افضل کوہستانی، قندیل بلوچ اور غیرت


ابھی بھارت کا جنگی جنون اور پاکستانی امن کی آشا کا شورکچھ کم ہی ہوا تھا کہ پاکستان میں پی ایس ایل کا بخارپورے عروج پر پہنچ گیا۔ اس سب کے ساتھ ہی سیاستدانوں کی بیان بازیاں اورشعبدے بازیاں بھی جاری ہیں۔ دوسری جانب دنیا بھراور پاکستان کے میڈیا اوراین جی اوز میں خواتین کاعالمی دن بھی پر جوش طریقے سے منایا گیا۔ اس موقع پرشہروں میں ریلیاں، سیمینارز، ورکشاپس اور پروگرامز بھی منعقد کیے گئے جن میں خواتین کے حقوق سے متعلق شعوراورآگاہی پر بات توکی گئی، سیاست دان اور این جی ایوزبھی خواتین کے حقوق کا عَلم بلند کرنے میں بازی لے جانے کی جدوجہد میں سب سے آگے نظرآئے لیکن عملی طور پرحقوق دلوانے سے متعلق کوئی لائحہ عمل اور عملی اقدامات منظر سے ہمیشہ غائب ہیں اور غائب ہی رہیں گے۔ مارچ کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں ہم خواتین کے حقوق کا دن تو مناتے ہیں لیکن ان کو جائز حقوق دینے سے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں ہماری خواتین ’باغی‘ نہ ہوجائیں۔ ہمارے فیصلوں اور احکامات پر سوال نہ کرنے لگیں۔

ہم ایسے لوگ ہیں جو خواتین کو تو کیا اس ملک میں اپنا حق مانگنے والی ہر آواز کو با آسانی یا تو دبا دیتے ہیں اور اگر دبانے میں کامیاب نہ ہوں تو ہمیشہ کے لیے خاموش کرا دیتے ہیں جیسے دوہزاربارہ میں کوہستان میں لڑکیوں کی تالیوں پرلڑکوں کے روایتی رقص کی ویڈیو منظر عام پر لانے والے افضل کوہستانی کو ظلم اور سسٹم کے خلاف آواز اٹھانے کے جرم میں دو روز قبل ہمیشہ کے لیے خاموش کرادیا گیا۔ افضل کوہستانی کی اپنے مقتول بھائیوں کے لیے انصاف کے لیے کی جانے والی سات سالوں کی جدوجہد کومنوں مٹی تلے دبا دیا گیا۔

انصاف کے طلبگار کو انصاف تو نہ ملا لیکن موت مل گئی۔ افضل کاقصور کیا تھا؟ صرف یہ کہ وہ کوہستان ویڈیو اسکینڈل کو منظر عام لایا۔ اس نے اس نظام کے خلاف آواز اٹھائی جوصدیوں سے ان علاقوں میں چلا آرہا ہے اور نہ جانے کتنی صدیوں تک رائج رہے گا۔ فرسودہ روایات اور نظام کے خلاف لڑنے اورجرگوں، پنچایتوں میں من مانی فیصلہ دینے والوں کو للکارنے والے افضل کوپہلے علاقہ بدر کیاگیا اور پھرایبٹ آباد کے بیچ بازار میں قتل کردیا گیا۔

کوہستان جیسے شہرمیں غیرت کے نام پر قتل معمولی بات ہے ایسے علاقوں میں اس کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھائی جاتی لیکن افضل نے یہ روایت توڑی غیرت کے نام پر قتل کے خلاف آواز اٹھائی اور کیس فائل کیا لیکن روایات کی زنجیروں میں جکڑے اپنے ہی خاندان اوراہل علاقہ کی جانب سے افضل کو تنقید کا نہ صرف نشانہ بنایا گیا بلکہ اس کا بائیکاٹ کرکے اس کو علاقہ بدر بھی کیا گیا۔ افضل سات سال تک اس سسٹم اور ظلم کے خلاف جدوجہد تو کرتا رہا لیکن بالآخر اس کا بھی وہ ہی انجام ہوا جو ہمیشہ اس معاشرے میں اسٹیروٹائپ اور Taboos توڑنے والوں کا ہوتا ہے۔

ہم وہ لوگ ہیں جن کی غیرت اورعزت نفس بیٹیوں کی حرکتوں اورمہمان نوازی میں پائی جاتی ہے۔ عورت کوماں، بہن، بیٹی نہیں بلکہ ملکیت سمجھاجاتاہے۔ ان کو قتل، ذبح یا فروخت جیسے عمل رسم و روایات کے نام پر کیے جاتے ہیں جبکہ عدالتوں میں ایسے کیسز کی نہ پیروی کی جاتی ہے نہ ثبات کیے جاتے ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں لیکن سولہ جولائی دوہزار سولہ کا وہ دن بھی یقینا ہماری یادداشتوں میں دھندلا چکا ہوکا جب ٹی وی پرصبح صبح بڑے بڑے ڈبوں میں ہر چینل پر صرف ایک ہی نام تھا ’قندیل بلوچ‘ ایک ہی خبر تھی کہ قندیل بلوچ کو ملتان میں قتل کردیا گیا۔

تفصیلات سامنے آنے پر پتا چلا کہ قندیل بلوچ کو اس ہی کے بھائی نے قتل کیا تھا اور وجہ بنی ’بھائی کی غیرت‘ لیکن اس غیرت کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ بھائی نے بیان دیا کہ قندیل خاندان کا نام خراب کررہی تھی، گھروالوں کے لیے شرمندگی کاباعث بن رہی تھی لیکن قندیل توکئی سالوں سے ’بے باک‘ سوشل میڈیا پرسنالٹی تھی! کئی سالوں سے اپنے گھر والوں کا خرچہ اٹھا رہی تھی تو پھر اچانک بھائی کی ’غیرت‘ راتوں رات کیسے جاگ گئی؟

یہ غیرت جاگ گئی یا مطلوبہ نتائج کے لیے کسی اور نے بھائی کی اس ’غیرت‘ کو جگایا؟ اس قتل میں کون کون ملوث تھا؟ کون کون سہولتکار تھا؟ کس کس پر کیس ہوا سب وقت کی دھول میں دب چکا زندہ ہے تو صرف وہ رسمیں روایات اور نظام جس میں ہر اس شخص کو ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے جو اس نظام، ظلم اور بربریت کوچلینج کرے یا اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کے لیے معاشرے کی روایات سے بغاوت کرے۔ قندیل کا قصور بھی یہ ہی تھاکہ وہ ہمارے معاشرے کے ایسے منافق چہرے سامنے لائی جو دن کی روشنی میں شرافت کا لبادہ اوڑھے گھومتے ہیں لیکن ان کا اصل چہرہ بہت مکروہ ہوتا ہے۔

قندیل نے یہ ثابت کیا ہم جس کام کو سب کے سامنے برا کہتے ہیں اس کی مذمت کرتے ہیں لیکن چھپ کر وہ ہی کام کرتے ہیں۔ لوگ اس کو بُراکہتے، تضحیک کرتے، اس کو گالیاں بھی دیتے تھے لیکن کمال کی بات ہے کہ اس کی ’سیکسی ویڈیوز‘ کو ہزاروں کی تعداد میں لائیک اور شیئر بھی کرتے، اس کی فیس بک آئی ڈی کوفالو بھی کرتے اورتواوردوہزار سولہ میں گوگل پر پاکستان میں سرچ کی جانے والی ٹاپ ٹین پرسنالیٹیز میں بھی قندیل کا شمار ہوتا تھا۔

قندیل بلوچ نے کیا کیا؟ وہ کون تھی؟ اس کا خاندانی پس منظر کیا تھا؟ اس سب سے زیادہ اہم یہ تھا کہ وہ اس نے اس سسٹم اور معاشرے سے بغاوت کی تھی لیکن اس بھولی بھالی گاؤں کی لڑکی کوباغی کس نے بنایا؟ اگر وہ ہمارے معاشرے میں سرائیت کرتی ’مناقفت‘ کو بے نقاب نہ کرتی تو شاید آج زندہ ہوتی۔ اگر اس معاشرے سے بغاوت کا اعلان نہ کرتی تومنافقت کی ’آزاد فضا‘ میں سانس لینے کی اتنی ہی حقدار ہوتی جتنا کہ اس کے قاتل ہیں۔

افضل کوہستانی بھی اگرجرگے کے فیصلے کے خلاف آواز نہ اٹھاتا تو شایداس کو بھی بیچ بازار میں چھلنی نہ کیا جاتا۔ کل قندیل، آج افضل اور کل نہ جانے کون؟ اس ملک میں نہ جانے کتنے لوگ ہیں جن کو سسٹم کے خلاف آواز اٹھانے کی سزا موت کی صورت میں ملتی ہے۔ کتنی خواتین اور لڑکیاں ایسی ہیں جن کو پسند کی شادی کرنے پرکبھی کاری کردیاجاتا ہے تو کبھی ونی کی رسم کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ کسی لڑکی کو رشتے سے انکار پر قتل کردیا جاتا ہے تو کسی کی شادی قرآن سے کروا کر اس کی خواہشات کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے۔

کہیں یہ ننھی کلیاں ہوس کے ہاتھوں مسلی جاتی ہیں توکبھی چائلڈ لیبر کی آگ میں جھونکی جاتی ہیں۔ قندیل اور افضل جیسے تو چند قصے ہیں جو میڈیا میں آجاتے ہیں لیکن خیبر پختونخوا سے لے کرسندھ تک ایسی بہت سی کہانیاں ہیں جو میڈیا تک پہنچنے کا مسافتیں طے کرنے سے پہلے ہی راستوں کی دھول میں دھندلا جاتی ہیں۔ ان کہانیوں کوہونے سے کون روکے گا؟ اس کے بارے میں کون سوچے گا؟ کون سا مذہب یا قانون کہتا ہے کہ اگر لڑکی غلط راہ پر ہے تو اس کو قتل کردویا اگر کوئی اپنے حق کے لیے آواز اٹھائے تو بیچ چوراہے میں گولی مار کر ہمیشہ کے لیے خاموش کرا دو!

قتل چاہے غیرت کے نام پرہو، خاندانی دشمنی کی بنا پر ہویا پھرسسٹم کے خلاف آواز اٹھانے والے کا ہم کو اب یہ سلسلہ روکنا ہوگا۔ ’قتل‘ کے خلاف یہ لڑائی جاری رکھنا ہوگی۔ یہ ریاست، ریاستی اداروں کی ذمہ داری بھی ہے اور ہماراآپ کافرض بھی کہ اس کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں، اس کی مذمت کے ساتھ ساتھ اس کو روکنے کے لیے اپنا کردار بھی ادا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).