کشمیر کی آزادی کے دو ستارے : اداکارہ شمیم آرا اور شیخ رشید احمد


14 فرروری کو پلوامہ حملے کے بعد سے پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کا درجۃ حرارت اتنا بڑھا کہ معاملہ فضائی جھڑپوں تک جا پہنچا۔ سرحدی علاقوں میں دونوں طرف سے گولہ باری اور فائرنگ کے واقعات تو اب بھی جاری ہیں، تاہم یکم مارچ کو گرفتار شدہ بھارتی پائلٹ ابھے نندن کی واہگہ بارڈر پر حوالگی کے بعد سے اشتعال کا بدترین مرحلہ گزر چکا۔ اب سرحد کے دونوں طرف سستی وطن دوستی کا بازار سجے گا۔ جہاں بے معنی نعرے اور اپنی مفروضہ بہادری کے قصے سنائے جائیں گے۔ پاکستان میں اس کا پہلا اشارہ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے ایک ٹیلی ویثن انٹرویو میں سامنے آیا۔

شیخ رشید احمد بہت بہادر سیاستدان ہیں۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں بتایا کیا کہ کشمیر میں جہاد کا اعلان ہونے کے بعد وہ وزارت چھوڑ کر محاذ پر چلے جائیں گے۔ شاید وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کو معلوم نہیں کہ حالت جنگ میں ریلوے کا محکمہ جنگی نقل و حمل کے ضمن میں بنیادی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ ایسے موقع پر وزیر ریلوے وزارت چھوڑ کر جہاد کرنے چلے جائیں گے تو ریلوے کے معاملات کیا لال حویلی کے ملازمین چلائیں گے۔ لیکن شیخ رشید احمد باریک باتوں میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ انہیں حجم کی فراوانی میں اتنی دلچسپی ہے کہ تمباکو نوشی میں بھی سیگرٹ کی بجائے سگار پینا پسند کرتے ہیں۔

مذکورہ ٹیلی ویژن انٹرویو میں شیخ رشید احمد نے بتایا کہ انہوں نے آج تک آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جیسا دور اندیش جنرل نہیں دیکھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شیخ صاحب کی عقل اور فراست وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ 1985 ء میں شیخ رشید سر پر چار خانہ رومال باندھ کر جنرل ضیا الحق شہید کے ساتھ بیٹھ کر کابل، قندھار اور کشمیر کے لئے دعائیں کیا کرتے تھے۔ جنرل اسلم بیگ کے ساتھ ان کے تعلقات قابل رشک تھے۔ جنرل آصف نواز، جنرل وحید کاکڑ اور جنرل جہانگیر کرامت کی تعریف کرنے میں شیخ رشید احمد نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔

جنرل پرویز مشرف کو تو شیخ رشید احمد بڑی عقیدت سے سید پرویز مشرف کہا کرتے تھے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مداحی میں بھی شیخ رشید احمد نے سلوک کی نئی منزلیں طے کیں۔ 2016 ء میں جنرل راحیل شریف کے فراق کا دکھ تو راولپنڈی کے چوراہوں پر ایک ہی جیسی عبارت سے سجے بینروں کی صورت آویزاں کیا گیا تھا۔ یہ سب حضرات تو پاک فوج کے سربراہ تھے۔ شیخ رشید احمد تو میجر عامر، جنرل حمید گل اور جنرل شجاع پاشا کے باطنی کمالات کے بھی دل سے قائل رہے۔

بے شک شیخ رشید احمد نے جنرل قمر باجوہ کے بارے میں عصر حاضر کی سب سے بڑی سچائی بیان کی ہے تاہم شیخ رشید احمد کو دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں۔ خدا پاکستان کو سلامت رکھے، راولپنڈی کے راجہ بازار میں ان ریڑھیوں سے نہاری، مرغ چنے اور سری پائے کی خوشبو اڑتی رہے جہاں شیخ رشید احمد عوامی انداز میں ناشتہ کرتے ہیں۔ رائتے کا پیالہ دونوں ہاتھوں میں تھام کر حلق میں انڈیلتے ہیں۔ مارچ 2019 شروع ہو چکا ہے۔ صرف آٹھ مہینے باقی ہیں۔ 30 نومبر 2019 کو شیخ رشید احمد ایک ایسے آرمی چیف کا درشن کریں گے جس کے پائے کا بہادر، دور اندیش اور ذہین جنرل انہوں نے جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر 4 پر اپنی چالیس سالہ جبہ سائی میں نہیں دیکھا۔

شیخ رشید احمد فرماتے ہیں کہ مولانا مسعود اظہر بیمار ہیں اور پلوامہ حملے جیسی منصوبہ بندی نہیں کر سکتے۔ شیخ رشید کے نیاز مندوں کا حافظہ ابھی اتنا کمزور نہیں ہوا کہ انہیں نائن الیون کے فوراً بعد اسامہ بن لادن کے دفاع میں گھڑی گئی وہ بودی دلیل بھول جائے کہ اسامہ بن لادن کے گردے فیل ہو چکے ہیں اور وہ بیماری کی شدت کے باعث دہشت گردی کی منصوبہ سازی سے قاصر ہیں۔ واضح رہے کہ گیارہ ستمبر 2001 کے بعد جہاد کو دہشت گردی کا سرکاری نام دیا جا چکا تھا۔ اسامہ بن لادن کی بیماری کی دلیل رحیم اللہ یوسف زئی سے لے کر پرویز مشرف تک سب کے نوک زبان تھی۔ حیرت انگیز طور پر 2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد کے مکان سے بازیاب ہونے والے اسامہ بن لادن کے بچوں کی تعداد اور عمروں سے میڈیکل سائنس کا یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ گردے فیل ہونے کے باعث موت کے منہ پر کھڑے مریض کی مردانہ صلاحیت اور خوشگوار احساسات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔ اور وہ تواتر سے اپنی شرعی زوجگان کی گود ہری بھری رکھ سکتا ہے۔

yasin malik

ہمارے ملک میں شیخ رشید احمد جیسے عقل مند سیاست دان اپنا موقف تازہ ترین نوٹی فیکیشن یا ٹویٹ کی روشنی میں مرتب کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کے ماضی کی چشم پوشی قومی مفاد کے عین مطابق قرار پاتی ہے۔ آئیے آپ کو جون 2005 کا ایک قصہ سناتے ہیں۔ ان دنوں شیخ رشید احمد اس وقت تک کے سب سے دور اندیش جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں وزارت اطلاعات چلا رہے تھے۔ مقبوضہ کشمید کے معروف حریت پسند یاسین ملک پاکستان تشریف لائے۔ 14 جون 2005 کو اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں یاسین ملک کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد ہوئی۔ اسٹیج پر وزیر اعظم شوکت عزیز اور وزیر ریلوے شیخ رشید احمد رونق افروز تھے۔ یاسین ملک نے جوش خطابت میں شیخ رشید احمد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حاضرین کو بتایا کہ جہاد کشمیر میں شیخ رشید احمد نے تاریخی خدمات سرانجام دی ہیں۔

شیخ رشید احمد نے راولپنڈی کے قریب فتح جنگ کے مقام پر بیس ایکڑ پر پھیلے ہوئے اپنے فارم ہاؤس کو فریڈم ہاؤس کا نام دے رکھا تھا۔ کشمیری مجاہدین اس تربیتی کیمپ کو ترنول کیمپ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ یاسین ملک کے بقول 1988 سے 1991 تک اس کیمپ میں 3500 کشمیری حریت پسندوں کو جہادی تربیت دی گئی۔ یاسین ملک تو کشمیری جہاد میں شیخ رشید احمد کا روشن کردار بیان کر رہے تھے لیکن اسٹیج پر بیٹھے حکومتی نمائندوں پر بجلی گر چکی تھی۔

15 مہینے قبل جنوری 2004 میں اٹل بہاری واجپائی اور پرویز مشرف کشمیر میں دراندازی روکنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ نیز یہ کہ پاکستان میں سرکاری طور پر کبھی کشمیری حریت پسندوں کی عسکری تربیت کا اعتراف نہیں کیا گئیا تھا۔ تقریب ختم ہونے کے بعد اخباری نمائندوں نے شیخ رشید احمد سے یاسین ملک کے بیان کی تصدیق چاہی۔ شیخ رشید احمد نے جواب میں کہا کہ پنڈی میں بہت سے شیخ رشید رہتے ہیں۔ مجھے کیا معلوم کہ یاسین ملک کس شئیخ رشید کا ذکر کر رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ راولپننڈی میں بہت سے شیخ رشید موجود ہو سکتے ہیں لیکن جون 2005 کی اس شام سٹیج پر ایک ہی شیخ رشید موجود تھا۔ 1988 میں فتح جنگ کے مقام پر ایک ہی شیخ رشید کا فارم ہاؤس تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2