خواتین کا عالمی دن اور فوقیت کی جنگ


خواتین کا عالمی دن کافی جوش سے منایا جا تا ہے اور ہر کوئی خواتین کو خراج عقیدت پیش کر تا ہے، کرنا بھی چاہیے کیونکہ ”وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ“ یہ کچھ غلط بھی نہیں۔ گھر گھرستی ہو یا کوئی بھی پیشہ پاکستانی خواتین ہر شعبے میں اپنا آپ منوا رہی ہیں۔ پولیس، طب، کاشت کاری، ریسلنگ، کرکٹ، ویٹ لفٹنگ، آئی ٹی یہاں تک کہ اگر موٹر سائیکل یا ٹریکٹر چلنے کی بھی بات آئے تو خواتین کسی طور کسی مرد سے کم نہیں۔

ہاں یہ کہنا عجیب ہی ہے کہ ہم ہر جگہ خواتین کا موازنہ مردوں سے کر کے ایک قسم کی دوڑ میں لگ گئے ہیں جبکہ اس دوڑ میں لگنے سے قبل یہ سوچ ضروری ہے کہ مرد اور عورت دونوں پہلے انسان ہیں پھر ان میں جنسی فرق آتا ہے۔ جس سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ خواتین کو کمزور سمجھ کر یا یوں کہہ لیں جسمانی طور پر کمزور سمجھ کر مرد حاکمیت جتانا اپنا حق سمجھ بیٹھتا ہے۔

عورت اور مرد میں جنسی فرق ضرور لیکن ایک معاشرہ ان دونوں کے وجود سے ہی بنتا ہے۔ اگر ان میں سے ایک کو بھی مائنس کر دیا جائے تو زمین کا نظام بگڑ جائے گا۔ تو یہ واضح حقیقت ہے کہ جنگ مرد اور عورت کی ایک دوسرے پر فوقیت دینے کی نہیں بلکہ حقوق کی ہے۔ جن کو اکثر صرف مرد ہی غصب نہیں کرتے بلکہ کچھ خواتین بھی کرتی ہیں۔ یہاں مجھے وہ جملہ یاد آگیا عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے۔ اس بات میں کافی حقیقت بھی نظر آتی ہے۔

عورت کے اگر صرف مضبوط کردار کی بات کی جائے تو صرف ایک کردار ہی نسل بنا دیتا ہے اور وہ ہی بگاڑ بھی دیتا ہے۔ ہاں میں ماں کے کردار کی ہی بات کر رہی ہوں ماں کی گود انسان کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ لیکن جہاں ہم صرف خواتین کے عالمی دن پر مرد مخالف بلند بانگ نعرے لگاتے ہیں کہ جناب مرد ہی ظلم کرتے ہیں یا مرد ہی خواتین کی ترقی میں رکاوٹ ہیں وغیرہ۔ وہاں ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اکثر خواتین کی راہ میں مردوں سے زیادہ عورت کی دی ہوئی وہ تربیت اڑے آجاتی ہے جہاں بچپن سے ہی لڑکوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ تم بر تر ہو اور تمھارے ساتھ جو یہ چھوٹی یا بڑی بہن ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ خاتون پیر کی جوتی ہوتی ہے۔ ہر گھر میں نہیں لیکن اکثریت میں گھروں میں لڑکیوں کی تعلیم اور خوراک میں لڑکوں کے مقابلے میں نہ توجہ دی جاتی ہے نہ حیثیت۔ جبکہ یہ ایک ماں کا ہی کام ہوتا ہے کہ اپنے بچوں میں فرق نہ کرے بلکہ کھانے سے لے کر تربیت تک دونوں کو مساوی حقوق دے۔

بچہ جب اچھا کام کرتا ہے تو اس وقت سینہ ٹھوک کر گھر کے سربراہ کہتے ہیں کہ میرا بیٹا/ بیٹی ہے لیکن جب وہ ہی بیٹا/ بیٹی اگر مجرم بن جائے تو سب چیز کا قصور وار ماں کو قرار دے دیا جاتا ہے جبکہ تربیت اور پرورش میں دونوں کا ہاتھ ہوتا ہے اس کے لیے صرف ماں کو ذمہ دار قرار دے دیا جائے یہ بھی درست نہیں۔ لیکن ہمارا معاشرہ اتنی ہی منافقت کا مظاہرہ اس وقت کرتا ہے جب غلطی بیٹی کی ہو تو اس قابل معافی تو سمجھا ہی نہیں جاتا بلکہ معافی کا حق بھی صرف مرد کو ملتا ہے۔

اس طرح کی منافقت کا مظاہرہ خواتین کے کیرئیر اور شادی کو لے کر بھی کیا جاتا ہے کہ پڑھ لیا بیٹا ٹھیک ہے لیکن تم لڑکی ہو شادی کرو اور گھر میں بیٹھو۔ شادی کے لیے بھی اکثر لڑکیوں کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ کچھ گھروں میں ماں ہی بیٹی کو کہہ رہی ہوتی ہیں کہ ہم نے بھی ایسی زندگی گزاری تم بھی گزار لو۔ شاید ماں بچاری بھی مجبور ہو لیکن کہیں تو کسی کو آواز اٹھانی پڑے گی اور کہنا پڑے گا کہ بس ہم نے گزار لی پر اب اور کوئی ایسی نہیں گزارے زندگی۔

پاکستان کے شہری علاقوں میں تو خواتین اپنے حقوق سے واقف بھی ہیں اور آواز بھی اٹھا رہی ہیں لیکن آج بھی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی آبادی ایک بڑا حصہ دیہی علاقوں پر مشتمل ہے اور آج بھی وہاں خواتین پر ظلم و بربریت کے جو پہاڑ ڈھائے جاتے ہیں اس سے شاید ہی کوئی ناواقف ہو۔ غیر قانونی جرگے میں ہونیوالے سفاک فیصلے جس میں مرد کی غلطی کی سزا بھی عورت ونی کی صورت میں ملتی ہے۔

مردوں کے اس معاشرے میں ہر مرد ظالم نہیں، کچھ خواتین بھی سفاکی کا مظاہرہ کرتی ہیں یا یوں کہیں کہ دونوں ہی انسان ہیں تو اچھے اور برے دونوں ہی جنسوں میں موجود ہیں۔ صرف معاشر ے کے سب مردوں کو ظالم قرار دینا بھی منا فقت ہی ہے۔ اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑائی جائے تو کبھی شفیق باپ کی صورت میں بیٹیوں کی خواہشات کو پر لگانے کے لیے محنت کرتا ا ہوا باپ ملے گا تو کبھی ہر قدم پر بہن کو سہارا دینے والا بھائی ملتا ہے۔ تو کبھی ماں کو اس کا حق دلانے کے لیے لڑ جانے والے بیٹا ملتے ہیں۔ تو کہیں بیوی کی ہر ضرورت کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی خواہشات، اس کے کیرئیر اور اس کی رائے اور نظریہ کو اہمیت دیتا شوہر ملتا ہے۔

خواتین کے حقوق کی جنگ میں صرف خواتین ہی نہیں بلکہ بہت سے قابل احترام مرد بھی اس مہم کا حصہ ہیں۔ جو صرف خواتین کو ان کے حقوق دلانے کے لیے ہی نہیں بلکہ خواتین کو معاشرے کا اہم حصہ بھی جانتے ہیں۔ خواتین کا عالمی دن ان مرد حضرات کا دن بھی ہے جو خواتین کو معاشرے کا اہم جز سمجھتے ہیں اور اپنے ساتھ کام کرنے والی خواتین کو اپنے گھر مین رہنے والی عورت کی طرح ہی عزت اور احترام دیتے ہیں۔

معاشرے کو بہتر کرنا ہے تو بات صرف خواتین یا مردوں کی نہیں ہونی چاہیے کہ کون زیادہ بہتر ہے کون نہیں۔ اور نہ ہی ایک دن منا لیا جائے خواتین کی خدمات کو سراہا لیا جائے اور بات ختم۔ نہیں خواتین کو حقوق جب ملیں گے جب مرد اور عورت مل کر اور ایک اچھی سوچ کوپروان چڑھائیں گے کہ ”معاشرے کو بہتر کرنا ہے“ اپنی آیندہ نسل کو اچھا معاشرہ دینا ہے ”۔ مرد اور عورت کے درمیان فوقیت کی بحث کو چھوڑ کر جس کا جو حق ہے ا س کو وہ دینا ہے۔ بیٹا، بیٹی میں فرق کو ختم کرنا ہے یکساں تعلیم اور تربیت دینی ہے۔ اور آنے والی نسلوں کو بھی سمجھانا ہے کہ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دونوں کے اپنے حقوق اور فرائض ہیں جن کو اگردونوں پورا کر لیں تو ایک اچھا معاشرہ بن جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).