میں لُٹ گیا کراچی کے بازار میں۔۔۔


میں لُٹ گیا، مگر میں برباد نہیں ہوا۔

قصّہ مختصر، میرے ساتھ کون سا پہلی بار ہوا ہے؟ نہ میں طفل مکتب ہوں کہ سراسیمہ ہو جاؤں۔ کراچی کا شہری ہوں، اس کی ضمانت دینے کی ضرورت پہلے بھی نہیں تھی، اب ثبوت بھی پکا ہوگیا۔ کراچی کا کون سا شہری ہے جس کے ساتھا ایسا نہیں ہوا۔ لوگ تو سات سات آٹھ آٹھ بار اس آزمائش سے گزر چکے ہیں۔ اپنی جگہ پکے ہو گئے ہیں۔ سبھی کے ساتھ ہوچکا ہے بلکہ ہوتا رہتا ہے تو پھر ”روئیے زار زار کیا، کیجیے ہائے ہائے کیوں؟ “

کوئی بات نہیں، پہلا ردعمل یہی آیا۔ پھر اس کے بعد، ٹیلی فون ہی تو تھا۔

پہیلیاں نہ بجھواؤ، کسی نے مجھ چُپ دیکھ کر اعتراض کیا۔

اس لیے ساری تفصیلات بتائے دیتا ہوں۔ جو یاد نہیں ہیں، وہ بھی حاضر۔ اتنی بار سنانا پڑا ہے کہ یہ قصّہ ازبر ہوگیا ہے۔ رات کو سوتے سوتے آپ میرا کندھا پکڑ کر ہلائیں تو میں فوراً شروع ہو جاؤں گا: حسن اسکوائر کے فلائی اوور سے نیچے کی طرف اُتر رہی تھی گاڑی۔ رش بہت تھا، ٹریفک حد سے زیادہ پھنسا ہوا تھا۔ ”

ایک ایک کرکے میں پھر ساری روداد سنانے لگتا ہوں۔ مگر میں وہ شہرزاد بن گیا ہوں جس کو کوئی ہنکارا بھرنے والا نہیں ملتا۔ اُلٹا سوال در سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

وقت کیا تھا، گاڑی میں اور کون تھا، قسم کے سوال تو بنیادی تفصیلات ہیں، مجھے ان کا جواب پہلے ہی فراہم کر دینا چاہیے تھا۔

 ”تم وہاں کیا کرنے جا رہے تھے؟ “

۔ ارے بھئی، چچا کے گھر جا رہا تھا۔ برسی کی فاتحہ تھی۔ دیر ہوگئی تھی اس لیے پریشان ہوگیا تھا۔ ایک صاحب نے براہ راست ٹوک دیا۔ ”تمہیں نہیں خبر کہ سرحد پر فوجیں تُلی کھڑی ہیں۔ کسی بھی وقت جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اور تم یہ قصّہ لے بیٹھے“

 ”تمہیں نہیں معلوم کہ وہاں سے نہیں جانا چاہیے، وہاں تو آئے دن لوٹ مار کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ “ ایک صاحب جو کراچی کے اسٹریٹجک معاملے پر نظر رکھتے ہیں، سب کو بتانے لگے کہ وہاں پر رینجرز کی چوکی جب سے ہٹائی گئی ہے اس طرح کی وارداتیں معمول بن گئی ہیں۔

 ”آپ وہاں کہاں جا رہے تھے؟ “ ایک اور سوال میری طرف آیا۔ سڑک کے کس طرف تھے؟ یونیورسٹی روڈ پر تھے یا دوسری طرف؟ ”

۔ میں ناظم آباد جارہا تھا۔ براہ راست سوال کا جواب دینا پڑا، مگر انہوں نے سنتے ہی مُنھ بنا لیا، جیسے کہہ رہے ہوں پھر تو یہ ہونا ہی تھا۔

۔ سیدھا راستہ تھا پھر اور کہاں سے جاتا؟ لوٹ مار کے واقعات کہاں نہیں ہوتے؟ کوئی ایسی جگہ ہے تو مجھے بھی بتا دیجیے۔

مگر سب سے مشکل سوال یہ تھا: کیسے ہوا؟

اب کیا بتاؤں؟ جی تو چاہا کہ وہ ڈاکو کہیں سے مل جائے تو اس پر پستول تان کر کہوں۔ نہیں، نہیں، یہ نہیں کہ میرا فون واپس کر دے۔ بلکہ وہ جس طرح جہاں گیر نے عالم نوجوانی میں نورجہاں سے کبوتر کے بارے میں پوچھا تھا کہ کیسے اُڑا، تو وہ مجھے نئے سرے سے لوٹ کر سب کو دکھائے کہ کیسے ہوا۔

وہ چور (جن کا نام میں نے نہیں پوچھا مگر ان کا انداز ضرور جہاں گیری تھا) نور جہاں کی طرح تعاون کرنے کے لیے ہرگز نہ تیار ہوتے۔ اس لیے یہ تاریخی حادثہ دکھانے کے بجائے بتانے کی حد تک رہ گیا۔ اس لیے مجھے سب کو بتانا پڑا اور میں نے رٹے رٹائے جملوں کا ایک خلاصہ ذہن تیار میں کر لیا۔ اب کوئی نہ بھی پوچھے تب بھی میں بتائے دیتا ہوں۔

 ”حسن اسکوائر کے فلائی اوور سے گزر رہی تھی گاڑی۔ رش بہت تھا۔ ٹریفک حد سے زیادہ پھنسا ہوا تھا۔ گاڑیاں رینگ رہی تھیں۔ اتنے میں گاڑی کے دروازے پر زور زور سے دھڑ دھڑ کی آواز آنے لگی۔ ڈرائیور کی طرف والا دروازہ کوئی پیٹ رہا تھا۔ اور چیخ رہا تھا، ڈانٹ رہا تھا۔ پہلے میں سمجھا کہ گاڑی جلدی نکالنے کے چکّر میں کوئی اسکوٹر والا ٹکرا گیا ہے اور وہ ڈرائیور کو برا بھلا کہہ رہا ہے۔ حالانکہ اس کے ڈانٹنے سے مجھے پہلے ہی سمجھ جانا چاہیے تھا۔ “

 ”اس کا لہجہ دھمکی والا تھا۔ ڈرائیور نے دروازہ کھولا اور زیر لب بڑبڑاتے ہوئے اپنا موبائل فون اس کے حوالے کر دیا۔ مگر اس کی آواز اونچی ہوتی گئی اور دھمکی بھی۔ “ پرس، پرس۔ ”وہ چیخ کر کہہ رہا تھا۔

ڈرائیور نے الٹے ہاتھ کی جیب سے بٹوہ نکال کر ذرا سے کھُلے ہوئے شیشے میں سے ٹھونس دیا۔

اس چیخنے، دھمکانے والے آدمی نے میرے بارے میں کچھ کہا۔ میں بالکل نہیں سُن پایا۔ مگر میری سمجھ میں آ گیا۔

ایک الوداعی، آخری نظر ڈالے بغیر فون اس کے حوالے کر دیا۔ اس نے فون کو مضبوطی سے تھام لیا اور رُکی ہوئی گاڑیوں کے بیچوں بیچ سے گزرتا ہوا جس طرح آیا تھا، اسی طرح غائب ہوگیا۔

 ”چند سیکنڈ اپنے اوسان بحال کرنے میں لگے۔ “ میرا بیان جاری رہتا ہے حالاں کہ کسی نے بھی نہیں پوچھا کہ پھر کیا ہوا۔ ”ڈرائیور نے گاڑی دوبارہ اسٹارٹ کی اور اسی رفتار سے آگے بڑھنے لگا، میری طرف مڑ کر دیکھتے ہوئے۔ “ آپ پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں۔ آگے کوئی ہوتا تو میں گاڑی اس کے حوالے کر کے جاتا اور اس کو پکڑ لیتا۔ اتنی آسانی سے فون نہیں دیتا۔ ”

میں نے اس کو سمجھانا شروع کیا کہ ایسے موقعوں پر مزاحمت نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے ہاتھ میں پستول تھی۔ گولی چلا دیتا تو تم کیا کرتے؟

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2