پاک بھارت مذاکرات۔ امکان واضح ہو رہا ہے


پلوامہ خود کش حملے کے بعد پاک بھارت تعلقات میں تناؤ اور جھڑپوں کے بعد، آخر کار حالات آہستہ آہستہ معمول پر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستان کا اپنے ہائی کمشنر کو ںئی دہلی واپس بھیجنے کا فیصلہ، کرتار پور راہداری پر بات چیت کی بحالی، ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی سطح پر رابطوں کی بحالی وہ اشارے ہیں جن سے ہم تعلقات معمول پر آنے کی توقع کر سکتے ہیں۔ پلوامہ خود کش حملے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے کشیدگی کو کم کرنے میں عالمی برادری و سفارت کاری کے علاوہ پاکستان نے خود بھی اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان نے امن کا پیغام دیتے ہوئے خود کو صرف دفاعی کارروائی تک محدود رکھا اور تصادم سے اجتناب کی پالیسی کے ذریعے حالات کو بے قابو ہونے نہیں دیا۔

تا ہم نئی دہلی کی توقعات کے برعکس، پاک بھارت تناؤ کے تناظر میں، ہندوستان کا بیانیہ کمزوری کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ وہ صرف اس وجہ سے نہیں کہ پاکستان نے بھارت کا طیارہ مار گرایا اور اس کا ہوابازگرفتار کر لیا، بلکہ پاکستان کی بدلتی ہوئی جامع داخلہ و خارجہ پالیسی اور ریاست کی نئی سوچ، وہ عوامل ہیں جو پاکستان کو خطے میں زیادہ قابل اعتبار ملک بنا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 14 فروری کو پلوامہ خود کش حملے کے بعد پاکستان کی بھارت پرسفارتی و فوجی برتری اہم ہے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ بھارتی فضائیہ کے طیارے نے 26 فروری کو پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر کے خیبر پختون خواہ میں واقع بالا کوٹ تک رسائی حاصل کی اور پھر بھارت نے بالا کوٹ میں جیش محمد کے سیکڑوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا لیکن اس کا کوئی بھی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ پاکستان نے اس واقعے میں کسی بھی جانی نقصان کی تردید کی۔

بھارتی دعووں سے قطع نظر، اسی کوشش میں پاکستان کے لئے ایک خطرہ ضرور پنہاں تھا اور وہ یہ کہ مودی سرکار آنے والی حکومتوں کے لئے ایک معیار یا مثال یہ چھوڑنا چاہتے تھے کہ اس کے ملک میں کسی بھی دہشت گردی کے جواب میں پاکستان کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ کیا جائے۔ اگر بھارت میں یہ پالیسی جڑ پکڑ جاتی تو کسی بھی وقت دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان بھرپور جنگ شروع ہو سکتی تھی، جس کے نتائج کسی کے لئے بھی اچھے نہ ہوتے۔ بھارت نے 2016 میں بھی اوڑی حملے کے بعد سرجیکل اسٹرائیک کا دعوا کیا تھا، اگرچہ اس کا بھی کوئی ثبوت فراہم نہ کر سکا۔ مودی کی اس پالیسی پر روک لگانا ضروری تھا۔

لہٰذا اگلے دن جب ہندوستانی طیارے نے مبینہ طور پر لائن آف کنٹرول کے ساتھ پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تو پاک فضائیہ اسے نشانہ بنا کر بھارتی ہوا باز کو گرفتار کیا اور بعد میں خیر سگالی کے طور پر اسے انڈیا کے حوالے کر دیا گیا۔ ان سارے واقعات کی علامتی اہمیت کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ مودی سرکار کی پالیسی پر روک لگا دی گئی۔

اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان عسکری تناؤ اورتصادم کی صورت میں میں بھارت کو اپنی اور پاکستان کی صلاحیتوں کی حدود کا اندازہ ہو گیا ہے۔ مودی حکومت کویہ کہتے ہوئے پاک فضائیہ کی برتری تسلیم کرنی پڑی کہ اگر بھارت کے پاس رفال طیارے ہوتے تو نتیجہ مختلف ہوتا۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج کا اکثر ساز و سامان پرانا ہو چکا ہے۔ دونوں ملک ایٹمی طاقتیں ہیں جن کی آپس جنگ میں تباہی یقینی ہے اور بھر پور جنگ عقل کے کسی بھی پیمانے پر ناممکن دکھائی دیتی ہے۔ یہ پوری صورتحال نئی دہلی کے پاس موجود آپشنز کو محدود کرتا ہے اور اس کو مسائل کے حل کے لئے بات چیت کی طرف راغب کر سکتی ہے۔

پاکستان پچھلے گیارہ سالوں سے اس خواہش کا اظہار کر رہا ہے کہ نئی دہلی تصادم کی بجائے مسائل کی حل کے لئے پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات کا احیا کریں۔ اور اب حالات اسی طرف بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں خصوصاً جب ہندوستان کوتصادم کی پیچیدگیوں اور خطرات کا عملاً پتا چل گیا۔ بھارت میں اپوزیشن جماعتیں بھی جنگ کی مخالفت کرتی ہیں اور مودی کی پالیسی پر تنقید بھی ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ پاک۔ بھارت کشیدگی کے دوران انڈیا کے برعکس پاکستان کے دعوے یعنی بھارتی جہازوں کا گرانا یا ہوا باز کو پکڑنا تمام کے تمام سچ ثابت ہوئے۔

دوسری جانب انڈین حکومت کا یہی مطالبہ تھا کہ پاکستان ان عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے جو اس کے مطابق ان کے ملک اور بھارت کے زیر انتظام کشمیرمیں دہشت گردی کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خطے میں افغانستان کے بعد دہشت گردی سے سب زیادہ متاثر ہونے والا ملک پاکستان ہے جو 2001 سے لے کر اب تک فوجیوں اور پولیس اہلکاروں سمیت 60 ہزار سے زیادہ جانیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربان کر چکا ہے۔ اور 130 ارب ڈالرز سے زیادہ مالی نقصان اٹھا چکا ہے۔

2014 میں پشاور آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی تھی جس کے تحت پاکستان میں تمام کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اور اس کا مقصد ملک میں عسکریت پسند عناصر کا خاتمہ کرنا تھا۔ مارچ میں حکومت نے ان تمام تنظیموں، جن میں جیش محمد اور جماعت الدعوۃ شامل ہیں، کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا اور ان لوگوں کو بھی حراست میں لے لیا جن پر پلوامہ حملے کا الزام لگایا گیا ہے۔

اطلاعات یہی آ رہی ہیں کہ حکومت عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے سنجیدہ ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر داخلہ شہریار آفریدی نے صحافیوں کو بتایا کہ عسکری تنظیموں کے خلاف کارروائی ملک کے مفاد میں کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ پلوامہ خودکش حملے کی ذمہ داری بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جیش محمد کی ایک شاخ نے قبول کی ہے لیکن بھارت نے اس کا الزام پاکستان پرعائد کر کے جنگ کا نقارہ بجانا شروع کیا۔

اب بھارت کے پاس بات چیت کو ٹالنے کا بہانہ بھی نہیں رہے گا۔ پاکستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی سے بھارت کی بات چیت کی بحالی کے لئے یہ شرط، کہ پاکستان سب مسائل سے پہلے دہشت گردی پر بات کرے، پوری ہو گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک تقریر میں بات چیت کے لئے یہ شرط قبول بھی کر لی تھی۔ یہ صورتحال بھارتی حکومت کو خود بخود پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لئے با عزت راستہ فراہم کرتی ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں عقلیت پسندی کا عنصر زیادہ واضح ہونے لگا ہے اور یہی وہ نقطہ ہے جو جدید دنیا میں موزوں سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کا جنگ کی بجائے امن کا بیانیہ وسطی ایشا اور جنوبی ایشیا کو آپس میں جوڑنے کی خواہش رکھنے والے چین، خطے میں سر مایہ کاری کے لئے بے تاب امریکہ، پاکستان اور بھارت سے بیک وقت اچھے تعلقات رکھنے کی پالیسی پر گام زن روس اور دہشت گردی و جنگوں سے تھکی ہوئی دنیا کے لئے زیادہ قابل قبول ہے۔ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور چین پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ طالبان اور امریکہ بات چیت میں کردار کے بعد اسلام آباد اور واشنگٹن میں قربتیں پھر بڑھنے لگی ہیں۔ اور پاکستان کی امن کے لئے نئی پالیسیاں جلد تہران اور کابل کو اپنی طرف کیھنچ لیں گی۔

امداد حسین اسلام آباد میں مختلف ملکی و غیرملکی صحافتی اداروں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ معروف جریدے نیوز لائن کے لئے بھی رپورٹنگ کرتے ہیں۔

امداد حسین
Latest posts by امداد حسین (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

امداد حسین

امداد حسین اسلام آباد میں مختلف ملکی و غیرملکی صحافتی اداروں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ معروف جریدے نیوز لائن کے لئے بھی رپورٹنگ کرتے ہیں۔

imdad-hussain has 1 posts and counting.See all posts by imdad-hussain