا بزنس لاہور کو دیتے ہیں۔

ایک طرف بریلوی داتا صاحب پر دن رات چڑھاوئے چڑھاتے ہیں دوسری طرف دیوبندی رائیونڈ شریف پر سالانہ اربوں نچھاور کرتے ہیں۔ لاہور کی شکل بدل گئی۔ ابادی کراچی سے بڑھی، اکانومی پورے پاکستان میں تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ اورنج ٹرین میٹرو۔ معاشی اور معاشرتی زندگی لبالب اور چھلکنے کو تیار۔ بس فرق نہ پڑا تو فلمی سٹوڈیوز میں، ڈرامہ کمپنیوں میں ناچنے والی اور جسم فروش بازاروں میں جسم بیچنے والی لڑکیوں پر، میلے ٹھیلوں پر۔

جبکہ دوسری طرف پختونخوا بدل گیا۔ چھوٹی شلواریں لمبی داڑھیاں، گرے ہوئے سکول، زخمی والدین، یتیم بچے، جلے ہوئے بازار اور دنیا بیزار لوگ۔ پوچھو ایسا کیوں ہوتا ہے جواب آئے گا ایمان کمزور ہے۔ بھئی ایمان صرف پختونوں کا کیوں کمزور ہے؟ عرس میلہ ثقافتی تقریبات تو چھوڑیں، یہاں تو رحمان بابا جیسے صوفی شاعر اور انسان دوست درویش کی قبر بھی نہیں بچی۔ یہاں پر اللہ کا تخلیق کردہ خواجہ سرا بھی مارا جاتا ہے۔ مرد فنکاروں اور ہنرمندوں کو ایک تحریک نے بے روزگار اور دوسری نے داڑھیاں رکھنے پر مجبور کیا۔ پیٹ کی آگ اور (بدکردار ماضی) سے چھٹکارا پانے کی نیت نے بستر پکڑادیا۔ ناچنے گانے والیاں علاقہ اور صوبہ چھوڑ کر جسم کے پیشے سے منسلک ہوگئیں۔ جو چند ڈرامے کے نام پر رہ گئیں ان کی لاشیں گنے کی کھیتوں اور کچرے کی ڈرموں سے تسلسل سے مل رہی ہیں۔

پختون معاشرے کو نارمل معاشرہ بنانے کے لئے ترک دنیا کی تحریک اور تحرکات سے نکالنا ہوگا۔ اللہ نے زندگی دی ہے تو زندگی سے لطف اندوز ہونے کا احساس اور موقع دینا ہوگا۔ جس طرح باقی پاکستانی نماز روزے اور روزگار کرتے ہیں ان کو بھی مذہب کی اتنی ہی ضرورت ہے نہ کم نہ زیادہ۔ ان کو مزید مسلمان بنانا مستقبل میں بدترین نفسیاتی، اقتصادی، اور روحانی قسم کی امراضِ کا باعث بنے گا۔

پختونخوا میں اکثریت ہونے کے باوجود دیوبندیوں کی مرکز لاہور ہے۔ اور تحریک کے سارے سیلیریٹیز بھی غیر پختون ہیں۔ ساتھ ساتھ جب پختونخوا میں رمضان اور عید کا چاند نظر اتا ہے۔ تو یہی دیوبندی پنجاب کے بریلویوں کے ساتھ عید اور روزہ رکھتے ہیں۔ پشاور کے پختون دیوبندیوں کے ساتھ نہیں۔ شازار جیلانی (لکھنے والا دیوبندی ہے۔ نہ کہ بریلوی، شیعہ یا قادیانی)

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani