عورت مارچ: ’تاکہ میری بیٹیوں کو حقوق کی سخت لڑائی نہ لڑنی پڑے‘


آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کے مختلف شہروں میں خواتین کی تنظیمیں ’عورت مارچ‘ کا انعقاد کر رہی ہیں، جن میں خواتین کے مسائل کی جانب توجہ مبذول کرائی جائے گی۔

اس مناسبت سے پاکستانی سوشل میڈیا پر #WhyIMarch ٹرینڈ کر رہا ہے، یعنی ’میں مارچ میں کیوں جاؤں گی‘ جس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین دن کی اہمیت اور اس میں اپنی شرکت کی وجوہات بیان کر رہی ہیں۔

گلوکارہ اور اداکارہ میشا شفیع نے لکھا ہے کہ میں مارچ میں اس لئے شرکت کروں گی تاکہ میری بیٹیوں کو خاموش ہونے کی ضرورت نہ پڑے اور وہ اپنے حقوق حاصل کرنے سے نہ ڈریں۔

صحافی صباحت زکریا نے لکھا ہے کہ ثنا چیمہ وہ اطالوی نژاد خاتون ہیں جو غیرت کے نام پر گجرات میں قتل ہوئیں مگر ان کے بھائی اور والد کو بے گناہ قرار دے دیا گیا۔ میں ان کے لئے اور ان سب خواتین کے لئے جو غیرت کے نام پر قتل ہوئیں مگر ان کے قاتلوں کو عدم ثبوت کی وجہ سے سزا نہ ملی، اور جو اب بھی اپنے خاندانوں کے ہاتھوں مر رہی ہیں ان کے لئے مارچ کروں گی۔

فریحہ عزیز نے لکھا ہے کہ میں اس لئے مارچ کروں گی تاکہ ہم سب کو کھلی فضا میں جینے کا حق ملے اور پدر شاہی نظام سے نجات ملے، جس کی وجہ سے تمام صنفیں نقصان کی باعث بنتی ہیں؛ تاکہ غیرت کی جھوٹی رسمیں بند ہوں۔

صحافی رابعہ محمود نے لکھا ہے کہ برسوں سے جبری طور پر گمشدہ افراد کے گھر کی خواتین اور ان کے خاندان پاکستان بھر میں احتجاج کر رہے ہیں تاکہ انہیں انصاف اور احتساب میسر ہو اور ان کے پیارے واپس آ سکیں۔ میں ان کے لئے مارچ کروں گی۔

مناہل بلوچ نے لکھا ہے کہ میں اس لئے مارچ کروں گی تاکہ بلوچستان کے لوگوں کی پریشانیوں، اور بلوچ روایات کے نام پر قید بلوچ خواتین کے حق کے لئے آواز اٹھاؤں۔

عائشہ راجہ نے لکھا ہے کہ میں نہیں چاہتی کہ میری بیٹی بھی میری اور میرے سے قبل کی طرح اپنے حقوق کے لئے سخت لڑائی لڑے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سماجی علوم کی ماہر اور ریسرچر ندا کرمانی نے کہا کہ ایسے مارچ معاشرے میں پدرسری نظام کے ہاتھوں تنگ طبقات کے مسائل کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس عوامی جگہوں پر خواتین کا اپنا حق جتانے کا بھی یہ اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’جب طاقتور طبقات اور جنس پر سوال اٹھے گا تو لوگ غصہ تو کریں گے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ ’’بہت سارے مرد ان مسائل کو سمجھتے ہیں اور اپنا ساتھ بھی دیتے ہیں‘‘۔

اس سوال کے جواب میں کہ کراچی عورتوں کے لئے دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ خطرناک شہر ہے، تو ایسے میں اس مارچ کی اہمیت کتنی ہے، ندا کرمانی نے کہا کہ ’’جنسی عدم مساوات ہی اس کی ایک اہم وجہ ہے۔ جب شہر عورتوں کے لئے خطرناک ہو جاتے ہیں تو وہ بس چار دیواری کے اندر محصور ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اسی لئے ایک پر امن معاشرے کے لئے جنسی مساوات نہایت اہم ہے‘‘۔

یاد رہے کہ ’ورلڈ انڈیکس‘ نے قاہرہ کے بعد کراچی کو مبینہ طور پر ’’دنیا کا دوسرا خطرناک ترین شہر‘‘ قرار دیا ہے۔

عطیہ عباس نے، جو خود ایک صحافی ہیں اور اس مارچ کے منتظمین میں شامل ہیں، وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ مارچ جس میں ہم نے تمام طبقات کے مسائل کو اجاگر کیا ہے، ’’اس لئے بھی ضروری ہے کہ جب ہم سیاسی جدوجہد کرتے ہیں اور بڑی تعداد میں اکٹھے ہوتے ہیں تو ہمارے مسائل پر زیادہ توجہ مبذول ہوتی ہے‘‘۔

مارچ میں لگائے گئے نعرے یا پوسٹرز، جیسا کہ ’کھانا خود گرم کر لو‘ پر بات کرتے ہوئے عطیہ نے کہا کہ ایسے نعرے اور پوسٹر معاشرے میں پہلے سے متعین کردہ جنسی کردار کی نشاندہی کرتے ہیں جیسے کھانا بنانا، بچے پالنا عورتوں کے ہی کام ہیں۔ ایسے نعرے یا پوسٹر انتباہ کا کام دیتے ہیں، جس کے بعد ایسے مسائل پر زیادہ بات ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).