پاکستان میں انتہا پسندی کا خاتمہ، مگر کیسے؟


پاکستانی ریاست اور سماج کے سامنے آج انتہا پسندی کے خاتمے کا سوال ایک بہت بڑے چیلنج کی صورت میں کھڑا ہے۔ اس انتہا پسندی کے مظاہر ہمارے عمومی رویّوں سے لے کر سماجی ویب سائٹس پر ہمارے نوجوانوں کے افکار میں با آسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔ عدم برادشت کے گزشتہ کئی دہائیوں سے پھلتے پھولتے رجحانات نے سماج کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ اس لعنت سے نمٹنے کے لیے اگر بر وقت اقدامات نہ کیے گئے تو پورا سماجی ڈھانچا دھڑام سے نیچے آ گرے گا۔

کسی بھی مسلے کا حل اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے اصل علت و اسباب کی مکمل اور گہری سمجھ بوجھ حاصل نہ ہو جائے۔ چونکہ انتہا پسندی کا زہر پورے سماج کی رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے لہذا اس مسلے سے نمٹنے کے لیے ایک سنجیدہ کثیر جہتی مباحثے کی ضرورت ہے۔ یہ تحریر ایسے مباحث کے آغاز کے لیے میری ایک ادنیٰ سی کاوش ہے۔ امید ہے کہ اہل فکر و دانش اس بحث کو آگے لے کر چلیں گے اور پاکستان کے فیصلہ ساز ادارے ان مباحث کی روشنی میں سماجی اصلاحات کے عمل کو سنجیدگی سے لیں گے۔ موضوع کی طوالت کے باعث کسی ایک مضمون میں ساری گفتگو کو مقیّد کرنا ممکن نہیں اس لیے اس مضمون کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں ہم بالخصوص انتہا پسندی کے فروغ میں تعلیمی نظام کے کردار کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔

حکیم افلاطون نے فرمایا تھا کہ تعلیم کا مقصد معلومات کا ایک خزانہ اپنے ذہن میں اکٹھا کر لینا نہیں بلکہ یہ انسان کے اندر فکر و شعور کو اجاگر کرنا ہے کہ وہ زندگی کے حقائق کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کے قابل ہو جائے۔ یعنی تعلیم تب حصول علم کا ذریعہ مانی جا سکتی ہے جب یہ علم کے متلاشیوں کو ”کیا سوچا جائے؟“ کے بجائے ”کیسے سوچا جائے؟“ سکھلائے۔ جب یہ نئی فکر نئے خیالات اور زندگی کی حقیقتوں کو نئے زاویہ ہائے نگاہ سے دیکھنے کی اہلیت بخشے۔

نیا علم تقلید نہیں تنقید سے جنم لیتا ہے۔ موجودہ علمی دعووں پہ سوال سے جنم لیتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی صدیا ں گزرنے کے باوجود ہمارا علمی روّیہ میدان علم میں کوئی نیا معرکا تو کیا سر انجام دیتا ہم حصول علم کی اس بنیادی صفت سے بھی نا بلد دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایجادات کے میدان ہوں یا نئی فکر و فلسفہ کی بات ہماری دھرتی کی کوکھ با العموم بانجھ ہی نظر آتی ہے۔ میری عاجزانہ رائے میں یہ بانجھ پن کوئی اتفاق یا کسی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ گزشتہ سات آٹھ دہائیوں سے ہمارے بالا دست طبقات کی سوچی سمجھی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ جیسے صحراؤں کے بانجھ بدن سے کیکٹس جنم لیتے ہیں اسی طرح فکری بانجھ پن سے انتہا پسندی، عدم برداشت اور شدت پسندی جنم لیتے ہیں۔

آئیے اب ذرا انتہا پسندی کے فروغ میں تعلیمی نظام کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اسی تعلیمی نظام سے ان لوگوں کی شخصیت تشکیل پاتی ہے جو مختلف درجات میں اس ملک کا نظام چلانے کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں اور سماج کے فکری رجحانات کا تعیّن کرتے ہیں۔ گویا تعلیمی نظام ہی وہ نرسری ہے جہاں سے سماج میں مختلف کردار ادا کرنے والے لوگوں کی شخصیات کا تعیّن ہوتا ہے۔

تعلیمی نظام کے اندرونی مسائل پہ بات کرنے سے پہلے ایک اہم مسئلہ اس نظام کی تشکیل کرنے والے طبقات کے کردار کو سمجھنے کا ہے، جنہوں نے یہ مخصوص نظام تعلیم گزشتہ کئی دہائیوں سے ہم پہ مسلط کر رکھا ہے۔ وسیع تر مقاصد تعلیم سمجھے بغیر موجودہ تعلیمی نظام کے اندرونی مسائل جیسے نصاب، طرز تدریس وغیرہ پہ گفتگو ایک لایعنی اور لاحاصل نتیجے پہ جا کر ختم ہو جائے گی۔

پاکستان میں تعلیم طبقاتی تقسیم کو من و عن قائم رکھنے، مخصوص نظریات ٹھونسنے، اور سماج میں طاقت کے موجودہ تعلقات کو نہ صرف قائم رکھنے بلکہ ان تعلقات کو جائز قرار دینے کے لیے ایک طاقتور آلے کے طور پہ استعمال کی جاتی رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں روشن دماغ و آزاد فکر افراد کے بجائے تعلیمی اداروں سے خود اعتمادی سے عاری رٹو طوطوں اور مقلدین کی ایک بڑی تعداد فارغ التحصیل ہو کر نکلتی ہے۔ چوں کہ تعلیم کا وسیع تر مقصد ہی یہاں ایسی نسل کی تیاری ہے جو طاقت کے سامنے سر جھکا دے، معاشرے اور سماجی ذمہ داریوں سے بیگانہ ہو، اور اہل اقتدار کے جبر کو چیلینج کرنے کی صلاحیت سے عاری ہو، اس لیے پورا تعلیمی نظام کا ڈھانچا ان مقاصد کی تکمیل کے لیے ترتیب دیا جاتا ہے جس میں نصاب سے لے کر انداز تدریس اور طریقہ امتحان تک کے عمل میں زیادہ زور معلومات کے جمع کرنے اور تنقیدی صلاحیتوں کو مسخ کرنے پر لگا دیا جاتا ہے۔

اس کا سارا فائدہ بالا دست طبقات کو پہنچا ہے جو بلا شرکت غیرے اپنے اقتدار کوطول دینے میں کامیاب رہے۔ مگر یاد رہے کہ ہر تجربے کے کچھ سائڈ ایفکٹس بھی ہوتے ہیں۔ تعلیمی نظام کو جابرانہ نظام کی ضرورتوں کے مطابق تشکیل دینے کے نتیجے میں یہاں یک رخی سوچ، تنّوع کے لیے عدم برداشت اور ہر اختلافی فکر کو مٹا دینے کی خواہش جیسے انتہا پسندانہ رویوں نے جنم لیا۔ جیسے صحراؤں کے بانجھ بدن کیکٹس کو جنم دیتے ہیں ویسے بانجھ فکرانتہا پسندی کے روّیوں کا سبب بنتی ہے۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).