طلاق دینے کا درست طریقہ


اس امر میں تو کوئی شک نہیں کہ طلاق ایک مشکل ترین فیصلہ ہے اور اس کے پیچھے ایک دو دن کا ماضی نہیں بلکہ عموماً سالوں لمبی ایک ناخوشگوار کہانی ہوتی ہے، جس کا نتیجہ اس تکلیف دہ انجام پر منتج ہوتا ہے۔ چونکہ یہ مشکل فیصلہ مشکل حالات سے گزر کر مشکل وقت تک پہنچانے والا ہوتا ہے، اس لئے ان حالات میں مزید کسی مشکل کا سامنا کرنے کی سکت عمومی طور پر دونوں اطراف پر نہیں ہوتی لیکن بعض اوقات ہم لوگ اپنی کم علمی، غلط فہمی اور ہٹ دھرمی کے نتیجے میں اس کو اور مشکل بنا لیتے ہیں۔

طلاق خواہ کتنے ہی احسن انداز میں دی جائے، اس کا انجام مشکلات کے آغاز کے طور پر ہی ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر کسی مغالطے کا شکار ہو کر اسے صحیح طریقے سے انجام نہ دیا جا ئے تو یہ ایک مشکل کئی اور مشکلات کا رُوپ دھارنے لگتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ سماج کے اندر پیش آنے والے ایسے ناگزیر حالات سے نپٹنے کا صحیح طریقہ سماج کے تمام ارکان کو عمومی طور پر معلوم ہو۔ یہ مضمون انہی حقائق کا احاطہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔

1۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تین طلاقیں دینے سے ہی طلاق کا عمل مکمل ہوتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک طلاق دینے کا نتیجہ بھی وہی نکلتا ہے، جو دو یا تین طلاقیں دینے کا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ ہاں! البتہ ایک طلاق دینے سے رجُوع کے دو موقعے عمر بھر کے لیے محفوظ رہتے ہیں اور دو طلاقیں دینے سے رجوع کا ایک موقع ہمیشہ کے لیے محفوظ رہتا ہے جبکہ تین طلاقیں دینے سے رجوع کے سارے مواقع ختم ہو جاتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یُوں سمجھئے کہ تین طلاقیں دینے سے واپسی کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں۔

سماجی ترکیب و ترتیب کے تناظر میں یہ انتہائی غیر مناسب روش ہے۔ عورت کی ”شرعی پاکیزگی“ کے زمانے میں صرف ایک بار طلاق کے حق کو زبانی یا تحریری طور پر استعمال کرنے کے بعد عدت کی پوری مدت رجوع نہ کرنے سے ہی طلاق واقع ہو جاتی ہے، آناً فاناً تینوں یا مہینے مہینے کے وقفے سے دوسری اور تیسری طلاق دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ دینِ اسلام کے تمام مکاتبِ فکر کے نزدیک طلاق دینے کا احسن ترین طریقہ متفقہ طور پر یہی ہے۔

اس طرح سے واقع ہونے والی طلاق میں ساری عمر واپسی کے راستے کھلے رہنے کا روشن امکان موجود رہتا ہے۔ معروف تابعی ابراہیم نخعیؒ بیان فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کا پسندیدہ طریقہ یہ تھا کہ طلاق کے معاملے میں ایک سے زیادہ نہ بڑھا جا ئے یہاں تک کہ عدّت پوری ہو جا ئے۔ امام ابن ابی شیبہؒ اور امام محمدؒ نے بھی صحابہ کرامؓ کے مجموعی طرز کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ صحابہؓ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ آدمی بیوی کو صرف ایک طلاق دے۔

2۔ ہمارے معاشرے میں عام طور پر یہ رواج ہے کہ کسی جھگڑے کے نتیجے میں یا کسی بھی اور وجہ سے بیوی اپنا گھر چھوڑ کرمیکے چلی جا تی ہے اور وہاں اُسے طلاق کا زبانی یا تحریری پیغام پہنچایا جاتا ہے۔ یا ایک صورت حال یہ بھی ہو تی ہے کہ طلاق ملتے ہی بیوی اپنا گھر چھوڑ کر میکے منتقل ہو جا تی ہے اور وہیں عدّت کی مدت پوری کرتی ہے تاکہ طلاق کی تکمیل ہو سکے۔ ان دونوں صورتوں میں رجوع کے ”شرعی امکانات“ محدود ہی نہیں بلکہ مفقود ہوکر رہ جا تے ہیں۔

ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے میاں بیوی کو ملنے والی تنہائی رجوع کے قوی امکانات پیدا کر سکتی ہے لیکن دونوں کا علیحدہ علیحدہ مقامات پہ رہنا اس امکان کو ہی ختم کر دیتا ہے جبکہ قرآن نہ صرف عورت سے مطالبہ کرتا ہے وہ عدت کی پوری مدت اپنے خاوند ہی کے گھر میں ر ہے بلکہ مرد کو بھی حکم دیتا ہے کہ عدت کے دوران عورت کو گھر سے نہ نکالے۔ قرآن کایہ حکم اتنا واضح ہے کہ کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں : لَا تُخْرِجُوْھُنَّ مِنْ بُیُوْتِہِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ (یعنی زمانۂ عدت میں نہ تم اُنہیں اُن کے گھر سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔ )

چونکہ احسن انداز سے دی گئی طلاق نکاح کے مقدس عمل سے قائم ہونے والے میاں بیوی کے مبارک تعلق کو فوراً نہیں توڑتی، اس لئے دورانِ عدّت دونوں کا علیحدہ علیحدہ گھروں میں رہنا بھی دین کی نظر میں پسندیدہ نہیں قرار پاتا۔ دین تو یہاں تک کہتا ہے کہ اگر عدت کے دوران زوجین ( میاں بیوی ) میں سے کوئی ایک فوت ہو جا ئے تَو دوسرا اس کا وارث ہے۔ دورانِ عدت بیوی کا اپنے گھر میں رہنا فقہاء کے نزدیک اتنا اہم ہے کہ اگر گھر تنگ ہو تو پھر بھی عورت کو گھر سے نکالا نہیں جائے گا۔

ملا احمد جیون اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ چونکہ عدت کی حالت میں قرآن نے بیوی کو گھر سے باہر نکالنے سے منع کر دیا ہے، اس لئے خاوند اس دوران بیوی کو اپنے ساتھ کسی سفر پر بھی نہیں لے جا سکتا۔ اگر ساتھ لے جانا بالکل ہی ناگزیر ہو تَو خاوند پر لازم ہے کہ پہلے رجوع کرے اور پھر اسے ساتھ لے جائے۔ عدت کے قرآنی احکام پر غور کیا جا ئے تَو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اسلام آخری وقت میں بھی دلوں کو جوڑنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ بگڑے ہو ئے حالات کو سنوارنے کا آخری موقع بھی ضائع نہیں کر نا چا ہتا۔ ہم اپنی جہالت اور حماقت سے اصلاح کا ہر موقع گنوا بیٹھتے ہیں۔ گویا ہمارا طرزِ عمل ہمارے دین کی منشاء سے مطابقت نہیں رکھتا۔

3۔ طلاق کے حوالے سے تیسرا اہم معاملہ حالتِ حیض میں طلاق دینے سے متعلق ہے۔ انسانیت کے سب سے بڑے محسن حضرت محمد ؐ کا طرزِ عمل اس بارے مکمل راہنمائی دیتا ہے۔ واقعہ کچھ یُوں ہے کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حیض میں طلاق دے دی۔ حضرت عمر ؓ نے نبی پاکؐ کی خدمت میں یہ معاملہ عرض کیا۔ رسولِ رحمت ؐ اس بات پہ بہت ناراض ہو ئے اور فرمایا: عبداللہ سے کہو، اس طلاق سے رجوع کرے۔ پھر جب اس کی بیوی ”پاک“ ہو جا ئے تَو پورا ایک طُہر انتظار کرے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3