عامر لیاقت: ’کیا پاکستانی مردوں سے عورتوں کی یکجہتی ہضم نہیں ہو پارہی؟‘


عامر لیاقت

TWITTER/FACEBOOK

گزشتہ ہفتے پاکستان میں خواتین کے عالمی دن کے موقع منعقد کیے گئے عورت مارچ میں جن پلے کارڈز اور نعروں کا استعمال کیا گیا، سوشل میڈیا پر ان کے بارے میں گرما گرم بحث جاری ہی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کے ایم این اے اور ٹی وی اینکر عامر لیاقت نے اس بحث میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے ایک ویڈیو پوسٹ کردی، جس نے بحث کا رخ ہی موڑ دیا۔

عامر لیاقت نے اپنی ویڈیو پوسٹ میں عورت مارچ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ’پاکستان کا چہرہ مسخ کرنے والا غیر ملکی ایجینڈا‘ قرار دیا ہے اور وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ کیا کہ وہ تحقیقات کروائیں کہ اس مارچ کے پیچھے جن این جی اوز کا ہاتھ ہے انھیں فنڈنگ کون فراہم کر رہا ہے اور پاکستان میں انھیں بند کیا جائے۔

خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں خواتین کیلئے محفوظ اور سازگار ماحول فراہم کرنے کے عہد کی تجدید کرتے ہیں۔

اس دن کے حوالے سے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق وزیر شیرین مزاری نے بھی اپنی ٹویٹ میں کہا کہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے انہیں جس سب سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ دن ان کوششوں کو بھی اجاگر کرتا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم حکومتی سطح پر تو اس میں آگے بڑھ رہے ہیں لیکن یہ معاشرے کی ذہنیت ہے جسے ہمیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

لیکن اگلے روز پارٹی کے ایم این اے عامر لیاقت کی طرف سے عورت مارچ کو غیر ملکی ایجینڈا قرار دینے کے بعد انھیں کافی تنقید کا سامنا ہے۔

عامر لیاقت کی عورت مارچ پر تنقیدی ویڈیو نے اس ساری بحث کا رخ ہی موڑ دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود صارفین اب یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیسے حکومتی پارٹی کے ایک ایم این اے خواتین کے حقوق کی آگاہی کے لیے کیے گئے مارچ کو غیر ملکی ایجنڈا کہہ سکتے ہیں۔

فراز کا کہنا ہے کہ ورلڈ اکنامک فورم نے حال ہی میں پاکستان کو جنسی برابری کے لحاظ سے دنیا بھر کا دوسرا بدترین ملک قرار دیا اور ایک ایم این اے حکومت کو عورت مارچ کے خلاف تفتیش کرنے کا کہہ رہے ہیں۔

ظلِ الٰہی پی ٹی آئی کی خواتین کو مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں کہ ’آئیں اپنے ایم این اے کو لے جائیں۔‘

عامر لیاقت کی ویڈیو پر ایک اور سوشل میڈیا صارف نوال کا کہنا تھا کہ اسی طرح کے مردوں کی وجہ سے ہمیں عورت مارچ کرنا چاہیے۔

پاکستان میں خواتین کے سائبر حقوق کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی پروجیکٹ مینیجر شمائلہ خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر عامر لیاقت کی اس ویڈیو میں اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب ایک تھرڈ کے ذریعے دیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شمائلہ کا کہنا تھا کہ ’ہم بہت دنوں سے مختلف لوگوں کی اس مارچ کے خلاف ویڈیوز دیکھ رہے تھے لیکن چونکہ عامر لیاقت ایک مشہور شخصیت ہیں جن کے شائقین کی تعداد بہت زیادہ ہے، ان کے پاس ایک پلیٹ فارم ہے، وہ ٹی وی پر بھی آتے ہیں اور اب وہ ہماری لیڈنگ پارٹی کا حصہ بھی ہیں اور ایک قانون ساز کی حیثیت رکھتے ہیں، تو مجھے انہیں جواب دینا زیادہ موثر لگا۔ اس طرح کے ایک بندے کو جواب دے کر آپ بہت سارے لوگوں کی غلط فہمیاں دور کر سکتے ہیں۔‘

شمائلہ مذید کہتی ہیں کہ اس طرح کہ جو لوگ پاور میں ہیں وہ ہماری سوسائٹی کے رویوں کی نہ صرف عکاسی کرتے ہیں بلکہ وہ لوگوں کو متاثر بھی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا ذمہ داری سے بیانات دینا اور عورتوں سے یک جہتی کا اظہار کرنا ضروری ہوتا ہے۔

’حکمران جماعت کے کسی رکن کی طرف سے عورتوں کے خلاف اس طرح کے جنسی تعصب والے رویے اور بیانات بہت خطرناک ہیں کیوںکہ ایسے ہی یہ خیالات مین سٹریم میں آنا شروع ہوتے ہیں‘

شمائلہ خان

Shymla Khan
شمائلہ کہتی ہیں مجھے تو لگتا ہے ’پاکستانی مردوں سے عورتوں کی یکجہتی اور بہن چارہ ہضم نہیں ہو رہا‘

شمائلہ اس مارچ کو پاکستان کا چہرہ مسخ کرنے والا مارچ نہیں مانتیں، ان کا کہنا تھا اس مارچ سے تو دنیا کو ایک اچھا پیغام جاتا ہے کہ پاکستان میں عورتیں آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کر سکتی ہیں ’ٹھیک ہے حکومت میں موجود لوگ شاید اس مارچ کے کچھ اصولوں کے ساتھ متفق نہ ہوں لیکن انہیں سوسائٹی کو بہتر کرنے والی ایسی کوششوں کی حمایت کرنی چاہیے اور عورتوں کو اتنی آزادی دینی چاہیے کہ کسی منفی ردِعمل یا تشدد کے خوف کے بغیر وہ پرامن طریقے سے اپنے مسائل کو اجاگر کر سکیں۔‘

’ہر پلے کارڈ پر درج نعرے کے پیچھے ایک حقیقی کہانی ہے‘

جن پوسٹرز پر لکھے گئے کلمات کو عامر لیاقت نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اس بارے میں شمائلہ کا کہنا ہے کہ ٹھیک ہے ان پلے کارڈز پر درج نعرے مزاحیہ طریقے سے توجہ طلب انداز میں لکھے ہوسکتے ہیں کیوں کہ وہ نئی نسل کے لوگوں نے بنائے ہیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’ہر پلے کارڈ پر درج نعرے کے پیچھے حقیقی کہانیاں اور جائز مطالبات ہیں۔ مذاق میں کہا جا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سچ نہیں۔‘

مارچ

شمائلہ کا کہنا ہے کہ ’ہر پلے کارڈ پر درج نعرے کے پیچھے حقیقی کہانیاں اور جائز مطالبات ہیں‘

ان کا مذید کہنا تھا کہ اس طرح کے مارچ اور ان کوششوں کو کمزور یا کھوکھلا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیوںکہ یہ نوجوان لوگ ہیں اور یہی ہماری سوسائٹی کو آگے لے کر جائیں گے۔ ’اگر ان کی آوازوں کو مذاق بنا دیں یا ان کو ان پلے کارڈز پر ہراساں اور بدنام کیا جائے تو یہی عورتیں آگے نہیں بڑھ سکیں گی اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ نہیں ڈال سکیں گی۔‘

’عامر لیاقت کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا‘

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سابقہ چیئرپرسن زُہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ عامر لیاقت کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا۔ ’پہلے بھی ان کے پروگرام اور بیانات ایسے رہے ہیں جن میں انہوں نے سوسائٹی کے کچھ کمزور طبقوں کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا ہے، کئی سال پہلے انہوں نے احمدی کمیونٹی کے بارے میں بھی اسی باتیں کیں تھیں۔‘

زہرہ یوسف

Zohra Yousaf
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سابقہ چیئرپرسن زہرہ یوسف کہتی ہیں ’ٹھیک ہے ان پلے کارڈز پر اکسانے والے جملے لکھے تھے لیکن جب تک آپ نڈر ہو کر بات نہ کریں توجہ نہیں ملتی۔`

’بجائے یہ کہ وہ سوسائٹی کی بہتری کی کوئی بات کریں، ان کی پرسینیلٹی ایسی بن گئی ہے کہ وہ لوگوں کو بھڑکاتے رہیں۔ لیکن ایک ایسا طبقہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ان کے خیالات کو نظر انداز کرنا چاہیے کیونکہ وہ اپنی پرسنیلٹی کو پروجیکٹ کرنے کے لیے ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں۔‘

زہرہ کا کہنا ہے کہ مشہور شخصیات کے ایسے منفی بیانات کا سوسائٹی پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود عورت مارچ میں شرکا کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور عورتیں اب کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کررہی ہیں اور اس طرح کے بیانات اب عورتوں کو روک نہیں سکتے۔

عورت مارچ کے لیے بنائے گئے پلے کارڈز اور ان پردرج نعروں کو سوشل میڈیا پر جس تنقید کا سامنا ہے اس کے بارے میں زہرہ کا کہنا ہے کہ اس مارچ میں استعمال کیے گئے پلے کارڈز میں تمام اہم مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔

’اصل مسائل کو پیچھے چھوڑ کر زبان پر اعتراض کرنا ٹھیک نہیں۔ چاہے جو بھی زبان استعمال کی جارہی ہے ان میں وہ اپنے مسائل اور مطالبات کا اظہار کر رہی ہیں جو بالکہ صحیح ہے کیونکہ عورتوں کو اپنے جسم پر حق حاصل ہے۔‘

مارچ

زہرہ کہتی ہیں ’اصل مسائل کو پیچھے چھوڑ کر زبان پر اعتراض کرنا ٹھیک نہیں‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ عامر لیاقت کی پارٹی کو اس کا نوٹس لینا چاہیے کہ ان کا ایک ممبر کیسے عورتوں کے حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو نہ صرف پسپا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بکلہ عورتوں کو نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔

یاد رہے گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں خواتین کے مختلف گروپس نے عورتوں کے حقوق کے حصول اور آگاہی پھیلانے کے سلسلے میں مختلف شہروں میں عورت مارچ کا اہتمام کیا، جس میں مختلف طبقہِ فکر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے پرجوش انداز میں شرکت کی۔

مارچ کے شرکا نے معاشرے میں خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے کے علاوہ حکومت اور سیاسی جماعتوں سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ خواتین کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32804 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp