لوگ ریٹائر ہو جاتے ہیں


بہت ساری سچائیاں اور حقائق پاکستان ایسے ملکوں میں دیوار پر لکھے ہیں پھر بھی عوام کو کامیابی کے ساتھ گمراہ کر لیا جاتا ہے۔ عدل و انصاف کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ عدالتوں کے سو موٹو اختیارات صرف منتخب حکومتوں میں استمال ہوتے ہیں۔ جب صاحبان عالی وقار کی منتخب کرائی حکومتیں آئیں، عدالتیں سوموٹو نہیں لے سکتیں، لیں تو عبرت کا نشان بن جاتی ہیں۔

بینظیر بھٹو جسٹس سجاد کو سندھی سمجھ کر اور نواز شریف حکومت بحال کرنے کے سپریم کورٹ فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھنے پر چیف جسٹس بنا دیں وہ بینظیر بھٹو پر ہی حملے شروع کر دیتے ہیں اختیارات کے اسی نشے میں جب نواز شریف پر حملہ کرتے ہیں تو سپریم کورٹ پر حملہ بھی ہوتا ہے ساتھی جج بغاوت بھی کرتے ہیں اور سپریم کورٹ سے فراغت بھی ہوتی ہے کہ صاحبان عالی وقار کے ساتھ غلط فہمیاں دور ہو چکی ہوتی ہیں۔

لوگ پوچھتے ہیں عدالتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی منتخب حکومتوں کا ناطقہ بند کیے ہوئے تھیں موجودہ حکومت میں کوئی سوموٹو کیوں نہیں لیتیں۔ عوام کو کون سا میڈیا بتائے گا عدالتیں شوکت عزیز کی وزارت عظمی میں بھی سو موٹو نہیں لیتیں تھیں کہ صدر صاحب ذی وقار تھا۔ عدالتیں جونیجو حکومت کے دوران بھی سو موٹو نہیں لیتیں تھیں کہ اس وقت بھی ایک صاحب ذی وقار صدر تھا۔

آج پاکستان پر پھر جونیجو حکومت ہے۔ آج پھر پاکستان پر شوکت عزیز کی حکومت ہے اس لئے کوئی سو موٹو نہیں ہو گا چاہے ساہیوال کا سانحہ ہوا یا ملکی معیشت کی تباہی ملکی سلامتی کے لئے سوالیہ نشان بن جائے۔

آج کوئی جج بھری عدالت میں کسی ناول کا حوالہ نہیں دے گا، کوئی جج آنکھوں میں آنسو لا کر رقت بھرے انداز میں قوم کو نہیں بتائے گا غیر ملکی قرضہ کتنا ہو گیا ہے اور ہر پاکستانی کتنے روپیہ کا مقروض ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھگانے والا کوئی جج پشاور میٹرو میں اربوں روپیہ کے نقصان پر جوش میں نہیں آئے گا۔ ہم قحط الرجال میں زندہ ہیں۔ بونے بڑے بن گئے ہیں۔ ہم دوسروں کے پاوں کاٹ کر قدآور بننے کے دور کے عینی شاہد ہیں۔

آج پالتو اینکرز حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر سمیت دیگر کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی پر نواز شریف کی تحسین نہیں کریں گے اس نے بروقت ملکی سلامتی کو لگے گھن کی نشاندہی کر دی تھی۔

جو عدالتیں جنرل مشرف کو بیماری کی بنیاد پر بیرون ملک جانے کی اجازت دے دیتی تھیں آج تین دفعہ کے وزیراعظم کی بیماری کی درخواست ضمانت کو فوری سماعت کے لئے سننے کے لئے نہیں لگاتیں۔ جن ججوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی وہ تمام خدا کے پاس پہنچ چکے ہیں لیکن بھٹو آج بھی زندہ ہے اور تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ جن لوگوں نے نواز شریف والا کارگل کیا وہ بھی کل ریٹائر ہو جائیں گے۔ سابق وزیراعظم کی بیماری جنرل مشرف والی نہیں، جس میں مریض بیرون ملک پہنچتے ہی محفل میں ڈانس کرتا نظر آتا ہے۔

یہ بیماری اصلی ہے۔ حکومتی بورڈ بھی بیماری کی توثیق کر چکے ہیں۔ لوگ آتے ہیں، لوگ چلے جاتے ہیں۔ لوگ پیدا ہوتے ہیں، لوگ مر جاتے ہیں۔ بھٹو مر گیا، بینظیر بھٹو مر گئیں، دنیا کے کام چلتے رہتے ہیں لیکن اداروں اور شخصیات کے کردار زندہ رہتے ہیں۔ نواز شریف نے ڈیل نہیں کی اور زیادہ قصور یہ کیا کہ ووٹ کو عزت دینے کی ضد کی۔

نواز شریف کو جیل میں کچھ ہوا تو وہ بھٹو سے بڑا بوجھ بن جائے گا۔ ووٹ کو عزت دینے کی ضد غداری نہیں بلکہ حب الوطنی ہے۔ پانامہ ڈرامہ اگر ملکی معیشت کے استحکام کا باعث بنتا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی اگر 200 ارب ڈالر تو کیا 50 ارب ڈالر ہی بھیج دیتے۔ برآمدات میں اضافہ ہو جاتا سب نے تحسین کرنا تھی لیکن یہاں تو ادائیگیوں کے توازن میں دیوالیہ ہونے کے خدشات پیدا یو گئے ہیں۔ لوگ اہم نہیں، ادارے اہم ہوتے ہیں۔ لوگ ریٹائر ہو جاتے ہیں، اداروں کے تقدس پر حرف نہیں آنا چاہے۔ ماضی میں جو ہوتا رہا، اس کو بھلا کر غلطیوں سے رجوع کرنے کا وقت ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی بھلے خلاف معمول پارلیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاس میں بریفنگ نہ دیں لیکن وہ اپنا کام موثر انداز میں کر رہے ہیں۔ ہماری دعا ہے ڈی جی آئی ایس آئی تمام غداروں کو ڈھونڈ نکالیں۔ اللہ اس ملک کا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).