ٹرینڈ میکر پارٹی اور سندھ میں نئے کلچر کی افزائش


اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں کسی پارٹی کے کارکنان نے اگر دی ہیں، تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عوامی طاقت کے مظاہروں سے لے کر مزاحمتی سیاست کے طریقوں تک پیپلز پارٹی ایک ٹرینڈ میکر پارٹی رہی ہے۔ اس میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ پیپلز پارٹی کی تاریخ مضبوط وفاق کی علامتوں اور سیاست کے روشن خیال حوالوں سے بھی عبارت ہے! مگر پ پ پ نے، بی بی کی شہادت کے بعد جس طرح بالائی ایوانوں سے عوامی دفاتر تک کرپشن کلچر کی ترویج روا رکھی ہے، اس نے سندھ کا ترقیاتی سفر بیحد سست کرنے کے ساتھ ساتھہ، عوامی سطح پے جائز نائز، صحیح غلط اور اہل نا اہل کے درمیان تمیز کو بھی دندھلا کر دیا ہے۔

سرکاری ملازمین نے حقوق اور فرائض کو صرف کاغذات تک محدود کر رکھا ہے، چنانچہ عوام نے بھی رفتہ رفتہ اپنے حقوق کی دعویداری سے دوری اختیار کرنا شروع کر دی ہے! گویا لینے والوں نے، خواہ دینے والوں نے کرپشن کو شعوری\ لاشعوری طور پے لازمی عمل سمجھنا شروع کردیا ہے۔ دفتری سطح پے ایک ایسا کلچر پروان چڑھ رہا ہے، جہاں عوامی مسائل کے حوالے سے کوئی کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے! سی ایم ہاؤس سے یو سی آفیس تک، ایک ایسی چین بنی ہوئی ہے، جس میں ہر سرکاری ملازم، اپنے باس کے سامنے ”منتھلی حساب کتاب“ اور دفتری کاغذات کے سوا کسی بھی حوالے سے جوابدھی محسوس نہیں کر رہا۔

گویا سرکاری دفاتر کی ترجیحات میں کہیں بھی عوامی حقوق اور گوڈ گورننس کے معاملات شامل نہیں ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سندھ کے سرکاری اداروں سے عوام کا اعتماد تیزی سے غائب ہو رہا ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں، عطائی ڈاکٹروں اور نجی ہسپتالوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد، سرکاری اداروں پہ ختم ہوتے ہوئے عوامی اعتماد کا اشارہ کر رہی ہے! ملازمتوں میں خرید و فروخت کی منڈیوں سے لے کر اھلیت کے امتحانات میں بددیانتی کی داستانوں تک، غریبوں میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ ان کے پاس پیسے ہی نہیں ہیں تو پھر بچوں کو پڑھانے کا فائدہ ہی کیا ہے!

کرپشن کلچر میں ضمیر، اصول، اخلاق، انسانیت، سچ، اور قانون جیسے الفاظ کا استعمال کم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے مفھوم سے بھی محروم ہوتا جا رہا ہے! گویا سماجی میل جول کی تصاویر سے، رشتوں کی تشکیل تک دولت نے انسانی جذبات اور احساسات کو یرغمال کر رکھا ہے۔ رشوت، سفارش اور اقربا پروری سے آنے والے نا اہلوں کی اکثریت اداروں پے اتنی حاوی ہوچکی ہے کہ ایک ایسی سوچ نے جنم لیا ہے، جس کے مطابق دفتر میں موجود ہر ملازم حاکم ہے اور کام کے لئے آنے والا ہر عام آدمی غلام ہے۔

یہ سوچ اتنی آگے جا چکی ہے کہ معاشرے میں اگر کوئی حقوق مانگے یا دلیل سے بات کرے تو صاحب حیثیت اور باختیار لوگ انا کا مسئلا سمجھ کر برا منا لیتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں دولت اور طاقت کی چمک دمک اتنی پرکشش بن چکی ہے کہ راشی، مکار، بددیانت اور دو نمبر لوگ آئیڈیل بنتے جا رہے ہیں۔ علم اور اخلاقیات کو معاشی برتری اور با اثر عہدوں نے یرغمال کیا ہوا ہے۔ ایسے میں ایک ایسا معاشرہ پروان چڑھ رہا ہے، جس میں انسانی اور اخلاقی اقدار معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔

بدقسمتی یہ ہے مذکورہ کلچر میں سرکاری اداروں کے ملازمین کی تقلید غیر سرکاری اداروں کے ملازمین بھی جابجا کرنے لگے ہیں۔ پچھلے چند برسوں کے دوران این جی اوز سیکٹر میں بے تحاشا کرپشن بھی اسی رجحان کا نتیجہ ہے۔ حد تو یہ ہے ک ”لوٹ مار“ کے حوالے سے سازگار پوسٹوں پے تعینات ملازمین کے فیملی والے بھی ”کرپشن آمدنی“ کے ذکر سے ایک دوسرے کو مرعوب کرتے رہتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ خیرات، قربانی اور دیگر مذہبی سرگرمیوں میں یہ دولت استمال ہوتی ہے، حالانکہ مذہبی نقطہ نگاہ سے رشوت کو جہنم کا راستہ بتایا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).