کنکریٹ کے مقبرے اور ایک بلڈر کی لاش


زلزلے والے دن وہ مظفر آباد میں تھا۔ اپنے خاندان کے ساتھ۔ سوائے اُس کے کوئی بھی نہیں بچا تھا اس دن۔ بیوی اور تینوں بچے ٹنوں کنکریٹ کے نیچے اس کے سامنے، دفن ہوگئے اور اب خود اس کی لاش نیٹی جیٹی کے پل کے نیچے ملی تھی۔ اخباروں کی خبر کے مطابق اس نے خودکشی کرلی تھی۔ سیٹھ رزاق بھائی جو مانی۔ مجھے یقین تھا کہ اخباری خبر غلط ہے۔ ایک دن پہلے تو میری ملاقات ہوئی تھی۔ بہادر آباد میں نمکو کی دوکان کے پیچھے چھوٹی گلی میں۔ پٹھان کی چائے کی دوکان پر۔ میں نے اسے چائے کی کئی پیالیاں پلائی تھیں۔ اس کی باتیں سنی تھیں۔ وہ خطرناک باتیں کررہا تھا مگر خودکشی کی کوئی بات نہیں کی تھی۔ مجھے نہیں لگا تھا کہ وہ خودکشی کرے گا۔ وہ پریشان تھا، جس کی بیوی اور تین بچے یکا یک مرگئے ہوں وہ پریشان نہیں ہوگا تو کون پریشان ہوگا؟

ہم دونوں کا بچپن ساتھ گزرا تھا۔ ایک اسکول میں پڑھا تھا ہم دونوں نے، کراچی کے پرانے این جے وی اسکول میں۔ وہ رہتا بھی اسکول کے پیچھے ہی تھا پارسی کالونی کے بالکل پیچھے ایک گندی سی گلی کے کنارے پر ہندوؤں کی بنائی ہوئی ایک خوبصورت بلڈنگ میں جس کو وہاں سے رہنے والے باسیوں نے بالکل خراب کردیا تھا۔ تین منزلہ بلڈنگ پر غیر قانونی طور پر دو اور منزلیں بن گئی تھیں۔ فلیٹوں کی خوبصورت بالکونیوں پر دیواروں کھیچ کر ہوا کاراستہ بند اور خوبصورتی تباہ کردی گئی تھی۔ ان میں ہی ایک فلیٹ میں اس کا بھی گھر تھا۔

رزاق کے والد لائٹ ہاؤس میں ردی کاغذوں کے ایک بیوپاری کے پاس ملازم تھے۔ اس کے گھر سے اور رہنے سہنے کے طریقوں سے مجھے اندازہ ہوگیا تھا وہ بھی ہماری طرح غریب ہے، اور اس کا باپ بھی میر ے باپ کی طرح شریف ہے۔

این جے وی کے بعد ہمارے راستے الگ ہوگئے میں نے کامرس میں داخلہ لیا تھا اور جلدی جلدی بغیر فیل ہوئے چارٹرڈ اکاؤئنٹنٹ بن کر اپنے ماں باپ بھائی بہنوں کے ساتھ کراچی کی وہ گندی گلی چھوڑ کر پہلے ملیر میں بسا اور اس کے بعد ایک آرام دہ مکان گلشن اقبال میں لے کر مزے سے رہ رہا تھا۔ اوپر والے کا بڑا احسان تھا۔ زندگی بہت سوں سے اچھی گزر رہی تھی۔ دینے والے نے ہاتھ روک کر نہیں، ہاتھ کھول کر دیا تھا۔

رزاق نے نہ جانے کیا کیا مگر یہ ضرور تھا کہ وہ کنسٹرکشن کے کاروبار میں چلا گیا تھا۔ اخباری اشتہاروں سے ہی پتہ لگتا تھاکہ جومانی بلڈرز کیا کررہے ہیں۔ شفق پلازہ، سحرٹاورز، سٹی ڈیلائٹ، مون ڈریم، اس قسم کے بے شمار اور سحرانگیز ناموں والے پروجیکٹ جومانی بلڈر کے نام سے منسوب تھے اور خوب بکے تھے۔ کبھی کبھی جومانی اینڈ سرور یا جومانی اینڈ پارٹنرز کے نام سے بھی اخباروں میں اشتہار آتے تھے کبھی کبھی میری نظر ایسے اشتہاروں پر بھی جا تھمتی تھی جس سے پتہ لگتا تھا کہ جومانی والے کچھ سرکاری عمارتیں بھی بنا رہے ہیں کچھ اسکول، کچھ کالج، یا کے ایم سی کی کوئی عمارت۔ آہستہ آہستہ شہر میں جومانی والوں کا اپنا ایک خاص نام بن گیا تھا۔ کنسٹرکشن کے دھندوں میں جومانی کسی نہ کسی طرح ضرور شامل رہتے تھے۔

اس عرصے میں میں خود اپنے کاموں میں کافی مصروف رہا۔ رزاق سے کوئی خاص ملاقات نہیں ہوتی تھی۔ دو تین دفعہ مختلف جگہوں پر ملاقات بھی رہی تو صرف رسمی سی مگر ایک بات ضرور تھی کہ رزاق جومانی کھرب پتی نہیں ہوگا تو ارب پتی ضرور تھا۔ شہر میں اس کی مصروفیات اور اکڑ کے بڑے مشہور واقعات تھے مگر وہ مجھ سے جب بھی ملا اچھے انداز سے ملا، خلوص سے ملا اور ایسے ہی ملا جیسے ایک پرانا اسکول کا ساتھی پرانے اسکول کے ساتھی سے ملتا ہے۔ اوروں کے لیے شاید اس کا دماغ خراب ہوگیا، ہو میرے لیے اس کے دل میں بیتے دنوں کی دوستی کا بھرم تھا۔ بچپن کی یادوں کا خیال اور ایک خاص قسم کی دیانت تھی ہم لوگوں کے میل ملاقات ہیں۔

اس دن وہ مجھے بہادر آباد کی چورنگی پر مل گیا میں انصاریز سے گھر کی ضرورت کی کچھ چیزیں لے کر نکلا اور گاڑی کی طرف جا ہی رہا تھا کہ میری نظر اس پر پڑگئی۔ وہ گندی سے شلوار قمیض میں ملبوس تھا۔ اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی اور شکل پر ایسی ویرانی تھی کہ میں گھبرا سا گیا۔ اس نے مجھے نہیں دیکھا تھا۔ میں نے گاڑی میں پلاسٹک کی تھیلیوں کو رکھا اور تیز تیز چلتا ہوا اس کے پاس چلا گیا تھا۔ ”رزاق یہاں کیا کررہے ہو؟ کیا شکل بنائی ہوئی ہے تم نے“ میں نے اس کے کاندھے کو ہاتھ لگاکر پوچھا تھا۔

اس کے بجھے ہوئے چہرے پر جیسے زندگی کی ہلکی سی ایک رمق سی آئی اور آنکھوں میں شناسائی کے قمقمے جلے، پھر اس نے زور سے میرا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ مجھے لگا جیسے اس کے ہاتھ کپکپارہے ہیں اور جسم لرز سا رہا ہے میں نے کہا کہ آؤ چلو پٹھان کے پاس چائے پیتے ہیں۔ فوری طور پر تویہی میری سمجھ میں آیا تھا۔

وہ خاموشی سے میرے ساتھ ہولیا۔ میری سمجھ سے باہر تھا کہ سیٹھ رزاق جومانی کروڑ پتی، ارب پتی آدمی، شہر کا مشہور و معروف بلڈر، سینکڑوں بلڈنگ پروجیکٹوں کا بانی شہر کے کئی سرکاری عمارتوں کا کنٹریکٹر، کے ایم سی کی طرف سے شہر کی بیوٹی فیکشن کرانے والا مرکزی ٹھیکیدار، میرا پرانادوست اسے کیا ہوگیا ہے۔ مجھے اس کی حالت پر رحم سا آگیا۔

مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ بھوکا ہے، میں نے کالج کے زمانے کا کھانا منگایا تھا، مکس انڈا، گوشت آلو اور دال۔ ساتھ ہی زریں کو فون کرکے بتایا کہ مجھے دیر ہوجائے گی وہ اور بچے کھاناکھالیں، میں باہر سے ہی کھانا کھا کر آؤں گا۔ زریں نے ہی مجھے بتایا تھا کہ مظفرآباد، بالاکوٹ، مانسہرہ اورباغ کے علاقے میں مزید جھٹکے بھی آئے ہیں اور کراچی کے ساحلی علاقوں پر بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔ وہ پریشان تھی کہ کراچی میں تو زلزلہ نہیں آجائے گا۔

اس نے غور سے میری بات سنی تھی، فون بند ہونے کے بعد اس نے نوالہ اٹھاتے ہوئے دھیرے سے کہا تھا، ”میں ادھر ہی تھا امین، اس وقت مظفرآباد میں جب یہ زلزلہ آیا تھا۔ میرے سامنے پورا ہوٹل گرگیا تھا زمین پر اور اس میں سب لوگ مرگئے۔ میری بیوی اور میرے تینوں بچے ختم ہوگئے، آج دس دن ہوگئے ہیں۔ سب کچھ ختم ہوگیا ہے میرا۔ “

میں سُن سا ہوگیا۔ مجھے اس کی بے حالی کی وجہ کا پتہ چل گیا تھا مگر میں سمجھ نہیں سکا کہ اس کٹھن گھڑی میں جب اسے اپنے گھر ہونا چاہیے، اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ، اپنے بوڑھے ماں باپ کے ساتھ، اس وقت وہ بہادرآباد کے چوراہے پر زلزلہ زدگان کے امدادی کیمپ کے پاس کیا کررہا ہے۔ وہ بھی اس حالت میں کہ پہچانا بھی نہ جاسکے۔

” مگر رزاق تم نے اپنی حالت کیابنائی ہوئی ہے؟ “ میں نے آہستہ سے اس کے ہاتھ کو پکڑ کرسوال کیا تھا۔

”کوئی حالت نہیں ہے بھائی، یہی صحیح حالت ہے۔ ابھی تک بچے اپنے صاف ستھرے لباسوں میں، اسکول کے سفید نیلے اور خاکی ڈریسوں میں اور لوگ اپنے دفتروں میں، دکاندار اپنی دکانوں کے اندر اورمریض اپنے اپنے بستروں پر ہسپتال کے ملبے میں دبے ہوئے ہیں، ان کی موت واقع ہوگئی ہے بغیر تدفین کے۔ پلر، لینٹر، لوہے کی دیواریں، ریت اور بجری کے منوں ٹنوں بوجھ کے نیچے آہستہ آہستہ سڑرہے ہیں۔ وہ سب لوگ، میری بیوی بھی، میرے بچے بھی۔ “ اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔

وہ خلا میں تکتا رہا، میں نے بیرے کو اشارے سے کہا تھا کہ کھانا اٹھالے اورچائے لادے۔ بڑی چینک والی۔

بیرے نے برتن ہٹا کے میزصاف کی تھی کہ رزاق نے مجھے غور سے دیکھا اور آہستہ سے بولا کہ یار میں چھٹی منانے گیا تھا وہاں۔ برسوں سے کوئی چھٹی نہیں لی تھی میں نے۔ کچھ کام کا پریشر، پھر چھٹی کا مطلب تھا کہ نقصان ہو۔ کئی پروجیکٹ کنسٹرکشن کے ایک ساتھ چل رہے ہوتے تھے میرے۔ مگر بیوی اور بچوں نے بہت دنوں سے ان چھٹیوں کا پلان کرلیا تھا۔ پھر میں نے بھی کہا تھا کہ صحیح ہے، چلے چلتے ہیں۔ کچھ تفریح ہوجائے گی کچھ تھکن بھی دور ہوگی پر مجھے کیا پتہ تھا کہ میرا سب کچھ لٹ جائے گا، ختم ہوجائے گا۔ میری بیوی بچے میرا سب کچھ۔

”کراچی سے پنڈی ایئرپورٹ پھر پارلیمنٹ لاج میں دوراتیں رکے تھے ہم لوگ۔ وہاں سے مجھے پجارومل گئی، اسی پجاروپر ٹیکسلا، واہ کینٹ، حسن ابدال کے رستے سے ہوتے ہوئے ایبٹ آباد، مانسہرہ کے روٹ سے گزر کر بالاکوٹ پہنچے جہاں دو گھنٹے رک کر ہم لوگ مظفرآباد آگئے تھے۔ ہم لوگوں کا دریائے نیلم کے ساتھ نیلم ہوٹل میں انتظام تھا۔ بس تیسرے دن ہی یہ سب کچھ ہوگیا۔ پہلی رات اچھی طرح سو کر گزاری، دوسرے دن جیپ میں بیٹھ کر اونچے اونچے پہاڑوں کی سیر کی ہم لوگوں نے۔

مظفرآباد کی پتلی گلیوں، سڑکوں پر بے ہنگم بے نقشہ اونچی نیچی پتلی چوڑی ٹیڑھی میڑھی کراچی جیسی بلڈنگوں کے درمیان گھومتے رہے تھے۔ ایک طرح سے وہ منی کراچی تھا۔ اس وقت میں نے نہیں سوچا مگر بعد میں خیال آیا تھا جیسے کراچی میں ہر طرح کی بلڈنگ بن جاتی ہے کچھ دے کر کچھ لے کر، پارک کی جگہ پر پلازہ، ہسپتال کی جگہ پر اپارٹمنٹ، کھلی سڑک پر مسجد اور مسجد کی جگہ دوکانیں۔ جہاں تین منزلہ کی اجازت ہو وہاں دس منزل۔ نہ لوہے کا حساب اور نہ ہی سیمنٹ کا کوئی تناسب۔ بلڈنگ بنائی بیچی اور بھاگے۔ مظفرآباد میں بھی یہی نظام، یہی طریقہ کار ہوگا۔ اس دن رات گئے تک میں نے یہ نہیں سوچا تھا مگر دوسرے دن سب کچھ بدل گیا۔ ”

یہ کہہ کر اس نے سانس لی تھی۔ گرم گرم چائے کی ایک چسکی۔ میں نے بھی چائے کی پیالی کو ہونٹوں سے لگایا، ساتھ ہی بیرے سے فرمائش کی کہ تازہ گرم تندور کی روٹیاں تو لے آئے۔ طالب علمی کے دور میں ہم دونوں نے چائے اور روٹی بہت کھائی تھی۔

”صبح ہم لوگوں کو چکوٹھی کی طرف جانا تھا۔ “ اس نے خود ہی بات شروع کی تھی۔ ”نو بجے نکلنے کا پروگرام تھا، طے ہواکہ صبح آٹھ بجے ناشتہ کرکے نو بجے نکل کھڑے ہوں گے۔ میں جلدی تیار ہوکر نہ جانے کیوں ہوٹل کی بلڈنگ سے باہر نکل آیا اور کار پورچ سے آہستہ آہستہ باہر نکل کردریا کی طرف گھوماتھا جس کے ساتھ ہی گورنمنٹ کا اسکول تھا اور پھر یکایک جیسے زمین میرے پیروں کے نیچے پھیل گئی تھی، سب کچھ پانچ چھ سیکنڈوں میں ہوگیا، بالکل نظر کے سامنے پوری بلڈنگ دائیں طرف گئی، رکی پھر بائیں طرف آتے آتے دھڑام کرکے ایک کے اوپر ایک گرتی چلی گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “

” سب کچھ ختم ہوگیا، عورتوں اور بچوں کی آوازیں، چیخیں اور یکایک دور سے دھماکوں کی لرزش۔ میرے سامنے پہاڑ ٹوٹ کر تیزی سے گر رہے تھے، ساری وادی میں ایسا لگ رہا تھا جیسے چہار جانب سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ میرے سامنے ہوٹل کی پوری عمارت سگریٹ کے خالی ڈبوں کی طرح ڈھیر ہوگئی، میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں، اپنے ہاتھوں سے پتھر پتھر چنتا رہا، بڑے بڑے پلرز کو ہٹانے کی کوشش کرتا رہا مگر کچھ نہیں کرسکا۔

لوگوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں آتی رہیں مگر سب کچھ بے سود تھا۔ وہ قیامت کا سماں جو بھولا نہیں جاسکتا۔ جو ان لوگ، بوڑھے لوگ، اپنے مکانوں کے ڈھیر پر بین کررہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں سمندر تھا اور دل ایسا لاچار کے وہ کچھ کر بھی نہ سکے۔ اپنے پیاروں کی چیخیں سنتے رہے، آہستہ آہستہ ان کی موت کو جیسے سمجھتے رہے وہ بے کسی وہ لاچاری میں بھول نہیں سکتا۔ ”

”نہ جانے کتنے گھنٹے گزرے تھے کہ اس آہ بکا کے باوجود کیسے میری آنکھ لگ گئی اور جب آنکھ کھلی تو اس دھماکے سے کھلی تھی جو کراچی میں ہوا تھا۔ بلڈنگیں ایک کے بعد ایک اور ایک کے اوپر ایک گرتی چلی گئیں۔ سارے میرے بنائے ہوئے پلازے، میرے بنائے ہوئے ٹاور، وہ اپارٹمنٹ جن میں سیمنٹ کے بجائے چونا تھا۔ وہ عمارت جسے چھ منزلہ کی اجازت ملی تھی میں نے دس منزلہ بنادی تھی وہ فوارے اور وہ منارے جو دھڑام سے گرتے چلے گئے تھے۔ وہاں تو کچھ بھی نہیں ہوا تھا جو کراچی میں ہوگا۔ وہ خواب تھا مگر مجھے دہلا گیا۔ “

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2