جنگ اور امن


جنگ کی عدم موجودگی کو امن کہا جاتا ہے، لیکن انسانی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی سماج تاریخ کے ہر دور میں جنگ و جدل کی زد میں رہا البتہ ہر دور میں انسانوں کی اکثریت نے جنگ کی مخالفت کی ہے اور امن سے محبت کی ہے۔ کیونکہ جنگ و جدل میں بے شمار بے گناہ اور معصوم انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے، اس لیے دنیا بھر میں بے شمار انسان جنگ سے نفرت اور امن و سکون سے محبت کرتے ہیں، کیونکہ جنگ سے نہ صرف معاشرے تباہی سے دوچار ہوتے ہیں بلکہ غربت افلاس اور بھوک و بیماریوں کی وجہ سے تباہی برپا ہو جاتی ہے۔

اکثر اوقات بڑی جنگوں کی صورت میں بڑے بڑے ممالک میں انقلابات بھی برپا ہوتے ہیں یا پھر بڑے بڑے ممالک زوال کا شکار ہو کر ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں مثلاً پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں زار روس کی بادشاہت ہمیثہ کے لیے ختم ہوئی اور زار روس کی بادشاہت میں دنیا کا سب سے بڑا سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا جبکہ سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر گیا، اور سلطنت عثمانیہ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوا۔

جبکہ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے دنیا میں کبھی سورج غروب نہ ہونے والی تاج برطانیہ معاشی طور پر دیوالیہ ہو گیا اور سلطنت برطانیہ کا شیرازہ بکھر گیا۔

جاپان کی بادشاہت انتہائی تباہ کن شکشت سے دوچار ہوئی جبکہ نازی جرمنی کے ایڈولف ہٹلر کا ایک ہزار سالہ عظیم جرمن سلطنت کا خواب جرمنی کی بدترین شکست کے ساتھ ٹوٹ گیا اور ہٹلر نے اس زلت سے بچنے کے لیے خودکشی کی۔ ان دو ورلڈ وارز کے نتیجے میں کئی عظیم سلطنتوں کو زوال آگیا اور ان کے ٹوٹنے سے ایک سو سے زائد نئے ممالک دنیا کے نقشے پر وجود میں آ گئے۔ اس لیے اکثر کہا جاتا ہے جنگ کے کوکھ سے تباہی یا انقلاب جنم لیتے ہیں، جسے کہ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں انقلاب روس نے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد انقلاب چین نے جنم لیا۔

جبکہ 9 / 11 کے ولڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون میں حملے کے نتیجے میں دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان ہوا اور دنیا جنگ وجدل کے ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔ دنیا کے کئی ملکوں میں اندرونی خانہ جنگی شروع ہوگئی، عرب سپرنگ اور دہشت گردی کے نام پر کہی سربراہ مملکت کو کرسی سے زبردستی اتارا گیا یا مارا گیا اور مڈل ایسٹ، لاطینی امریکہ سے لے کر افعانستان تک کہی حکومت کو گرایا گیا اور لاکھوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا جبکہ کروڑوں انسان اس وقت دنیا بھر میں مہاجرین بن چکے ہیں۔

جنگ وجدل میں قوموں کا یا تو عروج ہوتا ہے یا زوال۔

جسے دوسری جنگ عظیم میں تاج برطانیہ کا شیرازہ بکھر گیا جبکہ امریکہ جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے کے بعد دنیا کی واحد سپر پاور بن گئی، لیکن ان جنگوں کے نتیجے میں نہ صرف ملک کے ملک تباہ ہوئے بلکہ مجموعی طور پر کروڑوں بے گناہ اور معصوم انسانوں کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔

بقول مشہور تاریخ دان پال کینڈی کی کتاب

The Rise and Fall of Great Powers

میں دیے گئے اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ پانچ سو سالوں کی تاریخ میں بے شمار جنگیں لڑی گئیں لیکن پہلی اور دوسری جنگ عظیم دنیا کی سب سے خوفناک ترین اور تباہ کن جنگوں میں سرفرست ہے کیونکہ پہلی جنگ عظیم 1914 سے 1919 کے درمیان 80 لاکھ انسان براہ راست جنگ میں مارے گئے جبکہ 50 لاکھ انسان اس جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مختلف جان لیوا موزی امراض، خشک سالی اور بھوک و افلاس سے مرگئے۔ جبکہ پہلی جنگ عظیم کے دوران 70 لاکھ انسان ہمیثہ کے لیے معذور اور ایک کروڑ پچاس لاکھ انسان معمولی اور شدید زخمی ہوئے۔ اس جنگ میں بڑی تعداد میں مردوں کی ہلاکت کے نتیجے میں لاکھوں خواتین بیوہ اور بے شمار بچے یتیم ہوئے جبکہ دنیا بھر میں غربت بے روزگاری افراتفری لاقانونیت اور جرائم نے جنم لیا۔

مایوس افراد کی ایک بڑی فوج نے جنم لیا اور دنیا بھر میں انھوں نے انقلاب اور جنگی جنون میں بطور ایندھن کام کیا مثلاً ایسے لاکھوں نوجوانوں نے جرمنی کی بدترین شکست کے بعد ایڈولف ہٹلر کی نازی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور نازی اور فاشزم کی حمایت کی اور دنیا کو دوسری جنگ عظیم میں دھکیل دینے کا باعثِ بن گئے۔

اگرچیہ دنیا بھر کے امن پسند لوگوں نے امن کی اھمیت پر زور دیا اور دنیا میں امن وامان کے قیام اور ممالک کے درمیان تمام تنازعات کا پرامن حل کے لئے امریکی صدر ووڈرو ولسن کی قیادت میں لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں لایا، لیکن فرانس اور برطانیہ نے اپنے قومی مفادات کے لیے لیگ آف نیشنز کو یرغمال بنایا اور امریکہ کی اس تنظیم میں عدم شمولیت کی وجہ سے اور روس اور جرمنی کو اس تنظیم میں شمولیت نہ دینے کی وجہ سے لیگ آف نیشنز کی اھمیت اور دنیا میں اس کی اثر کم ہوئی اور جب پہلی جنگ عظیم کے فاتح ممالک نے لیگ آف نیشنز کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا تو اس تنظیم پر تبصرہ کرتے ہوئے دنیا کے سب سے بڑے عظیم روسی سوشلسٹ انقلاب کے بانی ولادیمیر لینن نے لیگ آف نیشنز کو چوروں کا باورچی خانہ قرار دیا۔

اس صورتحال میں لیگ آف نیشنز جرمنی کے ایڈولف ہٹلر اور اٹلی کے مسولینی کی جارحیت کو روکنے میں ناکام ہوئی اور اس طرح دنیا دوسری جنگ عظیم کا شکار ہوئی اور کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

بقول پال کینڈی، 1939 سے 1945 کے درمیان 2 کروڈ پچاس لاکھ افراد براہ راست جنگ عظیم دوئم میں ہلاک ہوئے، جبکہ دنیا بھر میں غربت بھوک افلاس اور مہلک امراض سے کروڑوں انسان متاثر ہوئے۔

جاری ہے۔

قسط دوئم کے لئے انتظار کریں ’شکریہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).