عورت راج، سماج اور ہم


اچھا جناب تو آٹھ مارچ یا عورت مارچ کا قیامت خیز دن گزرچکا اور اس کے بعد دو دن اور بھی گزر گئے۔ کیا اب ہم کچھ ہوش مندی کی باتیں کرنے کے موڈ میں ہیں یا ابھی بھی ماں بہن اور باپ بھائی ہی ایک کرنا ہیں؟

اگر سنجیدہ بات کرنے کا ارادہ ہے تو دل تھام کر پڑھیں۔

عورت مارچ کے پوسٹر آپ کو نازیبا لگے، شاید وہ تھے بھی۔ کم از کم میرے گھر میں یہ زبان استعمال نہیں ہوتی۔ لیکن مجھے اس سے پریشانی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں ظہورکرنے والے آخری حکیم جون ایلیا نے ہمیں سمجھایا تھا کہ ’اگر میں اپنے جھوٹ کے ساتھ خوش ہوں تو تم مجھ پر اپنا سچ مسلط کرنے والے کون ہوتے ہو‘ ۔ سو اگر وہ پوسٹر نازیبا تھے بھی تو وہ ان کا جھوٹ ہے۔ مجھے اور آپ کو پروا اپنے سچ کی ہونی چاہیے۔

لیکن راست بازی کے زعم میں مبتلا ہمارے معاشرے نے کیا کیا، ان منچلے جذباتی لڑکے لڑکیوں کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے جو شاید وومن ڈے، جو کہ ایک انتہائی سنجیدہ دن ہے، اس پر کچھ شغل کرنے نکلے تھے، شاید انہیں یقین تھا کہ وہ ا س طرح مسئلے کے سدھار کی طرف پیش رفت کریں گے۔

آپ کا موقف تھا کہ وہ نوجوان جو کچھ مانگ رہے ہیں اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن اس کے بعد جو آپ نے کیا، کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے؟ آپ نے انہیں بازاری، ولد الزنا اور نجانے کیا کچھ نہیں کہا، کہیں کہیں تو انہیں واجب القتل اور غدارِ وطن جیسے القابات سے بھی نواز اگیا۔

ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں۔ ہم میں سے بہت سے طالبان کی خون کی ہولی کو تو نادانی، غصہ اور انتقام اور اپنے لوگ اور نجانے کیا کیا کہہ کر دفاع کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ لیکن ان بچوں کے لیے ہم نے ذرہ برابر بھی گنجائش پیدا کی۔ وہی بچے جو آپ کے نظریے کے مطابق بھٹکے ہوئے ہیں۔

اچھا! ایک رخ اور دیکھتے ہیں۔

کیا ہم ایک ایسے معاشرے میں نہیں رہتے جہاں اگر کسی عورت کی ترقی کی رفتار تیز ہو تو پورا دفتر طے کرلیتا ہے کہ اس کے باس سے ناجائزتعلقات ہیں۔
کیا ہم جینز پہننے والی لڑکی کے لیے یہ نہیں سوچتے کہ یہ آسانی سے سیٹ ہوجائے گی۔

کیا ہم عبایہ پہننے والی لڑکی کے لیے یہ رائے نہیں رکھتے کہ وہ اپنے کسی جرم کو چھپانے کے لیے عبایہ کا استعمال کررہی ہے۔
کیا ہم کسی طلاق یافتہ پر ٹرائی مارنے سے یا کسی جوان بیوہ کو منحوس سمجھنے کبھی چوکے۔

اب آپ دلیل پر یورپ امریکا کے حوالے لائیں گے کہ وہاں ریب ہوتے ہیں تو پہلے ان ممالک جتنے حقوق تو دیجیے، اسلام کے بتائے حقوق دینا تو خیر آپ کے بس میں نہیں۔ آپ کا معاشرہ تو راست باز ہے نا۔ ذرا جواب دیں پھر یہاں چھوٹی چھوٹی بچیاں کیسے کسی کی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں۔

آپ کو لگتا ہے یہ نوجوان، بالخصوص جو کام ایک دن کرتی ہیں وہ گندا ہے لیکن یقین کرلیجیے کہ ہم جو کام سارا سال کرتے ہیں وہ گھناؤنا ہے۔

مجھے آج بھی اپنے کولیگ کے وہ الفاظ یاد ہیں جو اس نے ہماری حاملہ ساتھی کے بارے میں کہے تھے کہ ’یہ اچھا ہے پیٹ میں بچہ رکھ لو اور تین مہینے کی چھٹی کے مزے لو‘ ۔ صاحب! کبھی پیٹ میں بچہ رکھ کر سات مہینے کراچی جیسے شہر میں دفتر کا سفر کرنے کا تصور تو کرکے دیکھیں۔ کبھی ایک ماں بن کر سوچیں اور اپنے ایک ماہ کے بچے کو کسی کے آسرے پر چھوڑ کر دفتر جانے کا خیال تو ذہن میں لائیں، دل پھٹ نہ جائے تو کہنا۔

آپ اسلام کی بات کررہے ہیں تو ذرا یاد کریں کہ پیغمبر اسلام کیسے اپنی بیٹی کی تکریم کیا کرتے تھے، کس طرح اپنی ازواج سے پیش آتے تھے اور کس طرح اپنی پالنے والی ماں جیسی چچی کی قبر پر روئے تھے۔ کیا آپ نے اپنی ماں، بہن بیٹیوں کو ویسی ہی عزت دینے کا سوچا۔ اور اگر سوچا اور عمل بھی کیا تو یہ آپ کی اپنی آخرت کے لیے ہے اس عورت پر احسان تو ہرگز نہیں ہے۔

شاید یہ لڑکے لڑکیاں واقعی غلط ہوں۔ ان کے مطالبے بھی غلط ہوں لیکن مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے اور انتہائی شدت کے ساتھ ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے کی صفائی کرنا ہوگی۔ ذہنوں سے غلاظت، راست بازی اور فضیلت کا خناس نکالنا ہوگا۔ بصورت دیگر وہ لوگ جو کررہے ہیں وہ عمل نہیں بلکہ ردعمل ہے، ہم نے عورتوں کے معاملے میں جو ہم نے بویا ہے آج وہی کاٹ رہے ہیں۔ اور ردعمل کے صحیح غلط ہونے کی تاویل بعد میں دیکھی جاتی ہے۔ پہلے وہ ہوجاتا ہے۔

آخر میں بس اتنا ہی کہ جب ہم خون کی ندیاں بہانے والوں کے غلط بیانیے کی حمایت میں بول سکتے ہیں تو یہ سب بھی ہمارے معاشرے کے بچے ہیں۔ ان کا کیا قصور ہے“ بس یہی نہ کہ یہ ہمارے معاشرے گھناؤنا سچ جسے ہم رات کی تاریکی میں بھی تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، دن کے اجالے میں پلے کارڈ پرلکھ کر ساری دنیا کودکھا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).