ڈاکٹر شیر شاہ سید کا ناول غبار


1947 کی تقسیم ایک ایسا سانحہ تھی کہ جس کے اثرات آج بھی پاکستان اور ہندوستان میں برابر نظر آتے ہیں۔ نو آباد لوگوں کو یہاں پر آئے ہوئے کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے برعکس وہ یہاں سے جانے والوں کو بھی اپنے آباؤ اجداد کی زمین کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنے کے علاوہ اپنے املا ک سے بھی کنارہ کش ہونا پڑا۔ ہندوستان سے آنے والے مہاجرین ابتدا میں کراچی آئے پھر کچھ لوگ دوسرے شہروں میں نقل مکانی کر گئے اور ان میں سے اکثر کراچی اور اس کے نواح میں آباد ہوگئے حکومت کی طرف سے ان کو یہاں سے جانے والے لوگوں کے مکانا ت آلاٹ کر دیے گئے اور اس کے علاوہ یہاں پر کچی آبادیاں بھی بن گئیں۔ کراچی امیدوں روشنیوں کا اور زندگیوں کا شہر تھا اگرچہ اس کے اندر پہنچنے والی معاشرتی برائیوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور آج کا کراچی پہلے والا کراچی نہ رہا۔

ناول ”غبار“ بھی کراچی اور اس کے مسائل کے علاوہ پاکستان کے مسائل کا مکمل احاطہ کر تا ہے۔ یہ ناول ڈاکٹر شیرشاہ سید کا تحریر کردہ ہے ان کے آباؤ اجداد کا تعلق بھارت کے علاقے بہار سے تھا۔ ان کے آباؤ اجداد تقسیم کے وقت ہندوستان سے امید اور روشنی کی تلاش اس نومولود ریاست پاکستان میں ہجرت کر کے آئے آج کل وہ طب کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ عورتوں سے مسائل سے متعلق گائنی کے شعبے میں بھی ماہر ہیں۔ ناول نگار کے علاوہ وہ افسانہ نگار بھی ہیں۔

ان کی مختصر کہانیوں میں بھی عورتوں کے مسائل اور عصری مسائل کو بھی خوش اسلوبی سے بیان کیا گیا۔ ان کا یہ ناول شہر زاد کراچی نے شائع کیا۔ کراچی کے اندر بنتی بگڑتی معاشرت کا خوبصورت عکاس ہے۔ کراچی کے کئی رنگ اور روپ ہیں۔ کئی پربتیں، تضادات اور ہر پرت کے نیچے ایک کہانی مخفی ہے ناول نگار نے بیک وقت کئی موضو عات پر لکھنے کی کوشش کی ہے ملک دشمن عناصر مختلف تحریکیں معاشرتی کج رویوں عورت کے اوپر کیے جانے والے مظالم جنسی ہراسگی سیاسی صورت حال اور ملک کے اندرونی انتشار کا بڑی خوبصورتی سے مطالعہ کرتا ہے۔

ناول کا پلاٹ کراچی اور اس کے نواح پر مشتمل ہے کمزور کے اندر سے کردار تخلیق کیے گئے پلاٹ سادہ نہ ہے بلکہ واقعات ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں ابتدا، وسط، انجام تک بیک وقت کئی کردار قاری کے سامنے آتے ہیں جو کے کہانی کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ ناول کی بیک وقت کئی جہتیں ہیں۔ ناول کے مرکزی کردار ڈاکٹر زاہد، ڈاکٹر جلال، خادم علی ہمہ اور رمیحہ ہیں۔ ناول کی کہانی کے اندر دو رخ ہیں ایک طرف امیرانہ زندگی اور اس کا چال چلن تو دوسری طرف غریب لوگوں کے انداز زندگی اور ان کے مسائل کی خوبصورت عکاسی کی گئی ہے۔

طب کے شعبہ سے وابستہ لوگوں کی زندگی کے مسائل ان کے پس منظر اور اس شعبہ کے اندر خواتین کے مسائل بڑی مہارت سے بیان کیے گئے ہیں۔ یہ کہانی طب کے شعبہ کی نہ ہے بلکہ پاکستان کے اندر پر شعبہ ہائے زندگی میں اس طرح کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ چاہیے وہ تعلیمی میدان ہو، سیاسی ہو، پھر عملی زندگی ہو مختلف طلبا ء تنظیموں کا اپنے نا جائز مقاصد کے حصول کے لیے استعمال اور بعد میں ان سے قطعہ تعلقی ظاہر کے دینا یہ سب اس ناول کے موضوعات ہیں۔

ادب برائے زندگی کا عکاس یہ ناول اپنے اندر اتنی وسعت رکھتا ہے کہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے قارئین کو مطالعہ کی دعوت دیتا ہے۔ مذہب کے ٹھیکیداروں کے عزائم کو چاک کیا گیاہے۔ ہر عہد میں ان لوگوں نے اپنے مقاصد کے لیے مذاہب کی غلط تعبیر کی ہے۔ ناجائز قابضین کے کے گروپ میں جب پارک، لائبریری اور کھیتوں کے میدانوں کی زمین کو ہتھیالیں گے تب تب جرائم پیشہ ور اور نشئی افراد کی بہتات ہو گی اور یہ اس معاشرہ کے زوال کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔

صحت وتعلیم کا معیا ر بھی سب کے سامنے ہو گا۔ سرکاری اداروں کو اپنی منشاء کے عین مطابق ناکام کر دیا جائے گا۔ تاکہ اس کی جگہ وہ کاروباری اور لے لیں۔ جو کہ خود ان سرکاری اداروں کے ملازم ہیں۔ مگر ان کی زندگی ان کے پرائیوٹ کاروبار ہیں۔ قابل، تعلیم یافتہ اور ایماندار لوگوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ یہی معاشرے کا دستور رہاہے۔ غریب کے بچے دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے ہوٹلوں پر کام کرنے سے کے کر بھیک تک مانگ لیتے ہیں۔ اور اس نظام کو مضبوط کرنے والے اسی گز کے پلاٹ سے نکل کر اربوں، کھربوں کی جائیداد کے مالک بن جاتے ہیں۔ یہ ملک طبقاتی تقسیم کا شکار بن چکاہے۔ ناول نگار نے ان شب موضوعات کو خوش اسلوبی سے ناول کا حصہ بنایاہے۔

بیر گل، صبیحہ، ہما جیسی لڑکیاں اپنے مصوم خوابوں کی تکمیل میں ہوس کا شکار ہو جاتی ہیں۔ کلیوں کی طرح مسل دی جاتی ہیں۔ کڑوے اور نا قابل برداشت حقائق، زہریلی سچائیاں، ہوس میں کچلتے ہوئے مصوم جذبات اس سڑانڈ زدہ معاشرہ کی بد بو اور گندگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ناول کے مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتاہے کہ ہر شفقت، نام نہاد عزت کے پیچھے مفادات مخفی ہیں۔ ہر طلبہ تنظیم کے اندر سیاسی رہنماؤں کے مفادات تحریکوں میں بھی عام عوام کے لیے کچھ نہیں بلکہ ان کو صرف اور صرف آلہ کار کے طورپراستعمال کی جاتاہے۔ یہ معاشرہ ہر چیز کے بدلے میں قیمت وصول کرتاہے۔ اور یہ قیمت وقت کی مناسبت کے حوالے سے مختلف ہوتی ہے۔

”آج کل محنت کچھ بھی نہیں ملتا ہے۔ رشتہ داری، دوستی وفاداری، تعلیم، نوکری، سماج میں مقام، صحت ان ساری چیزوں کی صحبت ہے۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ قیمت بھی بدلتی رہتی ہے۔ بالکل سونے کی طرح“

معاشرہ اپنے اندر اچھائی او ر برائی دونوں کو سموئے ہوئے ہے۔ اچھائی اور برائی دونوں کا اپنا ہی معیار ہے۔ اچھائی کرنے والد ابتداء سے مشکل کا شکار ہوتاہے۔ مگر برائی کرنے والا اپنے نقلی چیزوں کی مدد سے محفوظ رہ جاتاہے۔ یہی کچھ اس ناول میں بیان کیا گیاہے۔ گینگ وار کے کارند ے بھی اس کی مثال ہیں۔ ان کے ایک دوسرے سے لاکھ اختلاف ہوں مگر یہ اپنے ان پیٹی بھائیوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ ان کی اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ یہ اپنے اصولوں کو نہ توڑتے ہیں۔ کراچی کے گینگ وار کے متعلق ناول نگار یوں بیان کرتا ہے۔

اچھا کام کرنے والے اچھے لوگ ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں اکثر و بیشتر ایک دوسرے کے خلاف کام شروع کر دیتے ہیں۔ برے لوگ برے کام کرنے والوں سے اتفاق کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے حریف ہوتے ہیں ملکر کام کرتے ہیں۔

ناول نگار کا اس سے ان تمام غیر قانونی قابضین، ملک دشمن افراد، غیر قانونی مفاد پرستوں، سرداروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کی طرف اشارہ کرتا ہے یہ لو گ اوپر ہی اوپر ان لوگوں کے حقوق کی بات کر کے ان کی حمایت حاصل کرتے ہیں اس حمایت کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں کراچی کے اندر مہاجرین کی تحریک ہو یا پھر سندھ کو سندھو تحریک، صوبہ سرائیکستان کی حمایت ہو یا پھر بلوچ سرداروں میں اپنے اپنے مقاصد کے لیے عام عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ ان کے جذبات کا استحصال کیا جا رہا ہے اور حاصل حصول اس کا کچھ بھی نہ ہے پٹھان نوجوانوں کو خودکش بمبار بنایا جا رہا ہے۔ اور ان کو ایک الگ وطن کا خواب دکھا کر قوم پرستی کا سبق یاد کروایا جا رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے اعلیٰ مقام کی حاصل شخصیات بھی کار فرما ہے ان کو بیرون ممالک سے فنڈنگ بھی حاصل ہے۔

ڈاکٹر جلال اور ڈاکٹر زاہد دونوں کے کرداروں میں تضاد ہے دونوں با الترتیب برائی اور اچھائی کے نمائندہ ہیں۔ ڈاکٹر جلال اپنی خواہشات کی تکمیل میں اور اقتدار کے نشے میں ہر ناجائز کام کر گزر جاتا ہے۔ اس کے برعکس ڈاکٹر زاہد اچھائی اور ایمانداری میں ہر اس مشکل کو برداشت کرتا ہے جو اس کے لیے پیدا کی جاتی ہے۔ امارت کی چکا چوند روشنی کا متلاشی جلال اپنے آپ کو ایک ایسے نظام میں شامل کر لیتا ہے جس کے لیے خود سپورٹنگ کا کردار ادا کرتا ہے۔

مفادات پہچانتا بھی ہے اور حاصل بھی کرتا ہے۔ اس کا شاطرانہ ذہن نئی نئی چالیں اختراع کرتا ہے۔ ان چالوں کے اندر وہ وزراءسے لے کر سیکرٹری کو پھنسا لیتا ہے۔ عورت کو وہ ایک کانٹے کے طور پر استعمال کر کے ان سے اپنے فائدوں کا حصول کرتا ہے۔ ایسا نظام جس کے اندر غریب کا حق مارا جاتا ہے۔ لائبریری، پارک و تفریح کے لیے وقف شدہ املاک کو انتظامیہ کی ملی بھگت سے حاصل کر کے اپنے ناجائز مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتا ہے معاشرہ کے مسیحا ہوتے ہوئے اپنے ہی شعبہ سے منسلک ڈاکٹر صبیحہ اور ہما کی عزت کو تار تار کر دیتا ہے ڈاکٹر زاہد بھی اس کے عتا ب کا شکار ہوتا ہے اور یہاں اس کے لیے ملازمت کا حصول بھی مشکل بنا دیتا ہے۔

ناول نگار نے بیک وقت کئی سماجی و عصری مسائل پر قلم اٹھایا ہے۔ ان میں اہم مسائل قوم پرستی، وڈیرہ و جاگیرداری نظام، سراداری نظام زندگی، سرائیکی و پنجابی تنازع، اردو اور غیر اردو تنازع۔ یہ سب اہم مسائل ہیں۔ ڈاکٹر شازیہ کا قتل بھی سندھ کے اندرون میں وڈیرہ شاہی کو عیاں کرتا ہے کہ کس طریقے سے ایک پڑھی لکھی ڈاکٹر کو دھوکے سے بلاکر اس کے شوہر سمیت کلہاڑیوں کے وار کر کے قتل کر دیا جاتا ہے اور حکومت بے بسی کی تصویر بنی رہتی ہے۔

بلوچستان کے اندر نصب علی خان جسے سردارجو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں وہ پرانی روایا ت کے حامل ہوتے ہیں۔ اور اپنے عوام کی بھلائی کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہ کرتے ہیں۔ بلکہ صرف دکھاوے کے لیے ان لوگوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ اندر ہی اندر یہ اپنی ایک الگ ریاست کے قائل ہوتے ہیں۔ جہاں ان کا اپنا ہی حکم چلتا ہے لوگ نسل در نسل ان کے غلام ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی اور موت کے فیصلے بھی یہ کردار میں کرتے ہیں۔ عوام کو تعلیم و صحت کی ناقص سہولیات ملکی دفاع کے لیے اندھا دھند خرچ اور دفاع کو ناقابل تسخیر بنانا اور بنیادی مراکز صحت میں سہولیات کے فقدان کی وجہ سے حاملہ عورتیں تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہ ہے۔ قبرستانوں کی زمینوں پر قبضہ مافیا من مرضیاں کر رہا ہے۔ حکومت صرف دکھاوے کا کام رہی ہے۔ ہر سرکاری ادارے کا حال مکمل طور پر شکستہ ہے۔ ناول کا اقتباس:

” ایک ایسے ملک میں جس کے پاس کیا نہیں تھا صفوں سے آباد زمینیں، محنت کرنے والے مزدور، جفاکش کسان، اتنی بڑی فوج جدید لڑاکا جہاز۔ جس کے حکمرانوں کے کاروباریورپ امریکہ میں تھے جن کے بچے دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں پڑھتے تھے۔ اس ملک کے سرکاری ہسپتال میں مریض محض اس لیے مر جاتے ہیں کہ دوا نہ ہوتی ہے۔ ڈاکٹر نہیں ہوتے ہیں نرسیں نہیں ہوتی ہیں“

جہالت ایک لعنت ہے۔ پرانی اقوام بھی شاید اس کی وجہ سے برباد ہوئی ہیں۔ ہمارا حال بھی ان سے بد تر ہے آج بھی ہم اس ذہنی غلامی کا شکار ہو کر نسل در نسل غلام چلے آ رہے۔ ناول نگار اس صورت حال پر تڑپ اٹھتا ہے۔

”یہ لوگ مخدوم زادے ہیں۔ اپنے اپنے علاقوں کے جاگیردار مذہبی رہنما اور شہروں میں تھری پیس سوٹ پہن کر گھومنے والے آج کے پڑھے لکھے جاگیر دار سرداراپنے بزرگوں سے بھی بدتر ہیں۔ ان کا مفاد اسی میں ہے کہ کچھ نہ بدلے اور یہ لوگ کچھ بدلنے بھی نہ دیں گے“

ناول نگار کو ایک موہوم سی امید ہے اور وہ ان لوگوں کے بدلنے کے خواب دیکھ رہا ہ۔ کہ یہ کب اپنے حقوق کے لیے لڑیں گے جاگیں گے۔

”نہ جانے وہ کب اپنے لیے لڑیں گے اپنے آپ کے لیے اپنے حق کے لیے، نہ جانے یہ دن کب آ ئے گا“

اس طرح سے زندہ رہنے والی اقوام صرف اور صرف تاریخ کے اوراق میں زندہ رہتی ہیں۔ ان کا نام و نشان مٹ جاتا ہے جہاں نسل در نسل غلامی ہو، حق دار کو اس کا حق نہ ملتا ہو، منافقت کی بھر مار ہو۔ ایک ایسی منافقت جس میں صرف اور صرف اس لیے ان لوگوں کو جاہل رکھا جائے کہ جس سے ان کا اپنا مفاد ہو۔ آج کے پڑھے لکھے سردار ان پڑھ سرداروں سے بد تر ہیں۔ جہاں اچھا کام کرنے والوں کو صرف ان کی اچھائی کی وجہ سے انتقامی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تا وقتیکہ وہ اس نظام میں گھل مل نہ جائیں۔ ایک ایسا ملک جہاں لوگوں کو ان کے افکا رکی وجہ سے اٹھا لیا جاتا ہے۔ پھر وہ نامعلوم ہو جاتے ہیں۔ ان کا کوئی بھی اتا پتہ نہ ہوتا ہے ان کے بچے ان کے انتظار میں سولی پر رہتے ہیں۔ ہم ایک ایسے نظام کا حصہ ہیں جو کہ ساکت ہے۔ کرداروں کی شکلیں بدلی ہیں۔ باقی وہی پرانا فرسودہ نظام زندگی ہے یہ ناول ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے اور اس کے اند ایک موہوم سی امید ہے کہ شاید لوگوں کے دلوں سے غبار صاف ہو اور وہ بھی اپنے آپ کو صاف کر لیں۔ امن و محبت کا پرچار ہو اور ہمارا ملک بھی ترقی کے مراحل طے کرے آمین؛

”اس امید کے ساتھ کہ اس مثالی ہلچل میں ہم بھی شامل ہو جائیں۔ ہمارے بھی وجود میں اضطراب ہو جائے۔ ہم بھی کسی سفر میں شامل ہو جائیں۔ کسی سمت جا نکلیں۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).