کیا ارض وطن کو اب نواز شریف کا لہو بھی درکار ہے؟


ہمیں دسمبر کی وہ سرد شام آج بھی یاد ہے منظر بہ منظر، حرف بہ حرف من و عن۔ امی کی سہیلی کے گھر ایک ٹی پارٹی تھی جدھر انہوں نے سب کی بیٹیوں کو بھی مدعو کیا ہوا تھا۔ یوں تو امی کی سہیلیوں کے گھر جانے سے ہم بہنوں کی جان جاتی تھی لیکن آنٹی کے گھر ہاٹ اینڈ ساور سوپ بہت مزے کا بنتا تھا۔ جانا تو لازم تھا۔ عمر کا وہ حصہ تھا جب نہ صحت کی پروا ہوتی ہے اور نہ ہی وزن کی۔ سوپ، چکن اسپرنگ رول اور بروسٹ پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد ہم نے ایک بار پھر سوپ کا رخ کیا۔ امی کی گھوریوں کو یکسر اگنور کیا اور اپنا سارا دھیان سوپ کی طرف مرکوز رکھا۔ اس زمانے میں گیس کے ہیٹر چلانا بھی جوئے شیر لانا نہ تھا۔ ان کا مشترکہ ڈائننگ روم اور ڈرائنگ روم سب آنٹیوں کے قہقہوں اور نوکروں کے گلوں سے گونج رہا تھا۔ ہمیں کیا لگے؟ ہم تو کونے میں پڑی اس چنیوٹی کرسی پر اپنے مقصد حیات کی تکمیل میں مصروف تھے۔ بغیر کوئی آواز نکالے کہ تربیت بھی تھی اور ارتکاز کا تقاضہ بھی۔

یک دم لکڑی کے فریم والا شیشے کا دروازہ ایک دم سے کھلا۔ آنٹی کا چھوٹا بیٹا ایک زناٹے سے کمرے میں داخل ہوا۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا اور بال ہمیشہ کی طرح اڑے ہوئے تھے۔
’بینظیر بھٹو کا قتل ہو گیا ہے۔ ‘

یک دم خاموشی چھا گئی۔ دس سیکنڈ کے اس لمبے وقفے کے بعد سب کو احساس ہوا کہ کیا ہو گیا۔ کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ آنٹی نے خود جا کر ٹی وی پر دیکھا تو تصدیق بھی ہو گئی۔ بس خاموشی تھی۔ کوئی کسی کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ سب کے میک اپ سے اٹے چہروں پر ایک سراسیمگی تھی۔ ایک وحشت تھی۔ ایک انجان خوف تھا۔ محفل برخاست ہوئی۔ ہمیں بھی سوپ کا آدھا پیالہ وہیں چھوڑ کر امی کے ساتھ گھر کا رخ کرنا پڑا۔ امی رستے میں بھی خاموش تھیں۔ بظاہر پانچ منٹ کا پیدل سفر لمبا ہو گیا۔ قدم بھاری تھے اور چال بوجھل۔

گھر آتے ہی امی نے ہیٹر نہیں ٹی وی آن کیا۔ شہر میں ہنگاموں کا بیان تھا۔ عمر کے بائیسویں سال میں ہمیں اس بات کا احساس ہو رہا تھا کہ کچھ صحیح نہیں ہے۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ امی کو چھوٹے بھائی کی فکر پڑ گئی جو دوستوں کے ساتھ فلم دیکھنے نکلا ہوا تھا۔ اس کو فورا گھر آنے کا کہا۔ جب تک وہ گھر نہیں آ گیا امی کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہا۔

ٹیلیویژن پر عجیب سماں تھا۔ خون، سسکیاں، آہیں، آنسو، بھگدڑ، بین، بیان، اپنے ہی لہو میں رنگی بے نظیر کی لاش، کارکنوں کے وحشت بھرے چہرے، ٹی وی چینلوں کی بریکنگ نیوز۔ سب تھا۔ نہیں تھی تو وہ نہیں تھی۔ گاڑی کی چھت سے نکل کر پوری دنیا کو مسکراہٹ کے ساتھ للکارتی اپنے سرخ و سپید چہرے پر سے دوپٹے کو ہٹاتی وہ نہتی لڑکی نہیں تھی۔ سب کچھ بدل گیا تھا۔ لیکن کتنا بدلا تھا اور کتنا بدلنے کو تھا ہمیں اندازہ نہیں تھا۔

ہم عمر کے اس حصے میں تھے جب سیاست کی نہ سمجھ ہوتی ہے اور نہ ہی اس سے زندگی میں کوئی فرق ہوتا محسوس ہوتا تھا۔ یوں بھی فوجی آمر کا دور تھا۔ سیاست کا صرف اسی حد تک ذکر سنا تھا کہ پاکستان کی معاشی تنزلی سیاستدانوں کی وجہ سے ہے۔ یہ کرپٹ ہیں۔ ملک کو لوٹ کر کھا گئے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی سن رکھا تھا کہ میاں نواز شریف ڈیل کر کے سعودیہ چلے گئے تھے اور بی بی ڈیل کر کے واپس آ گئیں۔ اسپتال کے باہر بھی میاں نواز شریف کی فوٹیج دیکھی جس میں وہ اپنی ازلی حریف کی موت پر ان ہی کے ورکرز کو دلاسہ دیتے یوں غمگین تھے جیسے ان کے اپنے گھر میں موت ہوئی ہو۔ یہ سب ہمیں کیا سمجھ آنا تھا۔ سچ مانیے تو ہمیں یہی معلوم تھا کہ ان سیاستدانوں سے نفرت ہی ملک سے محبت ہے۔ ہم اس پر قائم تھے۔

بی بی کے مرنے کے بعد جب ٹی وی دیکھا تو دل میں کچھ کھٹکا سا لگا کہ کچھ غلط ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں کے مرنے کے بعد ان سے محبت کی جاتی ہے۔ ان کے مزار بنائے جاتے ہیں۔ بے نظیر کے خلاف بیانیے میں بھی کچھ کمی آ گئی۔ اب ان کو اس طرح ولن بنا کر پیش نہیں کیا جا رہا تھا۔ ان کے مخالفین بھی ان کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ تمام سیاستدان گڑھی خدا بخش موجود تھے۔ بے نظیر کی موت پر اندازہ ہوا کہ اس کے صرف تین بچے نہیں تھے۔ یہاں تو سب یتیم ہو گئے تھے۔ اندازہ نہیں تھا کہ واقعی یتیمی کیا ہوتی ہے۔

بارہ سال گزر چکے ہیں۔ پاکستان کی سیاست کو اگر بے نظیر سے پہلے اور بے نظیر کے بعد کے ادوار میں تقسیم کیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ ملک مزید غریب یو چکا ہے۔ اقوام عالم میں ہماری وقعت مزید گر چکی ہے۔ مہنگائی جس آسمان کو چھونے لگی ہے وہ خاصا بلند ہے۔

کچھ نہیں بدلا تو وہ کچھ کردار ہیں جو محض چہرے بدلتے ہیں۔ منتخب وزیر اعظموں کی تقدیر میں جو لکھا ہے وہ نہ بدلا ہے نہ بدلے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی تختہ دار پر لٹکی لاش کو یا نظیر بھٹو کا خون میں نہلایا وجود۔ بات ایک ہی ہے۔ منتخب وزیر اعظموں کی قسمت آج بھی وہی ہے۔ اب نواز شریف کا چہرہ ہے۔ یاد رکھئے گا کہ کردار وہی ہیں۔ اسکرپٹ وہی ہے۔ بس کچھ اس بار کا قتل کچھ انوکھا ہے۔

اب کی بار تڑپا تڑپا کر مارا جائے گا۔ اس مقدمے میں بیٹی کے ساتھ زنداں میں ڈالا جائے گا جس کا وجود ہی مشکوک ہے۔ محبوب بیوی کے مرتے وقت ساتھ نہ ہونے کا تیر جگر کے آر پار کیا جائے گا۔ بیماری میں اسپتال سے اسپتال گھسیٹا جائے گا۔ خاندان سے کاٹ دیا جائے گا۔ بار بار کسی ڈیل کی افواہیں اڑائی جائیں گی۔ اس یوسف کے سب برادران کو اپنی مٹھی میں رکھا جائے گا۔ ایک ایسی نسل تخلیق کی جائے گی جو ایک مرتی عورت اور ایک ستر سالہ دل کے مریض پر بھی فقرے کسے گی۔ ان کی تکلیف سے خوشی کشیدے گی۔ اسی روز مرتے آدمی کے قتل کا مہرہ بننے والے شخص کو امن کا خدا مانے گی۔

آپ نے دیکھا کہ کافی کچھ وہی ہے۔ جب بھی کسی منتخب وزیر اعظم نے سر جھکانے سے انکار کیا اس کی گردن کو نیزے سے گرایا گیا۔ بس آلہ قتل مختلف ہے۔ قاتل آج بھی وہی ہیں۔ قتل کی ایف آئی آر آج بھی لاوارث رہے گی۔ بس اب ذرا لسٹ لمبی ہوتی جا رہی ہے۔ مقتولین کی بھی اور قاتلوں کی بھی۔ اب کی بار ایف آئی آر میں بہت نام ہیں۔ یہ خاموش برادران یوسف، ایک مرتے شخص پر پھبتیاں کسنے والے یہ لوگ، دل کے درد کو ڈرامہ کہنے والے، انتقام اور حسد کی آگ میں جلنے والے یہ مہرے جو نہیں جانتے کہ اسکرپٹ نہیں بدلا۔ اگلی باری کس کی ہو کوئی نہیں جانتا۔

ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ لیکن بھٹو اور بے نظیر آج بھی للکارتے ہیں۔ نواز شریف کا جسم شاید کچھ عرصے تک زندگی کی قید سے آزاد ہو جائے۔ اسپتال تک جانے سے انکاری یہ ستر سالہ مریض دل کب تک اس بوجھ خو گھسیٹے گا؟ ابھی تو خاموش ہے لیکن مرنے کے بعد چنگھاڑے گا
’ووٹ کو عزت دو۔ ‘

کم بخت مزید عذاب پیدا کرے گا۔ یہ کانوں کو بہرہ کر دینے والا شور کسی کو چین سے سونے نہیں دے گا۔

شاید چاہ یوسف بھی چلائے گا
’دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت‘

مریم نواز کے آنسو بھی خشک ہو جائیں گے لیکن بہت کچھ بدلے گا۔ بہت سے ایوان لرزیں گے۔ ہر اینٹ سے پکار آئے گی
’ووٹ کو عزت دو۔ ووٹ کو عزت دو۔ ووٹ کو عزت دو‘

قاتلوں کی گردن پر منتخب نمائندوں کا اتنا خون ہے کہ شیکسپیئر کے مشہور کردار میکبتھ کی طرح بارہا دھونے پر بھی نہ اترے۔
بے نظیر کی موت پر اس کے مرنے کے بعد غم ہوا تھا۔ نواز شریف کی موت کا غم ہم ابھی منا چکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).