میں لُٹ گیا کراچی کے بازار میں۔۔۔


اس کے پاس دکھ بھرا جواب تھا۔ ”نیا فون لیا تھا دو دن پہلے۔ پیسے جمع کرکے۔ گھر والوں سے بات کرنے کے لیے۔ “

ہمارا یہ لاحاصل مکالمہ شاید مہمل ڈرامے کی طرح جاری رہتا مگر آس پاس کے گزرنے والوں نے تجسّس کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا۔ برابر کھڑے ہوئے اسکوٹر پر سے سفید داڑھی والے ایک صاحب نے گاڑی کے اندر مُنہ ڈالتے ہوئے پوچھا، ”کیا ہو گیا جی؟ “

آپ کو نظر نہیں آرہا؟ ڈرائیور کا پارہ چڑھنے لگا۔ مدد کے لیے تو کوئی آتا نہیں، دیکھنے کے لیے سب رک رہے ہیں۔

سڑک پر گاڑیاں دوبارہ چلنے لگیں۔ میں نے شیشے میں سے نظر دوڑائی۔ کئی لوگ ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ پھر ٹریفک چلنا شروع ہوا تو انہوں نے نظریں پھیر کر سامنے دیکھنا شروع کر دیا۔ کراچی کی سڑکوں پر روز کھیلا جانے والا تماشا ختم ہوا۔ تماشا ختم، فون بھسم۔ ”

اب میں سانس لے سکتا ہوں۔ کہانی میں وقفہ آ گیا۔

 ”پھر میں کیا کرتا؟ “ میں نے اپنی بات پوری کی اس سے پہلے کہ کوئی اگلا احمقانہ سوال کر ڈالتا۔ ”میں واپس آ گیا۔ فاتحہ کا وقت تو پہلے ہی نکل چکا تھا۔ ٹریفک اسی طرح تھا۔ وہاں سے نکلنے میں اتنا وقت لگ گیا۔ “

یہاں پر ہر بار میں اشارہ کرتا ہوں کہ دو گھونٹ چائے تو پلوا دو، بول بول کے حلق سوکھ گیا ہے، یہ چائے کے لیے ”کیو“ ہے ورنہ شاید کوئی پوچھے بھی نہیں۔ تجسس اور پھر معمولی سی ہمدردی کے بجائے اب بالکل الگ قسم کے تاثرات سامنے آنے لگتے ہیں۔

 ”شُکر کرو، جان بچ گئی۔ “

 ”فون چھیننے کے بجائے گولی مار دیتا تو کیا ہوتا؟ “

 ”چلو چھوڑو، تمہاری جان کا صدقہ گیا سمجھ لو۔ “

ایک بے تکلّف سامع میرے واقف حال تھے۔ انہوں نے تسلّی اپنے اندازمیں دی۔ ”چلو فون بدلنے کا موقع مل گیا۔ ورنہ تم کون سا فون بدل لیتے ہو۔ “

مقام شکر یہ ہے کہ سب لوگوں نے میرے غصّے اور جھّلاہٹ کو صدمے کا نتیجہ سمجھا۔ واقعے پر رائے زنی کے بعد اگلا مرحلہ مشوروں کا تھا۔ پہلے سے زیادہ جاں کاہ اور جاں سوز مرحلہ۔

جتنے مُنھ اتنی باتیں۔ لٹنے میں دو منٹ لگے۔ اس کے بعد کے مرحلوں سے گزرتے ہوئے اگلے دن کا بڑا حصّہ۔ اور رہ گئے مشورے، تو وہ اب تک سُن رہا ہوں۔

پھر اس کے بعد اگلی صبح سے وہ جان گسل مرحلے۔ لُٹ جانے اور ٹیلی فون چھن جانے سے زیادہ تکلیف دہ۔

ایک مہربان دوست نے میری سم بند کروا دی تھی۔ ورنہ باقی دوستوں نے تو بولتی بند کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اگلے دن ڈھونڈتا ہوا وہ ٹیلی فون کمپنی کے دفتر پہنچا۔ قطاروں میں لگا، مدعا بیان کیا، شناختی کارڈ دکھایا، انگوٹھا لگایا (یعنی مشین پر وہ بھی اپنے ہونے کی تصدیق کے لیے )، کاؤنٹر پر بیٹھی خواتین کی توجّہ حاصل کرنے کے لیے بہت جتن کیے۔ تب کہیں جا کر وہ کاغذ کے ٹکڑے میں ملفوف سم ملی جس سے میں کہنا چاہ رہا تھا۔ کھُل جا سم سم!

وہ سم ایک نئے ٹیلی فون میں کھُلی۔ دوکان والے نے درجنوں ماڈلز سامنے رکھ دیے (جی ہاں، ٹیلی فون کے ) پھر جس کی قیمت جیب کے مطابق لگی اس پر ہاتھ رکھ دیا۔ اب اس سے بڑا مرحلہ ڈیٹا ٹرانسفر کا۔ نہ پوچھیے اس میں کیسے ہفت خواں طے کرنے پڑے۔ ٹیلی فون کی دکان والے نے کوئی کم سوال پوچھے؟

کون کون سے ایپ؟ بس یہی؟ پاس ورڈ کیا ہے؟ سیٹنگ کیا چاہیے؟ کتنے جی بی؟

بڑی مشکل سے سوالوں کا وفور روکا اور اس کو باور کرایا کہ مزاحیہ ناول والے کردار ”دی گڈ سولجر شوئیک“ کی طرح:

 ”I beg to state that I am an idiot sir! “

جی نہیں۔ یہ میرا پاس ورڈ نہیں ہے۔ بس حسبِ حال ہے۔

جی ہاں میں اس کو فیس بک پر اپنے اسٹیٹس کے زمرے میں لکھ سکتا ہوں۔ شامت اعمال، میں نے اس سے پہلے فیس بک پر اپنے فون کی چوری کی اطلاع درج کرا دی۔ اس اپیل کے ساتھ کہ سارے نمبر کھو گئے ہیں، دوست احباب اپنے نمبر ان باکس کر دیں۔

پھر کیا تھا، اللہ دے اور بندہ لے۔ فون کی چوری ایک بین الاقوامی واقعہ بن گئی۔ پہلے پہل تو بہت اچھا لگا۔ اتنے بہت سارے دوستوں کے میسجز آئے جن سے ایک عرصے سے رابطہ نہیں تھا۔ چند ایک نے اپنے نمبر بھی لکھ کر بھیج دیے۔ دو ایک نمبروں کا انتظار تھا، سو وہ انتظار ہی رہا۔ ایسے بہت سے نمبر جواب میں آئے جن کی وصول یابی کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ اب کس مُنھ سے ان سب احباب کا شکریہ ادا کروں؟

ایک اور دفعہ فون کے اسی چور کا سہارا کس طرح حاصل کر لوں تو کام بن جائے۔ بہرحال میں تمام دیکھے ان دیکھے، جانے ان جانے دوستوں کا شکر گزار ہوں۔ اور بہت شرمندہ ہوں کہ میں اب تک صرف دو مرتبہ لُٹا ہوں۔ آئندہ اس کی تلافی کی کوشش کروں گا۔ کراچی کے چور لٹیرے ڈاکو بھائیوں کا تعاون اسی طرح حاصل رہا تو میں بھی دوسرے دوستوں کی طرح فخر کے ساتھ سینہ پھُلا کر لُٹیرے کو دعائیں دوں گا اور کھرج دار آواز میں کبیر کا کلام پڑھوں گا: کون ٹھگوا نگریا لوٹل ہو۔ جگ سے ناتا ٹوٹل ہو۔

اوہو، مجھے کبیر یاد دلایا۔ اے چور تیرا شُکریہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2