چند جہنمی عورتیں اور جنتی مرد


چند احمق عورتیں۔ بلکہ جہنمی عورتیں۔ اپنے حقوق کا تعیّن خود کرنے چلی تھیں۔ اس صنف کے ناقص العقل ہونے پر دو رائے تو کبھی بھی نہ تھیں، تو کیا ضروری ہے ہر مرتبہ اپنی کم عقلی کا ثبوت دینا۔ آپ کو کیا معلوم آپ کن مسائل سے دوچار ہیں؟ آپ کے مسائل کو ہم مردوں سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔ سو ہم آپ کو بتائیں گے کہ آپ کے مسائل کیا ہیں۔ آپ کو کیا حقوق ملنے چاہییں، اس کا تعیّن بھی ہم سے بہتر کون کر سکتا ہے؟

ہم مردوں نے آپ کو کیسا اعلیٰ مقام و مرتبہ عطا کیا ہے۔ اور آپ ہیں کہ اپنی صنف کو بہکا کر اور بھٹکا کر ان کے مقام سے نیچے گرانا چاہتی ہیں۔ عورت ماں ہے، جس کے قدموں تلے جنّت ہے۔ عورت بہن کے روپ میں بھائیوں کی غیرت کی امین ہے۔ عورت بیٹی ہے، باپ کی عزت جس سے وابستہ ہے۔ عورت بیوی ہے، شوہر کے دکھ سکھ کی ساتھی، اس کے گھر کی منتظم اور اس کے بچوں کی ماں۔ عورت محبوبہ بھی ہے۔ رومانوی داستانوں کی ہیروئیں، شعر و ادب کی روح۔

خوش نصیب ہیں آپ کہ ایک ایسے معاشرے میں جنم لیا جہاں باپ کی ساری عمر بیٹیوں کی شادی کے لیے جہیز بنانے اور مناسب بر ڈھونڈنے کی فکر کرتے اور ان کی عزت کی رکھوالی کرتے گزر جاتی ہے۔ بہنوں کی شادیاں ہونے سے پہلے بھائی اپنا گھر بسانے کا سوچتے بھی نہیں۔ بہنوں کو اپنی نگرانی میں باہر لاتے لے جاتے ہیں۔ شادی کے بعد ان کے گھروں میں عیدیں بھجواتے ہیں۔ شوہر بیویوں کی ناز برداری کرتے نہیں تھکتے۔ اپنا گھر ان کے حوالے کر کے بے فکری سے باہر چلے جاتے ہیں۔

ان کے نان و نفقہ کے کفیل ہوتے ہیں۔ عاشق محبوباؤں پر اپنی جان وارتے ہیں۔ شاعر انہیں اپنی شاعری کا محور بناتے ہیں۔ باپ کے گھر کی شہزادی، شوہر کے گھرکی ملکہ۔ کیا کچھ نہیں ہے عورت؟ تو کیا یہ ضروری ہے کہ عورت صرف عورت ہی ہو؟ دیکھیں مرد تو صرف مرد ہو سکتا ہے مگر عورت کا درجہ صرف ایک عورت ہونے سے بالاتر ہے۔ عورت ماں، بیوی، بہن، بیٹی اور محبوبہ، سب کچھ ہو سکتی ہے مگر صرف ایک عورت تو ہرگز نہیں ہو سکتی۔

آپ خود دیکھیے، مرد کی ایک زبان ہوتی ہے، کیا کبھی عورتوں کی بھی ایک زبان ہوتی ہے؟ ان کی تو کئی زبانیں ہوا کرتی ہیں۔ حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا جاتا ہے، کبھی آپ نے ”زنانہ وار“ مقابلہ بھی بھی سنا ہے۔ مردوں کی طرح آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تو سنا ہو گا، اس اصطلاح کا خواتین کے لیے استعمال کتنا معیوب معلوم ہوتا ہے۔ جب عورت کو اتنے مراتب عطا کر دیے تو یہ صرف انسان یا عورت سمجھے جانے جیسے معمولی معمولی سے مطالبات کر کر کے اپنے ناقص العقل ہونے کی توثیق کیوں کروانا چاہتی ہے؟

یہ چاہتی ہے کہ مردوں کے شانہ بہ شانہ معاشی سرگرمیوں میں حصّہ لے تا کہ مرد اس کے نان و نفقہ کے فرض کی ادائیگی سے محروم رہ جائیں۔ اپنی مرضی کا لباس زیبِ تن کرے اور پھر مردوں پر یہ پابندی بھی ہو کہ وہ گستاخ نگاہی اور دست درازی کے مرتکب نہ ہوں۔ اپنے جیون ساتھی کا انتخاب خود کرے۔ بچے اپنی مرضی سے پیدا کرے۔ بچوں کی پرورش اور گھر گرہستی میں شوہر بے چارہ نہ صرف اس کا ہاتھ بٹائے بلکہ وظیفہء زوجیت کی ادائیگی لیے بھی اس کی اجازت کا طالب ہو۔

بھائیوں کو بہنوں کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کے حق سے بھی محروم کر دیا جائے۔ عاشق محبوباؤں کو دل کی ملکہ تو بنا کر رکھیں مگر ان کی بے اعتنائی پر ان کے اوپر تیزاب بھی نہ پھینک سکیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر اپنے حقوق کے تعیّن کی ذمہ داری کا اس صنفِ نازک کے ناتواں کاندھوں پر ڈالے جانا کس قدّر مضر ہے۔

کیا آپ خواتین نے کبھی سوچا ہے کہ مذہبی قوانین کے پسِ پردہ کیسی مصلحتیں کار فرما ہوتی ہیں۔ اگر آپ خواتین اس قدر استعداد کی حامل ہوتیں کہ اپنے حقوق وفرائض کا تعیّن اور اپنے مسائل کا ادراک خود کرسکیں تو نہ صرف آپ کی شہادت مکمّل تسلیم کی جاتی، بلکہ والد کے ترکے میں بھی آپ کو بھائی کے برابرکا حصّہ دار قرار دیا جاتا۔ نہ صرف یہ کہ آپ کو امّت کی خلافت اور قوموں کی سیادت کا اہل تسلیم کیا جاتا، بلکہ نبوّت و امامت میں بھی آپ کو حصّہ ملتا۔

صاف ظاہر ہے کہ آپ میں کچھ تو ایسی کمزوری تھی کہ آپ کو اس سب سے محروم رکھا گیا۔ تو کیا یہ کم ہے کہ آپ کی کمزوریوں سے درگزر کرتے ہوئے ہم مردوں نے پھر بھی آپ کو نہ صرف آپ کے سارے حقوق دیے بکلہ آپ کی اوقات سے بڑھ کرمرتبہ دیا۔ مگر آپ میں چند جہنمی عورتیں اپنی صنف کو ان کے حقوق کے نام پر مردوں کے خلاف بہکانے چلی ہیں۔

دیکھیے آپ کو کیا حقوق ملنے چاہییں۔ آپ کو اس معاشرے میں کیا مسائل درپیش ہیں۔ آپ کے جسم پر کس کی مرضی چلنی چاہیے۔ آپ کو معاشرے میں کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔ کہاں آواز اٹھانی ہے اور کہاں آواز۔ دبانی ہے۔ آپ اگر اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے پر مصر بھی ہوں تو اس مطالبے کی حدود و قیّود کا تعیّن۔ یہ سب معمولی معمولی چیزیں آپ ہم مردوں پر چھوڑ کر ہمارے گھر کی شہزادی اور دل کی ملکہ بن کر رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).