عورت کی آزادی اور نظریاتی جنگ کے قیدی


”ڈاکٹر حافظ اسامہ اکرم غوری کے قلم سے فیمن ازم کا شکار بہنوں کے لئے کچھ درد بھرے جملے“

کل 8 مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منایا گیا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق اس پر اظہار رائے کر رہا ہے۔ کچھ لوگ اس پر چٹکلے چھوڑ رہے ہیں، کچھ اس پر اپنی غیرت جتا کر پلے کارڈ اٹھائے ہوئے ہماری ہی مسلمان بہنوں کو لتاڑ رہے ہیں اور کچھ ”لٹھ برادر“ اس کے رد میں ”تحفظ حقوق مرداں“ کی تحریک چلانے کا اعلان کر رہے ہیں۔

لیکن ہم ہمیشہ کی طرح معاملہ فہمی سے عاری فقط جذباتی ہی واقع ہوئے ہیں۔ ہم اس بات کو سمجھ نہیں پارہے کہ جب تک کسی مرض کی جڑ تک پہنچ کر اس کا علاج نہیں کیا جاتا تب تلک ہم اس سے چھٹکارہ نہیں پا سکتے۔

ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آخر یہ نوبت کیسے آ گئی کہ ہماری ہی حفصہ اور عائشہ کے سامنے ”لبرل ازم“ کو ایسے سنہرے نعروں سے مزین کر کے پیش کیا گیا کہ وہ ”میرا جسم، میری مرضی“، ”اپنا کھانا خود گرم کر لو“، ”دوپٹہ تم خود اوڑھ لو“، ”عورت بچے جننے والی مشین نہیں ہے“ مرد تو ہے ہی سر درد ”، “ میں گاڈی کا ٹائر بدل لیتی ہوں ”، “ مجھے کیا پتہ تمہارا موزا کہاں ہے ”جیسے شکوے اور شکایتوں کو لئے سڑکوں پر نکل آئیں۔

یہ سب اچانک نہیں ہوا۔ ہمارے گھروں اور تعلیمی اداروں، یونیورسٹیز اور میڈیکل کالجز میں بتدریج ان نظریات کو داخل کیا گیا ہے۔
وللہ العظیم یہ ہماری قابل رحم بہنیں ہیں جو لبرل ازم کے عفریت کا شکار ہو چکیں۔ ان کو ہماری ہمدردی کی ضرورت ہے۔ یہ اسلام سے نکل کر الحاد کے رستے پر گامزن ہو چکیں۔

ہماری ان معصوم کلیوں کو اسلام سے بدظن کیا گیا ہے۔ ان کے ذہنوں میں تشکیک کو پروان چڑھا کر ”اسلام“ سے عار دلائی گئی ہے، غیرت و حمیت کے معنی کو بدل دیا گیا ہے، ان کے لئے عزت و عصمت کے مفاہیم کو الٹ کر رکھ دیا گیا۔

یعنی کہ دشمن کی طرف سے ہمارے گھروں اور تعلیمی اداروں میں ایسی خطرناک نظریاتی جنگ لڑی گئی جس میں ہم بری طرح شکست کھا چکے۔ ہماری نوجوان نسل اس کا شکار ہوچکی اور ہم سوئے رہے۔

ہمارا خاندانی نظام تباہی کے رستے کی طرف گامزن ہو چکا، طلاق کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی، نکاح مشکل تر ہو چکا، مرد و زن کے غیر شرعی تعلق کو معیوب سمجھنا ختم ہوتا جا رہا ہے۔ مطلب کہ ہم اس محاذ پر بتدریج شکست کھائے جا رہے ہیں۔

جبکہ ہم دوسری طرف اس کا شکار اپنی معصوم بہنوں، بیٹیوں اور بیٹوں کو اس طرح ڈیل ہی نہیں کر پا رہے جس کے وہ حق دار ہیں۔ ہم ان کا ٹھٹھہ مذاق اڑا رہے ہیں یا بغیر logical reasoning کے ان کو فقط دو چار رٹے رٹائے جذباتی جملے بول کر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کے سامنے یورپ میں موجود عورت کی زندگی کی مشکلات کو رکھنا ہے کہ وہ کس طرح غیر محفوظ اور اذیت ناک زندگی گزار رہی ہے۔

ہمیں ان کو یہ بات سمجھانی ہے کہ فیمن ازم کی اصل منشا عورت کو ایک Market product کی حیثیت دینا ہے۔
یہ عورت کی آزادی کے سب نعرے دراصل عورت کی بربادی کے نعرے ہیں۔ ورنہ اس کے بغیر آپ ان کو قائل نہیں کر سکیں گے۔

یعنی کہ ہم مرض کی تشخیص صحیح نہیں کر پارہے، ہمیں اپنے بچوں کو اسلام کے حقیقی تصور سے آگاہ کرنا ہے، ہمیں ان پلے کارڈ اٹھائے بہنوں کو بتانا ہے کہ اسلام ہی ہے جو آپ کے قدموں تلے جنت رکھتا ہے، آپ کو معاشرے میں خصوصی حیثیت عطا کرتا ہے، آپ کی جسمانی اور فطری ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کو فرض عبادات سے بھی خصوصی رخصت دے دیتا ہے، آپ کو معاش کی فکر سے آزاد کرتا ہے، آپ کو باپ اور خاوند کی جائیداد کا وارث بناتا ہے، آپ کو خاندانی نظام میں ایک ملکہ کی حیثیت عطا کرتا ہے، آپ کو غیر مردوں سے بچا کر آپ کی عزت و عصمت کی حفاظت کرتے ہوئے عورت کی خود اعتمادی اور self respect کو بڑھاتا ہے، زندگی گزارنے کے لئے پسند کی شادی کرنے کا اختیار دیتا ہے، اگر خاوند کے ساتھ رہنا مشکل ہوگیا ہے تو عورت کو خلع کا حق دیتا ہے، اسلام اپنی نسل کی تربیت اور بقا کا ضامن آپ کو بناتا ہے، غرضیکہ اسلام عورت کو ایک ایسا ٹھوس عملی کردار دیتا ہے جس کی بنیاد پر قومیں اور ریاستیں کھڑی کی جاتی ہیں، جنگوں کی کایا پلٹ دی جاتی ہے۔

ہمیں اپنی مسلمان بہنوں کو ان کے لئے اسلام کی دی گئی اہمیت سے روشناس کروانا ہے۔ ان سے عزت سے پیش آ کر اس جنگ میں ان کو اپنا ہم خیال بنانا ہے نہ کہ اس کا ایندھن جو غیروں کے ہاتھوں استعمال ہو، ایسے پروگرام اور ادارے منظم کرنا ہیں جو اس جنگ کولڑ سکیں۔

وللہ العظیم یہ ہماری نا اہلی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج اسلام کی بیٹی اسلام سے ہی بدظن ہو چکی۔ ہم اس کا بروقت تدارک نہ کر پائے۔ اگر ابھی بھی ہم اس کے حل کے لیے سنجیدہ نہیں ہوئے تو کچھ بعید نہیں کہ ہم بھی دشمن کے ہاتھوں اس ”نظریاتی جنگ کے قیدی“ بن جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).