جنگ! تم سے نفرت ہے


بعض اوقات ہمیں معلوم ہی نہیں ہو تا کہ دشمن کی نفرت وعناد کی حدو د کہاں تک ہے وہ کس قدر عداوت و بغض کے سا نپ اپنے آستینوں میں چھپا ئے اپنے وار کا انتظار کر رہا ہے اسے ہما ری ہر کامیابی ترقی کھٹکتی ہے جس طرح فطرت تبدیل نہیں کی جا سکتی ویسے ہی نر یندر مودی جیسے لو وگوں کی ذہنیت بھی تبدیل نہیں کی جا سکتی۔

بھارت میں کو ئی بھی حا دثہ ہو اس کی سا ری ذمہ داری پا کستان پر ڈا لنے میں کو ئی دیر نہیں لگا ئی جا تی یہی سب کچھ پلوا مہ حملے کے بعد کیا گیا ہو نا تو یہ چا ہیے تھا کہ پو ری ذمہ دا ری کے ساتھ وجوہات تلاش کی جا تی چھان بین ہوتی پھر کسی کو ذمہ دار ٹہرایا جا تا مگر مودی سرکا ر کو جنگ کا اس سے اچھاسنہری مو قع کب مل سکتا تھا رات کی تاریکی میں حملہ کیا جس کا جواب ہما ری فوجی جو انوں نے بھر پور انداز سے دیابھارت کا ایک پا ئلٹ گر فتار ہوا پا کستان نے بڑے پن کا ثبوت دیتے ہو ئے اسے وا پس بھی کر دیا لیکن افسوس کہ بھارت کھلے دل سے شکر گزارہو نے کے بجا ئے سرحدوں پر سیز فا ئر کا سلسلہ جا ری رکھے ہوئے ہے۔

نریندر مو دی کو ساری دنیا میں جگ ہنسائی اپنا تما شہ آپ بنا نے کا شوق ہے ریا ست گجرات کی تبا ہی و بربا دی کی شرط پر اپنی حکومت استوار کر نے وا لی مودی پا رٹی اک با ر پھر آگ و خون کی ہو لی کھیلنے کو پر تول رہی ہے افسوس اس با ر بھا رتی میڈیا نے جس انداز سے پا کستان کے خلاف زہر افشانی کی ہے اس کی مثال ما ضی میں کبھی نہیں ملی اس قدر پڑھے لکھے طبقے کی جا نب سے کی گئی نمک پا شی کیا کبھی بھلا ئی جا سکے گی کیا یہ گزشتہ دہا ئیوں میں پھیلا ئی گئی نفرتوں کا نچوڑ ہے جو ان کی زبان وذہن کو زہر آلود کر چکا ہے۔

بے شک! سخت کلامی وہ شعلہ ہے جس کا دا غ ہمیشہ کے لئے دلوں میں ثبت ہو جا تا ہے حکمرانی الیکشن کی چالبا زیوں اورسیا ست سے ہٹ کر اگر دیگر شعبے ہا ئے کے لو گوں کی بات کی جا ئے تو ایسا کم ہی ہو اہے کہ اس قدر سخت قسم کے بیا نا ت دیے گئے جس طرح اس با ر سننے میں آئے ہیں بقول فیض صا حب ؔہم تو ٹہرے اجنبی کتنی ملا قا توں کے بعد یا پھر اس شعر کویکھئے کہ ؔ خون کے د ہبے دھلیں گے کتنی مدارتوں کے بعد!

بھا رتی اداکارہ پرینکا چو پڑہ، شبا نہ اعظمی ودیگر جس طرح ہالیہ دنو ں میں زہر افشا نی کی وہ کم ازکم گلزار صاحب کی الفا ظ کی لا ج رکھ لیتے کہ فنکا روں کی کو ئی سر حد نہیں ہو تی کیفی اعظمی کی سوویں سال گرہ پر کرا چی آرٹس کو نسل نے ایک تقریب کا اہتمام کیا جس میں شبا نہ اعظمی کو اپنے شو ہر کے سا تھ شریک ہو نا تھامگرانھوں نے ان کا ر کے ساتھ جو الفا ظ ٹویٹ کیے وہ یقینا نر یندر مودی جیسوں کی تسکین کے لیے تھے مگر ہم یہ سو چنے پر مجبور ضرور ہو ئے ہیں کہ کیا یہ صرف ایک دیوانے کا خواب ہے؟ جس کی تعبیر کے لئے کچھ سر پھرے محبت کے ما رے دونوں سر حدوں کے درمیاں گز شتہ 70 سا لوں سے آتے جا تے رہے ہیں۔

کبھی بس دو ستی کے سروس کے تحت، کبھی مشرف وا جپا ئی دعوتوں کی بنیاد پرتو کبھی امن کی آشا اور ریختہ کے تحت فنکار وادیب محبتیں با ٹنے کی کو ششیں کر تے ہیں کیا کبھی اس سے دلوں میں پڑی در ڑایں اور نفر تیں ختم ہو پا ئیں گی وہ زخم بھر پا ئیں گے جو نفرت با ٹنے وا لے پیدا کرتے رہتے ہیں ایسا کیوں ہے کہ دشمنی کی خلیج کم ہو نے کو نہیں آتی؟ کیوں اس طرح کے واقعات کے ذریعے نفرت کو بڑھا وا دیا جا تا ہے؟ کیا بھارتی سر کار کی پالیسی کا حصہ ہے کہ ان کاووٹ بینک انہی شر پسندوں کے ذریعے کا میابی حاصل کر تا رہے پاکستان نے ہمیشہ ایک ا چھے ہمسا ئے کا رول بخو بی ادا کیا ہے مگر بھا رت کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی ڈکشنری میں پڑو سیو ں کے حقو ق کا صٖفحہ سرے سے نہیں ہے وہاں کے اکثریتی عوام ان نفرتوں کو ختم کر نا چا ہتے ہیں مگر سفارتی سطح پر ایسا کچھ ہو تا نظر نہیں آتا۔

آج بھی وہا ں کے امن پسند پا کستا ن سے والہا نہ محبت رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دو نوں ملکو ں کے تعلقا ت بہتر ہو ں ویزوں کے مسا ئل کو دور کیا جا ئے با ہمی تجا رت کو فروغ حا صل ہو مگر چندسیا سی لیڈر ز ذاتی اغراض کوقومی مفا دات کا نا م دے کر اپنی سیا ست چمکا تے رہے ہیں انھیں اس با ت سے کو ئی فرق نہیں کہ پڑتا دو نوں جا نب کے عوام بھو ک، غربت کے ہا تھو ں خود کشیا ں کررہے ہیں وہ ننھے ہا تھ جن میں کتابیں ہو نی چا ہیے محنت کر نے کے با عث زخمی ہیں غر بت اور بے روز گا ری کے با عث ایسے المیے سامنے آرہے ہیں کہ انسا نیت بھی شرمسا ر ہو جا ئے۔

بھو ک بیما ری جہا لت نے عوام کو جذبا ت سے عاری کر د یا ہے حب الوطنی کے نام پر مر نے ما ر نے پر تل جا نے والے جنگ سے زیا دہ مالی و جا نی نقصان اپنے ہا تھو ں کر رہے ہیں آپس کی دو ستانہ مر اسم اورامن کی جب با ت کی جا تی ہے تو بھا رتی شدت پسند اسے کا میا ب نہیں ہو نے دیتے ا س با ت سے قطعی بے پر وا ہو کر کہ دو نوں ملک جو ایٹمی طا قت کہلا تے ہیں شر پسند عنا صر کی شہ پراس آگ میں کو د پڑے تو دو نوں طر ف با قی کیا بچے گا ہم اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفا ع پر خر چ کر تے رہے ہیں۔

صر ف سیا چن کی جنگ میں اب تک پا کستا ن اور بھا رت تقر یبا 10 ارب ڈا لر جھو نک چکے ہیں یہ دنیا کی بلندتر ین اور سخت ترین سرد علا قہ کہلا تا ہے سیا چن میں ہما رے پا کستانی 1344 جوان اور بھا رت کے 1025 جو ان جا ں بحق ہوچکے ہیں دو نو ں ملک سالانہ 20 سے 30 کڑورڑ ڈالر خر چ کر تے ہیں اگر امن کو یقینی بنا یا لیا جا ئے تو یہ رقم عوام کے فلا ح و بہبود پر خر چ کی جا سکتی ہے۔

اس وقت پورا پا کستان امن کا خواہاں ہے کیو نکہ ہم نے شدت پسندی کی بہت قیمت ادا کی ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم کسی جنگ سے خو ف زدہ یا گریزاں ہیں ہم پا کستانی جا نتے ہیں کہ کشمیر میں آزادی کی جد و جہد اور دہشت گردی میں واضح فرق ہے دہشت گردوں اور حریت پسندوں میں موت کے معنیٰ جدا ہے ہمارا ایمان ہے کہ ایک مسلمان کی موت شہا دت کا درجہ رکھتی ہے جس کے بعد وہ اپنی ابدی حیات جیتا ہے شہادت کی زندگی ہر مسلما ن کی سب سے بڑی آرزو ہے مگراب مودی سرکار کو سوچنا ہو گا کہ بغض و عناد اور نفرت کی تسکین میں پوری قوم کو تباہی میں دھکیلنا کہاں کی سمجھ داری ہے جنگ سے کبھی کسی کا بھلا نہیں ہوابیشک! جنگ تم سے نفرت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).