کیا خواجہ سرا کے سینے میں دل نہیں ہوتا؟


جی پی او چوک میں اسے دیکھ کر میں چونک اٹھا۔ بہت لاغر اور کمزور نظر آ رہا تھا۔ وہ امید بھری نظروں کے ساتھ ایک نوجوان جوڑے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ لڑکی کی نگاہ اس پر پڑی تو وہ ہاتھ منہ پر رکھ کر اپنی ہنسی کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اپنے میاں کی اوٹ میں ہوگئی۔ نوجوان نے اس کے پھیلے ہوئے ہاتھ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بیوی کا ہاتھ تھاما اور تیزی سے آگے بڑھتا چلا گیا۔ عین اسی وقت خواجہ سرا کی نظر مجھ پر پڑی۔ وہ میرے قریب آ گیا۔

گہرے میک اپ کی تہوں کے باوجود اس کی آنکھوں کے حلقے نمایاں ہو رہے تھے۔ ”یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟ کہیں عشق تو نہیں ہو گیا تمہیں؟ “ میں نے اس چھیڑا۔

خلاف توقع آج اس نے ہنس کر جواب نہ دیا بلکہ غمگین انداز میں بولا۔

”میں بہت بیمار رہی ہوں، مجھے اس وقت بھی بخار ہے اور میں نے کل سے کھانا بھی نہیں کھایا۔ “ میرا ہاتھ جیب کی طرف بڑھا پھر اچانک مجھے ایک خیال آیا تو میں نے ہاتھ واپس کھینچ لیا۔ ”چلو کسی ریسٹورانٹ میں چلتے ہیں۔ “ میں نے کہا۔ اس نے حیرت سے مجھے دیکھا پھر چپ چاپ میرے ساتھ چل پڑا۔ عثمانیہ ریسٹورانٹ میں داخل ہوئے تو کئی نگاہوں نے ہمارا تعاقب کیا۔ مجھے معلوم تھا کہ کئی دبے لہجے میں تبصرے بھی کر رہے ہوں گے لیکن مجھے ان کی پرواہ نہیں تھی۔ ایک میز پر بیٹھنے کے بعد میں نے کھانے کا آرڈر دیا۔ خواجہ سرا ممونیت سے مجھے دیکھنے لگا۔

”سنو میں تمہیں مفت میں کھانا نہیں کھلا رہا ہوں، میں تمہاری کہانی سننا چاہتا ہوں۔ “ میں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ خواجہ سرا مسکرا اٹھا۔ ”آپ سے یہی امید تھی۔ لیکن ابھی اتنی بھوک لگی ہے کہ میں بول نہیں سکتی۔ “

میں خاموش ہوگیا۔ بیرا کھانا لے کر آیا تو وہ کھانے پر ٹوٹ پڑا۔ میں اس کا نام بھی نہیں جانتا تھا لیکن برسوں سے اسے مری کی سڑکوں پر دیکھ رہا تھا۔ برسوں پہلے اس کے گلے میں ایک ٹیپ ریکارڈر ہوتا تھا اس میں زیادہ تر نورجہاں کے نغمے بجا کرتے تھے پھر اس کی جگہ موبائل فون نے لے لی۔ وہ جہاں سے گزرتا لوگ گانے کی آواز سن کر اس کی طرف متوجہ ہوتے۔ اب اس کی جوانی ڈھل چکی تھی میرے اندازے کے مطابق وہ پچاس کے لگ بھگ تھا۔ میں نے بہت دفعہ اسے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے دیکھا تھا۔ پھر جیسے میرے اور اس کے درمیان ایک خاموش معاہدہ ہو گیا۔

جب بھی اس سے میرا آمنا سامنا ہوتا تھا میں جیب میں ہاتھ ڈالتا تھا اور سو پچاس کا نوٹ چپ چاپ اس کے ہاتھ میں دے دیتا تھا۔ اس کے مزاج میں شوخی تھی وہ ایک دو ہنسی مذاق کی باتیں کرتا اور میں آگے بڑھ جاتا۔ اس سے زیادہ اس سے کبھی بات نہیں ہوئی تھی۔ کھانے کے بعد میں نے چائے منگائی۔ اس نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا۔ ”اب پوچھیں کیا پوچھنا ہے؟

”بس شروع ہو جاؤ اپنی زندگی کی کہانی سناؤ۔ “ خواجہ سرا چند لمحوں تک کسی سوچ میں ڈوبا رہا پھر ایک سرد آہ بھر کر بولا۔

میرا نام شمیم ہے۔ میرے باپ کی کریانے کی دکان تھی۔ میری پانچ بہنیں تھیں جو سب مجھ سے بڑی تھیں میرا نمبر چھٹا تھا۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو پہلا احساس نفرت کا تھا۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ جیسے میرا باپ ساری دنیا میں سب سے زیادہ نفرت بس مجھ سے ہی کرتا ہے۔ بہنوں کا رویہ اچھا تھا۔ ماں مجھ سے پیار تو کرتی تھی لیکن ڈری ڈری سی رہتی تھی۔ پھر ہمارے گھر ایک اور فرد آ گیا۔ میرا چھوٹا بھائی۔

سب اس سے بے حد پیار کرتے تھے۔ خاص طور پر میرا باپ اس پر جس طرح جان دیتا تھا مجھے اس بھائی سے بہت زیادہ حسد محسوس ہوتا تھا۔ وہ چار پانچ سال کا ہوا تو سکول جانے لگا۔ میری عمر آٹھ نو سال تھی لیکن میں نے سکول کی شکل تک نہ دیکھی تھی۔ میں نے دو تین بار سکول جانے کی ضد کی تو میرے باپ نے ایسا تھپڑ مارا کہ میرے گال پر نشان پڑ گئے۔

ہمارے گھر کے سٹور روم نے میری بہت سی آہیں اور سسکیاں سنی ہیں۔ نفرت کا نشانہ بننے یا تشدد کا شکار ہونے کے بعد وہی میری جائے پناہ ہوتا تھا۔ پھر وہ وقت آیا جب مجھے اپنی بہنوں کے کپڑوں میں خاص کشش محسوس ہونے لگی۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میں بھی ویسے کپڑے پہنوں جبکہ مجھے ہمیشہ میرے بھائی جیسے کپڑے فراہم کیے جاتے تھے۔

پھر ایک دن مجھے موقع مل گیا میری عمر اس وقت پندرہ سولہ برس تھی۔ میں نے اپنی بہن کے کپڑوں والے صندوق سے اس کے کپڑے اور زیر جامے نکالے اور سٹور میں چھپ کر پہن لئے۔ مجھے ان کپڑوں میں بہت اچھا لگ رہا تھا لیکن میری قسمت خراب تھی میری ایک بہن کسی کام سے سٹور میں آئی تو اس نے مجھے دیکھ لیا۔ وہ زور زور سے ہنسنے لگی۔ شاید اسے بھی معلوم نہیں تھا کہ ابا گھر آ چکے تھے وہ سٹور میں آ گئے پھر گھسیٹتے ہوئے مجھے وہاں سے نکالا اور سب کے سامنے پہلے تو جی بھر کے میری بے عزتی کی پھر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کر دی۔ پھر جب مارتے مارتے تھک گئے تو ہانپتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئے۔

میری درد بھری چیخیں فضا میں بلند ہو رہی تھیں۔ میری ماں پتھر کے بت کی طرح ساکت تھی۔ بہنیں رو رہی تھیں اور بھائی سہما ہوا بیٹھا تھا۔ میرے جسم کی بوٹی بوٹی دُکھ رہی تھی پھر بھی دل میں ملال نہیں تھا لیکن اس کے بعد میرے کانوں میں ایسا فقرہ گونجا کہ میری روح تک گھائل ہوگئی۔

میرے باپ نے چیختے ہوئے کہا۔ ”پتا نہیں کیسے یہ منحوس کھسرا ہمارے گھر پیدا ہو گیا، کاش یہ پیدا ہوتے ہی مر جاتا۔ “ میرے کانوں میں جیسے کسی نے پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا۔ دوپہر سے شام اور پھر رات ہو گئی۔ نہ میں نے کھانے پینے کی کسی چیز کو چھوا تھا نہ کسی سے بات کی تھی۔ میرا دل جل رہا تھا۔ مجھے اپنی حیثیت کا اندازہ ہو گیا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ اپنی جان دے دوں۔ وہ رات اس گھر میں میری آخری رات تھی۔ میں نے سوچا کہ میرا اس گھر سے کوئی واسطہ نہیں مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیے۔

چناں چہ صبح ہونے سے پہلے میں نے وہ گھر اور وہ شہر ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا۔ لاہور آنے کے بعد شروع شروع میں بہت تکلیف اٹھائی، فاقے کاٹے پھر ایک اپنے جیسے سے ملاقات ہوئی۔ وہ مجھے گرو کے پاس لے گیا۔ پھر میری زندگی میں بہار آئی۔ گرو کے پاس دل کے سارے ارمان پورے کیے جا سکتے تھے۔ وہاں میں نے ڈانس کرنا سیکھا۔ تھوڑا بہت لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا۔ پھر شادیوں اور محفلوں میں جانا شروع کر دیا۔

جوانی کا روپ چڑھا تھا اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی تھی۔ اس میں گرو کا حصہ بھی ہوتا تھا۔ پھر ایک دن گرو نے مجھے سمجھایا کہ آمدنی میں اضافہ کیسے کرنا ہے۔ مجھے بہت برا لگا لیکن گرو نے میرا سودا کر دیا تھا۔ ایک شخص مجھے لے گیا اور اگلے دن واپسی پر میری زندگی بدل چکی تھی۔ مجھے اپنے آپ سے گھن آ رہی تھی۔ میں نے گرو سے لڑائی بھی کی لیکن اس نے مجھے جسم فروشی کے دھندے میں لگائے رکھا۔

مجھے اس کام سے سخت نفرت تھی چناں چہ ایک دن گرو کو بھی چھوڑ دیا اور سندھ کو مسکن بنا لیا۔ دو تین سال سرکس میں بھی نوکری کی لیکن وہاں سے بھی نکلنا پڑا۔ پھر میں یہاں آ گئی اور مانگ تانگ کر گزارا کرنے لگی۔ اب تو حالات بہت خراب ہو چکے ہیں۔ میرے پاس تعلیم بھی نہیں، کوئی نوکری کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لوگ ایک خواجہ سرا کو دیکھتے ہی ہنستے ہیں، فقرے کستے ہیں لیکن مدد نہیں کرتے۔ ایک طبقہ اپنی ناآسودہ خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ہمیں استعمال کرتا ہے لیکن میری اب ایسی عمر بھی نہیں رہی۔ بہت برے حا لات ہے۔ نہ جانے کب موت آئے گی اور ان غموں سے نجات دے گی۔

خواجہ سرا یہاں تک کہہ کر خاموش ہو گیا۔ میں اس کی آنکھوں میں تیرتی نمی کو دیکھ رہا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسے تسلی دینے کے لئے کیا کہوں۔ ”دیکھو تم جو بھی ہو اس میں تمہارا تو کوئی قصور نہیں، تمہیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ تم رنگ و نور سے بھری اس دنیا میں زندہ ہو، سلامت ہو۔ زندگی بہت خوبصورت ہے۔ اس سے لطف اٹھاؤ۔ “ میں نے چند لمحے خاموشی کے بعد کہا۔

خواجہ سرا عجیب سے انداز میں مسکرایا۔ ”میں اس زندگی سے کیسے لطف اٹھاؤں۔ میری ماں نے مجھے کبھی گلے نہیں لگایا، میرے باپ نے مجھے ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا۔ عورتیں مجھے دیکھ کر ہنستی ہیں، مرد دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں، جنس زدہ نوجوان مجھے اپنی ہوس مٹانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، میں اگر مر جاؤں تو شاید کوئی مولوی میرا جنازہ بھی نہیں پڑھائے گا۔ ہر روز میرے کلیجے پر ایک زخم لگتا ہے ہر دن میرے دل پر چھریاں چلتی ہیں، مجھے آپ سے ایک سوال پوچھنا ہے صاحب! مجھے جواب ضرو ر دینا، مجھے صرف اتنا بتا دیں کہ کیا خواجہ سرا کے سینے میں دل نہیں ہوتا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).