پاک بھارت امن وقت کی ضرورت


پلوامہ حملے سے پیداُ ہونے والی صورت حال کے بعد پاک بھارت تعلقات جو پہلے ہی سرد مہری کا شکار تھے ان میں جیسے آگ بھڑک اٹھی ہے۔ بھارت نے اس حملے کا تمام تر الزام حسب معمول اور حسب روایت پاکستان پر عائد کیا اور ایسا کرنے میں بھارتی حکومت نے اتنی جلد بازی دکھائی کہ ابھی جائے وقوعہ پر امدادی عملہ بھی نہیں پہنچا تھا۔ یہ بھارت کا ایک پرانہ وتیرہ ہے کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کو پاکستان پر تھوپ دیا جاتا ہے۔

پاکستانی حکومت فوری طور پہ اپنا تعاون بڑھانے کا فیصلہ کر لیتی ہے۔

پلوامہ واقعہ کے بعد اس مرتبہ بھارت کا رویہ بہت جارحانہ ہے اور مودی سرکار نے خطہ کو جنگ کی دلدل میں پھینکنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ موجودہ مگر بہت ہی کشیدہ سرحدی صورت حال کو ہمیں تین مختلف زاویوں دیکھنا ہو گا۔

اوّل جنگ اگر ہوتی ہے تو اس کا دائرہ کس حد تک وسیع ہو سکتا ہے

دوئم کیا جنگ شروع ہونے میں ہم وہ سفارتی ہمدردیاں اور ساتھ حاصل کر سکیں گے جو عموماً جنگوں میں ضروری ہوتا ہے

سوئم کیا ہماری موجودہ اقتصادی اور معاشی حالت کسی قسم کی محدود یا مکمل جنگ کی تاب لانے کی سکے رکھتی ہے۔

کہاں تک جنگ کے دائرہ کار کا تعلق ہے تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ محدود جنگ ہی ہو گی مگر خدشہ اس بات کا بھی ہے کہ بھارت اس کے دائیرائے کار کا اپنی مرضی سے اوپر نیچے کر کے پاکستان کو مشکلات میں ڈال سکتا ہے کیونکہ اس کے پاس کھونے کو کچھ نہیں اور پانے کی امید بہت ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہمیں کبھی بھی یہ نہیں بھلانا چاہیے کہ بھارت نے تقسیم ہند جو کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا اور اکھنڈ بھارت کا تصور آج بھی ہندو ذہین میں کہیں ناں کہیں ایک حقیقت کے روپ میں جی رہا ہے۔

لہذا بھارت کو جب بھی تھوڑا سا بھی یقین ہوگا کہ وہ اس کا ایک قدم اکھنڈ بھارت کے تصور کو ایک قدم آگے لے جا سکتا ہے وہ اٹھا لے گا۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ بھارت آج سے دو دھائیاں پہلے تک بہت آسانی سے مذاکرات کی میز پہ آجاتا تھا کارگل جیسے واقعہ کے بعد بھی واجپائی امن کی بات کر لیا کرتے تھے اس وقت بھارت اپنی بین الاقوامی اقتصادی اور معاشی ترقی کے لئے جد وجود کر رہا تھا اور کسی بھی قسم کی جنگ سے دور رہنا چاہتا تھا مگر آج وہ اپنا مقام بنا چکا ہے لہذا اسے بات چیت کی اتنی ضرورت نہیں جس قدر پاکستان کو ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان نے اسی دوران اپنی معاشیات کو درست کیوں نہ کیا تو جواب ہے کہ پاکستان کے اقتصادی اور معاشی ماہرین ہمیشہ بیرونی امداد و قرضہ جات پر انہصار کرتے رہے اور ہماری خارجہ پالیسی اس تھرش ہولڈ کا تعین ہی نہ کر پائی کہ خطے میں ظہور پذیر ہونے والے تنازعات میں کس حد تک شمولیت کرنی ہمارے مفاد میں ہے لہذا دو دھائیوں تک امریکہ افغان تنازعے میں شامل رہنے کے بعد بھی سند تو نہ بن پائے مگر بوقت ضرورت کام آتے رہے۔ اس طرح ہم نے اپنا قیمتی وقت امداد کے بل بوتے پہ پرائے معاملات کو حل کرنے میں گذار دیا یہی وہ وقت تھا جب دنیا میں انفورمیشن ٹیکانالوجی نے حیران کن ترقی کی اور بھارت اسی کی مین پاور کا سب سے بڑا سپلائر بن گیا۔

اب ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم ہر قیمت پر بھارت کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں اور اس جنگی جنون کا خاتمہ چاہتے ہیں پاکستانی وزیراعظم نے تو دہشت گردی کو بھی مذاکرات میں شامل کرنے کی پیش کش کی ہے اور بھارت اسے فوری طور پر ماننے کو تیار دکھائی نہیں دیتا مگر خطہ کے امن اور استحکام کے لئے موجودہ جنگی صورت حال سے نکلنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔

دوسرا اہم مسئلہ ہماری سفارتی محاذ ہے۔ او آئی سی نے ہمارے موقف کے بر عکس بھارت کو اہمیت دی ہے اور یہ حقیقت ہے پاکستان کا اس اجلاس سے بائیکاٹ کرنا ایک نہایت سنگین غلطی تھی آج جبکہ او آئی سی کے مشترکہ اعلامیہ میں ہمارے موقف کی تائید ہوئی ہے تو کیا اگر ہم اس کا حصہ ہوتے تو آج ہمارے دوست زیادہ بڑھ کر ہماری حمایت کرتے۔ یاد رہے کہ بھارت کو صرف بین الاقوامی دباؤ ہی سے مذاکرات کی میز پر لایا جا سکتا ہے

ایسے میں جب ہم ایک حد تک سفارتی تنہائی کا شکار ہیں اور ترکی کے علاوہ کسی بھی ملک نے ہماری واضح سائڈ ہیں لی ہم نے ایک فورم کو اپنے مخالف دشمن کے سپرد کردیا اور اس نے اس کا بھرپور استعمال بھی کرلیا اور ہم اپنی عناد کو سنوارتے رہے۔

یاد رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو 1971 ء کے تنازعہ کے دوران دن میں کئی مرتبہ بھارتی وزیر خارجہ سورن سنگھ سے ملاقات کرتے رہتے تھے۔ آج ہم خارجہ محاذ پر کچھ نہیں کر رہے شاہ محمود قریشی کو تو روز اوّل سے ہی خارجی محاذ پر روانہ ہو جانا چاہے تھا مگر وہ آج بھی وہیں دفتر میں بیٹھ کر نجانے کون سی ڈپلومیسی کر رہے ہیں۔

ٹی وی شو پر آکر پرائم ٹائم بیان بازی عام سیاسی نمائندوں کا میدان ہے وزیر خارجہ کا نہیں۔ بھارتی طیارہ گرا کر پاک فوج اور پاک فضائیہ نے بڑا کارنامہ کیا ہے اور اپنی ہروفیشلزم کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے وزیراعظم نے بھارتی کمانڈر کو غیر مشروط آزاد کر دیا جبکہ جنگ کے بادل ناصرف ہمارے سروں پہ منڈلا رہے ہیں بلکہ بعض محاذوں پر تو بھارتی جارحیت بڑھتی جا رہی ہے ایسے میں اس طرح کے فیصلے اتنی جلد بازی میں نہیں ہوتے ہاں اگر بھارت اپنے رویے میں لچک لاتا تو ہم اسے چھوڑ دیتے اور بات آگے بڑھ سکتی تھی ہماری دانست میں ہم نے اپنی برتری کا ایک موقع کھو دیا۔

اور اس پر کوئی ہماری ایسی قابل ذکر سفارتی پذیرائی بھی نہیں ہوئی۔ اب بھی بھارتی جنگی جنون سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ وزیر خارجہ کو ہنگامی بنیادوں پر سفارتی ناہمواری کو درست کرنے اور بھارتی جنگی جنون کا چہرہ بین الاقوامی دنیا میں بے نقاب کرنے کے لئے طوفانی دوروں پر روانہ ہو جانا چاہیے۔ تاکہ ہم جنوبی اشیاء میں دیرپا امن کو یقینی بنایا جا سکے ہم بائیس کڑوڑ عوام کا ملک ہیں ہم واحد مسلم ایٹمی طاقت ہیں ہمیں اپنی اہمیت دنیا کے سامنے اجاگر کرنی ہے اور وہ وزیر خارجہ کے گھر بیٹھے رہنے سے نہ ہوگی۔ ترکی ہمارے ساتھ ہے چین کو ہم قائل کرسکتے ہیں امریکہ کو آج ہماری ضرورت ہے تو اس سے زیادہ اور کھا چاہیے سفارتکاری تو ایک سلور لائننگ سے روشنیوں کے مینار بنانے کا نام ہے اور شاہ جی گھر بیٹھ کر سفارت کاری کر رہے ہیں یہ وقت راہ عمل میں نکل جانے کا ہے بائیکاٹ کا نہیں۔

میری دانست میں ہمارا تیسرا مسئلہ یعنی معاشیات ہمارا اہم مگر کمزور ترین پہلو ہے۔ ہماری معاشی صورت ناصرف دگر گوں ہے بلکہ اس میں کوئی خاطر خواہ بہتری کی کوئی تدبیر مستقبل قریب میں بنتی دکھائی بھی نہیں دیتی۔ ایسے میں بھارت ہمیں طویل جنگی حکمت عملی کے گورکھ دھندے میں الجھا کر ہمارا معاشی قتل کرنے کی کوشش میں ہے اور ابھی تک جو صورت حال وقت موجود میں نظر آ رہی ہے کے مطابق وہ طویل المعیاد محدود جنگی تدبیر اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے جو ہمارے لئے اقتصادی طور پر درست نہیں ہے۔

ہماری افواج نلاشبہ دنیا کی بہترین افواج ہیں اور افواج پاکستان نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا دینا بھر میں منوایا ہے ہم عوام اپنے ملک پاکستان کی حفاظت اور سالمات کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہ کرنے والے ہیں۔ مگر جنگوں کے اثرات مدتوں قوموں کی زندگیوں میں ناسور بن کر زندہ رہ جاتے ہیں۔ آج کی دنیا میں جنگ کرنے کے اطوار بدل گئے ہیں دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ناگا ساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرا کر ہوا تھا۔ مگر کل کا اختتام آج کا آغاز بن چکا ہے۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ ہم موجودہ مشکل صورت حال سے کسے باہر نکلیں۔ بھارت مذاکرات کی میز پر آئے ایسا اسی صورت ممکن ہے کہ ہم سفارتی کوششییں کریں اپنی خطے میں مضبوط جغرافیائی طاقت کو اجاگر کریں اور اسے اپنی ڈھال بنا کر آگے بڑھیں اپنے بین الاقوامی دوستوں کی مدد سے بھارت کو ایک اچھے ہمسائے کی طرح پاسداری کا سبق سکھائیں اور یہ بھی واضح کریں کہ بھارت اگر اپنے جنگی جنون سے جلد باہر نہ نکلا تو جنگ کی صورت میں جو اقتصادی ترقی اس نے حاصل کی ہے وہ سب جنگی بارود کے دھویں میں ہوا ہو جائے گی چین سمیت دیگر ہمسایہ ممالک افغانستان روس اور چین کو اپنے موقف سے ہم آہنگ کرنا ہوگا تبھی بھارت کو دباؤ میں لاکر امن اور مذاکرات کا راستہ دکھایا جا سکتا ہے۔ اور اس کے لئے حکومت پاکستان کو فوری اقدامات اٹھانے ہوں گے عناد کے گھوڑے کو لگام ڈالنا ہوگی شاہ محمود قریشی کو ہنگامی اور طوفانی دوروں پر نکلنا ہو گا ہم امن چاہتے ہیں تو پیام امن کا علم بھی ہمارے ہی ہاتھوں میں ہونا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).