جنگ کے منڈلاتے بادل، کیفی اعظمی اور دو بلاگز


 ”ہم سب“ میں مظہر عباس کی تحریر ’پاک بھارت تناؤ، اگر آج کیفی زندہ ہوتے‘ نظر سے گزری۔ خوب لکھتے ہیں۔ موقع پرستی اور منافقت ان کی فطرت میں نہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور کراچی یونین آف جرنلسٹس میں ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا ہے۔ ان کی جرات مندی قابل تعریف ہے۔

ان تمہیدی جملوں کی ضرورت یوں پیش آئی کہ میری اس تحریر میں کسی منفی پہلو کی جستجو نہ کی جائے۔ یہ سطریں محض ریکارڈ کی درستی کے لئے لکھی جا رہی ہیں۔ بائیں بازو کی سرگرمیوں میں انتہا پسندی کے جن عوامل نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، ان میں شخصیت پرستی اور تجاہل عارفانہ کو نمایاں حیثیت حاصل رہی۔ جو پسند ہے، اسے دیوتا بنا لیا، جو کسی باعث ناپسندیدہ کی فہرست میں شامل ہوا، وہ سراسر راکھشش قرار پایا۔ گویا سیاہ اور سفید رنگوں کے علاوہ کوئی رنگ پسند نہ آیا۔ یہ بھول گئے کہ آدمی کشا کش حیات میں غلط فیصلوں کا ارتکاب بھی کر سکتا ہے۔

یک طرفہ یا اندھی پوجا کی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں، جس نے بائیں بازو کے کارکنوں کی بصیرت اور دانش کو سہل پسندی، تجاہل عارفانہ، گریز پائی اور ’عافیت پسندی‘ کا شکار بنایا۔ یہ شتر مرغ کے مانند ریت میں سر چھپانے کا عمل ہوا۔ دائیں بازو کے حلقوں میں بد ترین نمونوں کو لیپا پوتی کے ذریعے خوش نما یا قابل قبول بنانے کی تگ و دو تو سمجھ میں آتی ہے کہ ان کا خمیر ہی نابینا عقیدہ پرستی سے اٹھا ہے۔ بائیں بازو کا نظریہ مختلف تھا، وہ بھی اس بے راہ روی اور موقع پرستی میں مبتلا رہا۔ اگر صرف واقعات اور حقائق کی فہرست مرتب کی جائے تو بہت ساری کتابیں بن سکتی ہیں۔

صرف دو بین اور نمایاں ترین مثالوں پر اکتفا کروں گا۔ سوویت یونین نے بنیادی نظریات سے بار بار انحراف کیا لیکن اس کی پوجا واجب رہی۔ آخر کار وہ اپنے قفس میں جا قید ہوا۔ اب عوامی جمہوریہ چین کی مبالغہ آمیز ستائش کا سلسلہ جاری ہے، اگرچہ وہاں بدترین سرمایہ داری فروغ پا رہی ہے۔ پوجا پاٹ اور وقت پر سچ نہ بولنے کا یہ رویہ ہمیں زیب نہیں دیتا۔ اگر معاشرے میں طبقاتی تقسیم موجود ہے، اونچ نیچ کی دیواریں موجود ہیں، امارت کی فحش تصویروں کے ساتھ ناداری کے خوں آلود اوراق لکھے جا رہے ہیں تو اقتصادی نظام کی افضلیت کا دعوی فریب کاری کے سوا کچھ نہیں۔

برسبیل تذکرہ، ایک صاحب یہاں کمیونسٹ پارٹی کا نفس ناطقہ سمجھے جاتے تھے۔ حوصلے کی ہوا بگڑی تو الگ ہو کر بیٹھ رہے۔ طویل عرصے کے بعد ان کی کتاب بہ زبان انگریزی منظر عام پر نمودار ہوئی۔ موصوف نے واضح ترین الفاظ میں لکھا کہ اشتراکیت کا نظریہ از اول تا آخر خرافات میں شامل ہے، ناممکنات میں شامل ہے، فطرت کے اصولوں سے متصادم ہے وغیرہ۔ نظریاتی پارٹیوں، اور کمیونسٹ پارٹی میں بھی، یہ اصول لازم پایا جاتا ہے کہ علیحدگی اختیار کرنے سے پہلے علیحدگی کی وجوہات اور اختلافات کی بنیادوں کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے استعفٰے پیش کیا جاتا ہے۔ اسے ’تھیسس‘ لکھنا کہا جاتا ہے۔ موصوف پروفیسر صاحب سال ہا سال تک الگ تھلگ کسی مقدس وظیفے کی گردان کرتے رہے، اور اپنے ساتھیوں اور پیروکاروں کواپنے نئے علم کی ”روشنی“ سے محروم رکھا، تنہا اس روشنی میں نہاتے رے۔ پھر سو کر اٹھے تو اپنی کتاب کے ساتھ جلوہ گر ہوئے اور سب کچھ دریا برد کر دیا۔ ساتھیوں سے مخلص ہوتے تو انہیں پہلے سمجھاتے کہ اندھیرے کے پیچھے مت بھاگو، خود کو ضایع مت کرو۔

آگے جو کچھ ان گنہ گار آنکھوں نے دیکھا، وہ اور زیادہ حیران کن تھا۔ ہمارے ایک قانون داں ترقی پسند دوست نے اپنے گھر میں دس بارہ دوستوں کی محفل سجائی، مقصد صرف پروفیسر صاحب کی کتاب کا جائزہ لینا تھا۔ ہم بھی موجود تھے۔ سب نے اس کتاب میں درج واقعات اور پروفیسر صاحب کی موقع پرستی اور بے ایمانی کی نشان دہی کی۔ بڑے بڑے منصوبے بنے کہ انہیں باقاعدہ ایک مبسوط کتاب کی شکل میں بے نقاب کیا جائے گا۔ ہوا کچھ نہیں۔ پروفیسر صاحب رحلت فرما گئے تو مذکورہ محفل کے اکثر شرکا نے کراچی اور حیدرآباد میں، ان کے تعزیتی جلسوں میں بہ نفس نفیس شریک ہو کر انہیں اپنے ”شاندار“ الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا اوربعض نے کالم بھی لکھے۔ ناطقہ سر بہ گریباں۔

سو، اس پس منظر کے ساتھ اصل موضوع کی طرف واپس آتا ہوں۔ مظہر عباس کی دیانت داری میں شک نہیں، لیکن کیفی صاحب اپنی شان دار خدمات کے باوجود گہنا بھی جاتے تھے۔ صفت عالیہ کا استحقاق ضرور رکھتے ہیں لیکن دیوتا بھی نہیں تھے۔ دو دن پہلے جرمنی سے رمیز رحمٰن کا بلاگ بہ زبان انگریزی نظر سے گزرا تو بہت کچھ یاد آیا۔ انہوں نے کیفی صاحب کی ایک نظم کی کچھ سطریں پیش کی ہیں۔ انہیں پڑھنے کے بعد اس موضوع پر شاید مزید گفتگو کی گنجائش محسوس نہیں ہوتی۔ ملاحظہ کیجئے : بلاگ طویل ہے، صرف متعلقہ سطریں نقل کرتا ہوں۔

رمیز رحمٰن کے بلاگ کا عنوان ہے،

Make war great again? (Comrade Kaifi, Be Not Arjun!)

اور لنک ہے

https://thescensci.com/2019/02/27/lets-not-make-war-great-again-comrade-kaifi-be-not-arjun/

”برٹرینڈ رسل کے الفاظ میں : ایسے دانشور (وہ ٹی ایس ایلیٹ کے بارے میں بات کر رہے تھے) قتل عام یا خوں ریزی کے لئے کسی بھی عذر کو کافی سمجھتے ہیں لیکن یقینا وہ (ایلیٹ) یہ بات صاف صاف لفظوں میں نہیں کہتے۔ “

 ”اس تبصرے کو پیش نظر رکھتے ہوئے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران کیفی اعظمی کے نقطہءنظر کا جائزہ لیں: کیفی کامریڈ ان آرمز، امن سے محبت کرنے والے اور ترقی پسند کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ لیکن جنگ درپیش ہوئی تو وہ خود کو سنبھال نہ سکے۔ اپنی نظم ’فرض‘ میں انہوں نے لکھا:

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2