کہانی کھوتوں سے وطن کی خدمت لینے کی


میری بطور جوہری تربیت ہو رہی تھی۔ فرم کا امریکی مالک مجھے گھنٹوں اپنے پاس بٹھائے رکھتا اور مجھے قیمتی پتھروں بارے بتایا کرتا۔ کچھ سمجھ آتا اور زیادہ تر نہیں آتا تھا۔ اس دوران مالک کی بیوی نے ایک دن مجھے کچھ پھول تحفہ دیے۔ آدھے گھنٹے میں ہی جب میں آخری پھول کھا رہا تھا تو پکڑا گیا۔

غم غصہ اکٹھے ہو تو کیسا ہوتا اسی دن شاید پتہ لگا تھا۔ وہ سامنے بیٹھ کر کئی منٹ مجھے گھورتی رہی۔ اس نے پوچھا بھی تو بس اتنا کہ ’آر یو گوٹ اور وٹ؟ ‘ یعنی مجھ پر بکری یا بکرا ہونے کا شبہ کر رہی تھی۔ میں نے اس کو ایک پھول پیش کیا اور کہا ’مائی کھا کر دیکھ‘۔ آخری آدھا پھول پھر اسی نے کھایا۔

یہ سارا سین جس یار نے دیکھا تھا اس نے سارے دفتر میں یہ قصہ سنا دیا میں نے اسی کارکردگی کی وجہ سے اس کا نام بھیڈو رکھ دیا۔ وہ فرانس جا چکا ہے لیکن آج تک بھیڈو ہی کہلاتا ہے۔ ہم جب بھی ملیں اکیلے ہوں تو بھیڈو کی جانب ہاتھ کروں تو وہ کسی چھترے یا بکرے کی طرح اس پر ٹکر مارتا ہے۔ اس نے نام ہی نہیں قبول کیا اس میں بھیڈو کی صلاحیتیں بھی پیدا ہو گئی ہیں۔

البرٹو جیکب ہماری فرم کے جی ایم تھے۔ نام پر نہ جائیں وہ سراپا پاکستانی تھے۔ ساڑھے چار فٹ کا اتنا زیادہ پاکستانی پھر کبھی دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ البرٹو کے والد فوج میں رہے تھے لیکن اپنی حرکتوں اور عادتوں کی سے سر البرٹو کسی کرنل سے کم نہ تھے۔ ہر وقت محاذ پر رہتے تھے۔ ذہنی طور پر وطن کے خلاف کوئی بات محسوس کرتے ہی یلغار کر دیا کرتے تھے پہلے باتوں سے اور بعد میں ہاتھوں اور لاتوں سے۔

بھارت جانے کا انہیں بہت شوق تھا۔ دو بار دہلی ائر پورٹ پر امیگریشن والے سے دست پنجہ یعنی گھول کر کے پانچ دس منٹ میں ڈی پورٹ ہو کر واپس آ چکے تھے اور اس پر باقاعدہ فخر کرتے تھے۔ خیر بھیڈو نے انہیں پھول کھانے کا واقعہ بہت تفصیل سے سنایا۔ نیت صرف اس کی یہ تھی کہ میری اس حرکت سے وطن سے کوئی غداری برآمد ہو تاکہ سر البرٹو مجھ پر چھلانگ ماریں اور میری ایسی تیسی کریں۔

میری طلبی ہو گئی تھی۔ البرٹو سر کے دربار میں ان کی جوہر شناس نظروں نے پھول کھانے کے اس واقعے سے ایک حیران کن نتیجہ نکالا۔ مجھے افغان جنگ میں ایک سیکرٹ مشن کے لئے منتخب کر لیا۔ البرٹو سر نے بتایا کہ وہ دولت مند انسان ہیں۔ ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں مسلمانوں والی تو وہ سر شام ہی پینے کا شغل شروع کر دیتے ہیں۔ اکیلے نہیں پیتے، کئی پیاسے سفیر تک ان کی محفل میں آتے ہیں۔

مجھے ان تفصیلات سے دلچسپی نہیں تھی البتہ یہ سوچ کر خوشی ہوئی کہ سرداروں والی بنیان اور کچھا پہن کر البرٹو سر جب اپنے پکے کالے رنگ میں سفیر لوگوں سے ملتے ہوں گے تو کیسے لگتے ہوں گے اور ٹن ہو کر تو وہ مزید واہیات لگتے ہوں گے۔ سر البرٹو سے جب بھی ملنے پنڈی گیا تھا انہیں ان کی جنگی وردی یعنی کچھا بنیان میں ہی پایا تھا۔ اپنے سائیز کی بوتل سامنے رکھے وہ ٹن ہونے کی کوشش کر رہے ہوتے۔

میں یہ سب سوچ رہا تھا جب البرٹو سر نے کہا تمھیں پتہ ہے افغان جنگ میں پاکستان اور مجاہدین مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔ مجھے ایک سفارتکار نے بتایا ہے۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایسی کیا مشکل ہے جو البرٹو سر کو پتہ لگی ہے۔ البرٹو سر اپنا منہ میرے کان کے پاس لائے اور بولے کے مجاہدین کے پاس کھوتے شارٹ ہو گئے ہیں۔ سپلائی میں تعطل آ گیا ہے اور بڑے حملے کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔

کوئی سر پیر سمجھ نہ آیا تھا کہ اچانک البرٹو سر نے ایک لفافہ لا کر دیا اسے پڑھنے کا حکم دیا۔ کھولا تو کاغذ تھے ان پر ایک پیارا سا کھوتا بنا ہوا تھا نیچے اس کے بارے میں تکنیکی کوائف درج تھے۔ بہت تفصیلات تھیں، کتنے سی سی کا کھوتا ہو، اس کی ٹانگ کیسی ہو، اس کا وزن کتنا ہو، وہ دوڑ کیسی لگاتا ہو۔ اس کی دم کا سائز بھی درج تھا۔

بولے اب چھٹی کرو دفتر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمھارے بہت سے قبائلی دوست ہیں۔ باڑہ میں کھوتا منڈی لگتی ہے۔ کئی ہزار کھوتا درکار ہے۔ اب یہ ڈھونڈو، یہ وطن کی خدمت ہے۔ میں اب یہ سوچ رہا تھا کہ کھوتا راضی ہو جائے گا وطن کی خدمت کے لئے۔

بس آگے تاریخ ہے کھوتا گردی کی۔ بڑا مذاق اڑایا گیا میرا۔ جس دوست سے بات کرتا اس کی ہنسی خطا ہو جاتی۔ بزتی (بے عزتی) کرا کے میں ہر روز اپنے وطن کا پکا غدار ہو جاتا تھا۔ اگلے دن البرٹو سر میری چار گھنٹے کھچائی کرتے اور مجھے چھٹی دے کر روانہ کر دیتے کہ کچھ کر، کھوتے ڈھونڈ۔ اچانک مجھے اپنے مشر کا خیال آیا۔ اسے گھر والوں نے دکان پر بٹھا دیا تھا۔ وہ پاک افغان ٹریڈ کے امور کا ماہر ہوتا جا رہا تھا۔ خاندانی کاروبار میں سب کم اہم دکان ہی تھی جہاں اسے بٹھایا گیا تھا کہ اگر مشر کوئی نقصان کرے تو محسوس نہ ہو۔

مشر نے پہلے تو کہانی سن کر مذاق کو مذاق ہی سمجھا لیکن بعد میں کاغذات ملاحظہ کیے تو ایک دم سنجیدہ ہو گیا اور بولا کہ ان کو تو کئی ہزار کھوتے درکار ہیں۔ مجھے اس نے گھر بھیج دیا اور خود دکان سے بھی غائب ہو گیا۔ ایک دن بعد اس نے بتایا کہ بات ہو گئی ہے اور کام ہو جائے گا۔

اس دوران ہوا یوں کہ ہماری کھوتا سپلائی کا انتظارکیے بغیر ہی مجاہدین نے جلال آباد پر حملہ کیا اور پھر وہی ہوا جو سپلائی بغیر کسی لڑائی کا ہوتا ہے۔ البرٹو سر نے ہماری یعنی میری اور مشر کی بڑی آؤ بھگت کی اور شکست کی ساری ذمہ داری ان پر ڈال دی جنہوں نے سپلائی کا انتظار کرنے کی بھی زحمت نہ کی۔

جب ہم واپس جا رہے تھے تو مشر نے کہا اب کیا ہو گا۔ میں نے کہا جو ہونا تھا ہو گیا۔ تم نے آج سے پہلے کونسا سارے کاموں میں نفع ہی کمایا ہے بھول جا۔ تو مشر ٹھنڈی سانس بھر کے بولا کہ سونے سے سٹا یعنی گوبر بنانا تو اس پر ختم ہے لیکن مسئلہ اب ان پانچ کھوتوں کا ہے جو میں نے خریدے ہیں اور حجرے میں باندھے ہوئے ہیں۔

اب آگے کیا پڑھنا چاہتے ہیں آپ لوگ؟ وہی ہوا کہ ہمارا مشر خرو مشر یعنی کھوتوں کا مشر بھی مشہور ہو گیا۔ اسے آج بھی یاد آتا ہے تو کبھی البرٹو سر کو کبھی مجھے اور کبھی ان پانچ کھوتوں کے بارے میں ٹوں ٹوں کرتا ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi