جن کے دل ان کے پیروں تلے آئے ہیں۔۔۔


ڈاکٹر شیر شاہ سید کے پاس اتنی کہانیاں کہاں سے آتی ہیں؟ اس سوال کا جواب ایک سال پہلے تک میرے پاس بھی نہیں تھا۔ آج میرے پاس بھی ان گنت کہانیاں ہیں لیکن ان جیسا لکھنے کا فن نہیں۔ یہ کہانیاں میں روز سنتی ہوں، روز سوچتی ہوں شاید اچانک جانے والوں سے جڑی کہانیاں اور ہوتی ہیں، اور جو لوگ کسی ایسی بیماری کا شکار ہو جائیں جس میں انہیں ہفتے میں کم از کم دو بار ہسپتال کا منہ دیکھنا پڑے ان کی کہانی اور ہوتی ہے۔ جن کے اپنے اچانک چلے جائیں وہ سوچتے ہیں کاش کچھ مہلت مل جاتی، جو ہمارے جیسے ملک میں کسی بیماری کی لپیٹ میں آ جائیں، وہ خود بھی تنگ آ جاتے ہیں اور ان کے اپنے بھی آخر تھک جاتے ہیں۔

بہت سی کہانیوں کے بیچ اُس رات سے اب تک میں ایک بیس سالہ جوان کے چہرے کی بےبسی ایک پل کو نہیں بھول سکی جو بتا رہا تھا کہ میں کھسے کے کارخانے میں کام کرتا ہوں، ہمیں ساڑھے چار سو روپے ملتے ہیں، دکاندار وہ کھسہ دو ہزار میں بیچتا ہے۔ کتنی دیر وہاں بیٹھے اس کے بلڈ پریشر کو مینج کرتے ڈائلسیز کے دوران میں اس سے کھسے کی داستان سنتی رہی۔ وہ کہیں امید کا دامن پکڑے تھا کہ میں ٹھیک ہو جاؤں تو پھر سے کام پہ جاؤں گا اور میں سامنے بیٹھی سوچ رہی تھی کہ امید بھی کیسی ظالم شے ہے۔ کس کے دامن سے الجھ رہی ہے؟ کیا مجھے اسے ایک بار پھر سمجھانا چاہیے کہ بالکل ٹھیک وہ اب کبھی نہیں ہو گا یا اسے ٹرانسپلانٹ کرانا ہو گا یا پھر اسی بیماری کے ساتھ جینا سیکھنا ہو گا۔ اتنے میں اس کا سوال پھر سے مجھے ان سوچوں سے باہر کھینچ لایا۔

 باجی! آپ کھسہ پہنتی ہیں؟

آپ کو کس طرح کا کھسہ پسند ہے؟

میں اسے بتانے ہی لگی تھی کہ ویسے تو جوتوں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے۔ سو جو بھی ہو، اس بھاگ دوڑ کا ساتھی ہو۔ اتنے میں کہتا ہے میں آپ کے لیے کھسہ بنا دوں تو پہنیں گی؟

میں انکار کرنا چاہتی تھی پر اس کے امید بھرے سوال کا جواب نفی میں نہیں دے سکی۔ نہ سمجھا سکی کہ ایسے تحفے تحائف لینا غلط ہے، سو کہہ بیٹھی کہ ہاں بھائی کیوں نہیں پہنیں گے۔ اس نے بہت شوق سے پوچھا تو پھر میں کون سے والا بناؤں؟

تم بتاؤ کون سے والا ؟

کہتا ہے مجھے تو تلے، گھنگھرو، موتی سبھی آتے ہیں لیکن سب سے اچھا تلے والا لگتا ہے۔

میں نے کہا چلو پھر آؤ تو لیتے آنا۔

اس نے ایک بار پھر بےیقینی سے پوچھا، “تو کیا آپ واقعی میرا بنایا کھسہ پہنو گی؟“

اسے یقین دلایا کہ ہاں ہاں تم بناؤ، ضرور پہنوں گی یہیں تمہارے سامنے ۔ اتنے میں ایمرجنسی میں ایک اور مریض کے آنے کا شور ہوا تو اس طرف لگ گئی۔

وہ بھی کرب کی ایک داستان تھی جو سنتے ہوئے کتنی ہی بار یہ خواہش کی کہ اگلی بار آنے تک یہ لڑکا ٹھیک رہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب معاملہ یوں ہے کہ اس کی طبعیت کبھی بھی بگڑ سکتی ہے اور اگلی بار جانے کس حالت میں آئے گا۔

ہم جیسوں کو بے حس کہنا آسان ہے پر بات ہماری بےحسی کی نہیں، اس ملک میں غربت، جہالت اور ناکافی وسائل کی منحوس مثلث کا شکار اتنے لوگ ہیں کہ کبھی کبھی جی چاہتا ہے تمام سابقہ و موجودہ حکمرانوں اور چوکیداروں کو یہاں ان سب کے بیچ لا کر بٹھا دوں کہ شاید ان کرتا دھرتاؤں کا دماغ ٹھکانے پہ آ جائیں۔ لیکن ایسے بھی آتا تو نہیں۔ خالی خولی احساس کا راگ الاپنے سے وہ سب مریض کیسے صحت مند رہیں جنہیں فی الوقت وسائل کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اور ہمارے فیصلہ ساز یہ وسائل سب سے زیادہ کہیں اور خرچ کرتے آئے ہیں۔

(اور پھر مجھے معلوم ہوا کہ کچھ روز پہلے وہ میری ڈیوٹی کے بعد آیا تھا، اب اُسے فالج بھی ہو گیا ہے، شکر ہے یہ منحوس خبر میں نے اُسے نہیں سنائی، میرا اُس سے دوبارہ سامنا نہیں ہوا،

کیا واقعی میں اُسے پھر دیکھنا چاہتی ہوں؟

شاید ہاں۔

کیا اِس حالت میں؟

شاید نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).