پنجاب واقعی جاگنے لگا ہے


گذشتہ دو ہفتے پاکستان کی تاریخ میں واقعی حیران کن رہے، ہم نے وہ کچھ ہوتے دیکھا جو ہم سے پہلے والوں نے نہیں دیکھا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری جنگی کشیدگی میں پاکستان سرکار اور افواج پاکستان کی کمال حکمت عملی اور پالیسیوں نے دنیا کو حیران اور بھارت کو جھنجھلا کر رکھ دیا۔ اس سارے معاملے میں اندرونی طور پر پاکستان اور با الخصوص پنجاب کے مجموعی کردار نے تو کمال ہی کردیا، جو تاریخی، شاندار اور قابل ستائش ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ برصغیر کی تقسیم میں سب سے زیادہ نقصاں بنگال اور پنجاب کا ہوا، بہت سارے تاریخدان اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اصل میں تقسیم تو بنگال اور پنجاب کی ہوئی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی پنجاب کی تقسیم درتقسیم کی باتیں بند نہیں ہوسکیں۔حالیہ پاک بھارت کشیدگی مین سب سے زیادہ خراب صورتحال کشمیر میں لائین آف کنٹرول یا پھر سیالکوٹ یا شکرگڑھ سیکٹر پر ہوتی ہے، اور صاف ظاہر ہے فوجی پیشقدمی میں سب سے پہلے ان علاقوں کے پرندوں کے گھونسلے جلائے جاتے ہیں، سبزیاں اکھیڑی جاتی ہیں، فصلیں تباہ کی جاتی ہیں، پھول مسل دیے جاتے ہیں اور درخت کاٹے جاتے جاتے ہیں، اور وہاں بسنے والے بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کے ساتھ بھی یہ ہی سلوک کیا جاتا ہے۔

مذہبی بنیادوں پر ”دو قومی“ نظریے کے سائے تلے بننے والے پاکستان میں ثقافتی طور پر چار پانچ قومی اکائیان بستی ہیں، اس بات پر بحث کرتے کرتے آدہی صدی گزر گئی مگر سرکاری نصابی گملے میں اگی اس قوم کے نوجوانوں کو یہ بات سمجھاتے کافی مشکل ہوتی رہے۔ سندھ، بلوچستان اور پختون خواہ کے لوگ اپنی قومی ثقافتی شناخت کے لئے جب بھی بات کرتے تو سننے والا کوئی نہ ہوتا۔اب کے بار کمال یہ ہوا کہ پنجاب خود اپنی قومی اکائی کی ثقافتی شناخت کی بقا اور اس کی ترویج کے لئے کے لئے میدان میں اتر پڑا اور اس کی پہلی آواز قومی اسمبلی کے ایوان میں پی ٹی آئی سرکار کے وفاقی وزیر برائے اطلاعات فواد چوہدری کی آواز میں سنائی دی ”ہندوستان اور پاکستان میں جب بھی کوئی جنگ ہوئی دونوں طرف سے صرف پنجابی ہی مارے جاتے ہیں۔

بہت ہوگیا اب جنگ نہیں ہونی چاہیے۔ ”یہ ہی بات تو ہمارے پنجابی دوست طارق جٹالہ صاحب گذشتہ بیس سال سے کہہ رہے تھے“ ہم نے یہ پایا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں جب بھی کشیدگی بڑہی سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان پنجاب کا ہوا اور جب بھی دونوں ممالک میں دوستی بڑھی تو سب سے زیادہ معاشی اور اقتصادی فائدہ بھی پنجاب کا ہوا۔ پاکستان ہمارا پیارا وطن ہے اس پر اک نہیں سو بار جان بھی قربان ہے، مگر ہمیں اس دیس میں امن، سکون، پیار اور بھائی چارہ چاہیے، اور اس کے لئے یہ ضروری ہے پاکستان اور بھارت کے درمیاں بھی امن رہے۔

دونوں ممالک کو باہمی رضامندی سے کشمیر کے مسئلے کو کشمیری عوام کے مطالبے کے مطابق حل کرکے خود سکون سے رہنا چاہیے۔ ”بھارت میں الیکشن قریب آتے ہی وزیر اعظم نریندر مودی کی شدت پسندانہ پالیسیوں کی وجھ سے جو کشیدگی کی صورتحال بنی تھی پاکستان کے تمام اداروں نے مل کر اس غبارے کی خوب ہوا نکالی۔ آزاد کشمیر میں اک خیالی جہادی کیمپ پر بھارتی حملے کے ڈرامے میں“ شہید ”ہونے والے درختوں نے بھی بھارت کی پوری دنیا میں کافی جگ ہنسائی کی، تو پاک فضائیہ کے شاہینوں کے ہاتھوں گرائے جانے والے بھارت کے دو مگ 21 طیاروں نے بھی بھارتی طاقت کو مٹی میں ملا دیا، اوپر سے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی پاکستان میں خاطر تواضع اور وزیر اعظم عمران کی جانب سے چند دنوں میں آزاد کرنے والے اعلان نے بھارت کو جھنجھلا کر رکھ دیا۔

پاکستان کی جانب سے ”امن کو اک موقعہ اور دو“ والی اس پالیسی پر پوری دنیا کو خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور کیا۔ پاکستان نیوی نے بھی بھارتی آبدوز کو پاکستانی پانیوں میں گھسنے سے روک کر ثابت کیا کہ ہم جاگ رہے ہیں، اور چاہتے تو آپ کو سلا سکتے تھے، مگر بہتری اس میں ہے کہ اپنی حدود میں رہو۔ اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں کے عظیم الشان قومی یکجہتی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ”دیس اور دھرتی کی حفاظت کے لئے پوری قوم اور تمام ادارے آپس کے سیاسی اور اندونی اختلافات بھلا کر ایک پیج پر متحد ہیں۔

”پاکستان کے میڈیا کا کردار تو کمال ہی رہا، وہ چاہتے تو بھارتی میڈیا کی“ ییلو جرنلزم ”کی طرح ملک میں ہیجانی کیفیت طاری کرسکتے تھے مگر انہوں نے میڈیا ایتھکس اور قومی وقار کا شاندار مظاہرہ کیا۔ ملک کے علماء، صحافیوں، طالب علموں، افواج، سیاسی جماعتوں، ادیبوں، فنکاروں حتاکہ تمام مکاتب فکر اور حلقوں نے خوب کردار ادا کیا۔ یہ ہی وجھ بنی کہ ملک کے اندر کوئی ہیجان پیدا نہیں ہوا، جو قوموں کے لئے اک بہتر عمل ہے۔

اس صورتحال سے منسلک دوسرے معاملات پر بھی پاکستانی عوام نے اس بار شاندار درعمل کا مظاہرہ کیا۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے اپنی عادت کے مطابق جب مودی سرکار کا غصہ ”ہندو مذہب“ پر نکالنے لگے تو اس کو پورے پاکستان سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، اس نے جلدی میں خوب معافیاں تلافیاں کی مگر کسی نے ایک نہ سنی، صرف تین گھنٹے کے اندر اس کو اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑگیا۔ وزیراعظم عمران خان کے حکم پر پنجاب کے وزیر اعلی عثمان بزدار نے اپنے ہی وزیر سے استعفیٰ طلب کرلیا اور اس کی جگہ پر خوش گفتار صمصام بخاری کو وزیر اطلاعات لگانے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔

واقعی یہ اک نیا پاکستان ہے۔اس پوری وایومنڈل میں جس چیز نے سب سے زیادہ حیران کن خوشی دی وہ تھی پنجاب کے انٹلیچوئل اور عوامی سطح پر مثبت تبدیلی۔ فیاض الحسن چوہان کے بیان پر پنجاب کے اکثر لوگوں نے خود کو نہ صرف اس بیانیے سے علحدہ کرلیا مگر اس مذموم عمل کی سخت الفاظ میں مذمت بھی کی۔ پنجابی ثقافت کی ترقی کے لئے کام کرنے والے رہنما خلیل اوجلہ کا کہنا تھا ”چوہان کی گندی ذہنیت والے بیان کو پنجابی عوام کا بیانیہ نہیں سمجھنا چاہیے، پنجاب نفرت اور شدت پسندی کی دھرتی بالکل نہیں، ہم تو شاہ حسین، بلھے شاہ، گرو نانک اور وارث شاہ کے وارث ہیں اور ہمارا ورثہ صرف محبت ہے۔

” پنجاب سے پیار کرنے والے ہزاروں اہل علم و دانش لوگوں نے صرف اک دن میں جس ایثار اور لبرل ہونے کا عملی مظاہرہ کیا ہے، پاک بھارت جنگی صورتحال میں پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا گیا۔ سوشل میڈیا پر اکثر پنجابیوں نے اپنی اپڈیٹس اپنے ہندو دوستوں کو ٹیگ کر یہ یقین دلایا ہے پاکستان کے ہندو سچے اور پکے پاکستانی ہیں اور سب ہمارے دیس کے لوگ ہمارے قومی بھائی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں پنجابی طلبہ کو سندھی پڑھانے والے پروفیسر اشوک کمار کھتری اور لاہور کے مشہور سوشل ورکر ارون کمار کا کہنا ہے کہ“ کل ایک دن میں انہیں سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر سینکڑوں فرینڈ رکویسٹ موصول ہوئیں، اور وہ سب پنجابی دوستوں کی تھیں۔

اس کے ساتھ ساتھ سینکڑوں فون کالیں، پیغامات اور ایمیلز موصول ہوئیں جن میں صرف یکجہتی اور محبتوں کے پیغامات تھے، ان میں اک بھی دھمکی آمیز پیغام نہیں تھا۔ یہ تو کمال ہوگیا اس وقت جب بھارت میں شدت پسند پارٹی بی جے پی کے کارکن اور شدت پسند لوگ وہاں کے اقلیتوں کو ستا رہی ہے تب پاکستان میں سرکار اور عوام اپنی اقلیتوں کی حفاظت کے لئے خود آگے بڑھ رہے ہیں۔ سندھ میں ”جیئے سندھ قومی محاذ“ (جسقم بشیر قریشی) کی جانب سے نریندر مودی اور بھارتی فوجی جارہیت کے خلاف نکالے جانی والی ”امن ریلی“ بھی اک بہت بڑا قدم مانا جا رہا ہے۔

اس کے باوجود سچ تو یہ ہے کہ اب کے بار جنگ مخالفت میں سندھ کے مقابلے میں پنجاب کی سول سوسائٹی زیادہ فعال اور کارگر ثابت ہوئی ہے۔سندھ کے لوگوں میں اک خیال ہمیشہ سے رہا ہے کہ جب بھی ”پنجاب جاگے تو پاکستان جاگے گا“ اس وقت پنجاب جاگ رہا ہے۔ پنجاب کے اہل علم و اہل دانش لوگ جب جاگیں گے اور اس بات کو سمجھیں گے کہ ملک کی تمام اکائیوں کے لوگ پاکستان سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں کہ جتنی خود پنجابی، تو ہمارے آپس میں محبت اور انسیت کا جذبہ پروان چڑہے گا۔ یہ ہی وہ جذبہ ہے جو ہمیں متحد کرسکتا ہے۔ محبتوں سے ہی محبت کو جنم دیا جاسکتا ہے، ڈنڈے، بندوق، لانگ بوٹوں، گمشدگیوں اور کافر یا غداری کے تمغوں سے کسی کو قریب نہیں کہا جاسکتا، ہاں خود سے اور پاکستان سے دور کیا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).