عامر لیاقت: ’کیا پاکستانی مردوں سے عورتوں کی یکجہتی ہضم نہیں ہو پارہی؟‘
گزشتہ ہفتے پاکستان میں خواتین کے عالمی دن کے موقع منعقد کیے گئے عورت مارچ میں جن پلے کارڈز اور نعروں کا استعمال کیا گیا، سوشل میڈیا پر ان کے بارے میں گرما گرم بحث جاری ہی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کے ایم این اے اور ٹی وی اینکر عامر لیاقت نے اس بحث میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے ایک ویڈیو پوسٹ کردی، جس نے بحث کا رخ ہی موڑ دیا۔
عامر لیاقت نے اپنی ویڈیو پوسٹ میں عورت مارچ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ’پاکستان کا چہرہ مسخ کرنے والا غیر ملکی ایجینڈا‘ قرار دیا ہے اور وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ کیا کہ وہ تحقیقات کروائیں کہ اس مارچ کے پیچھے جن این جی اوز کا ہاتھ ہے انھیں فنڈنگ کون فراہم کر رہا ہے اور پاکستان میں انھیں بند کیا جائے۔
یومِ نسواں کے موقع پر ہم محترمہ فاطمہ جناح کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں جو قیامِ پاکستان کی جدوجہد کے دوران جناب قائد کے ساتھ ڈٹی رہیں۔ ہم خواتین کیلئے محفوظ اور سازگار ماحول فراہم کرنے کے عہد کی تجدید کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی اہلیت کے مطابق قومی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ pic.twitter.com/VL86CJGMTr
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) March 8, 2019
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں خواتین کیلئے محفوظ اور سازگار ماحول فراہم کرنے کے عہد کی تجدید کرتے ہیں۔
International Women Day today not only celebrates womanhood but also highlights the road women still have to traverse in society to reach the goal of empowerment. We are moving forward at the level of the state/govt but it is mindsets that we also have to change. #WomensDay
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) March 8, 2019
اس دن کے حوالے سے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق وزیر شیرین مزاری نے بھی اپنی ٹویٹ میں کہا کہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے انہیں جس سب سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ دن ان کوششوں کو بھی اجاگر کرتا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم حکومتی سطح پر تو اس میں آگے بڑھ رہے ہیں لیکن یہ معاشرے کی ذہنیت ہے جسے ہمیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
لیکن اگلے روز پارٹی کے ایم این اے عامر لیاقت کی طرف سے عورت مارچ کو غیر ملکی ایجینڈا قرار دینے کے بعد انھیں کافی تنقید کا سامنا ہے۔
عامر لیاقت کی عورت مارچ پر تنقیدی ویڈیو نے اس ساری بحث کا رخ ہی موڑ دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود صارفین اب یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیسے حکومتی پارٹی کے ایک ایم این اے خواتین کے حقوق کی آگاہی کے لیے کیے گئے مارچ کو غیر ملکی ایجنڈا کہہ سکتے ہیں۔
Pakistan was recently ranked as the second worst country in the world in terms of gender parity by WEF, and an MNA asks Govt to launch investigations against Aurat march https://t.co/uTRvop6QwN
— faraz (@faraz_lhr) March 10, 2019
فراز کا کہنا ہے کہ ورلڈ اکنامک فورم نے حال ہی میں پاکستان کو جنسی برابری کے لحاظ سے دنیا بھر کا دوسرا بدترین ملک قرار دیا اور ایک ایم این اے حکومت کو عورت مارچ کے خلاف تفتیش کرنے کا کہہ رہے ہیں۔
PTI women, come collect your MNA. https://t.co/U1vJOMdH1o
— ظلِ الہٰی (@XilleIlahi) March 10, 2019
ظلِ الٰہی پی ٹی آئی کی خواتین کو مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں کہ ’آئیں اپنے ایم این اے کو لے جائیں۔‘
عامر لیاقت کی ویڈیو پر ایک اور سوشل میڈیا صارف نوال کا کہنا تھا کہ اسی طرح کے مردوں کی وجہ سے ہمیں عورت مارچ کرنا چاہیے۔
پاکستان میں خواتین کے سائبر حقوق کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی پروجیکٹ مینیجر شمائلہ خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر عامر لیاقت کی اس ویڈیو میں اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب ایک تھرڈ کے ذریعے دیا ہے۔
Buddy listen up, only addressing you because you have a really dangerous audience warna you're not worth it.
1. Your first problem is kay ham nay auraton kay against violence ko nahin address kya. Please refer to point 3 in our agenda. https://t.co/6e8YCiXT9W
— shmyla (@apniISPdot) March 10, 2019
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شمائلہ کا کہنا تھا کہ ’ہم بہت دنوں سے مختلف لوگوں کی اس مارچ کے خلاف ویڈیوز دیکھ رہے تھے لیکن چونکہ عامر لیاقت ایک مشہور شخصیت ہیں جن کے شائقین کی تعداد بہت زیادہ ہے، ان کے پاس ایک پلیٹ فارم ہے، وہ ٹی وی پر بھی آتے ہیں اور اب وہ ہماری لیڈنگ پارٹی کا حصہ بھی ہیں اور ایک قانون ساز کی حیثیت رکھتے ہیں، تو مجھے انہیں جواب دینا زیادہ موثر لگا۔ اس طرح کے ایک بندے کو جواب دے کر آپ بہت سارے لوگوں کی غلط فہمیاں دور کر سکتے ہیں۔‘
شمائلہ مذید کہتی ہیں کہ اس طرح کہ جو لوگ پاور میں ہیں وہ ہماری سوسائٹی کے رویوں کی نہ صرف عکاسی کرتے ہیں بلکہ وہ لوگوں کو متاثر بھی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا ذمہ داری سے بیانات دینا اور عورتوں سے یک جہتی کا اظہار کرنا ضروری ہوتا ہے۔
’حکمران جماعت کے کسی رکن کی طرف سے عورتوں کے خلاف اس طرح کے جنسی تعصب والے رویے اور بیانات بہت خطرناک ہیں کیوںکہ ایسے ہی یہ خیالات مین سٹریم میں آنا شروع ہوتے ہیں‘
شمائلہ اس مارچ کو پاکستان کا چہرہ مسخ کرنے والا مارچ نہیں مانتیں، ان کا کہنا تھا اس مارچ سے تو دنیا کو ایک اچھا پیغام جاتا ہے کہ پاکستان میں عورتیں آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کر سکتی ہیں ’ٹھیک ہے حکومت میں موجود لوگ شاید اس مارچ کے کچھ اصولوں کے ساتھ متفق نہ ہوں لیکن انہیں سوسائٹی کو بہتر کرنے والی ایسی کوششوں کی حمایت کرنی چاہیے اور عورتوں کو اتنی آزادی دینی چاہیے کہ کسی منفی ردِعمل یا تشدد کے خوف کے بغیر وہ پرامن طریقے سے اپنے مسائل کو اجاگر کر سکیں۔‘
’ہر پلے کارڈ پر درج نعرے کے پیچھے ایک حقیقی کہانی ہے‘
جن پوسٹرز پر لکھے گئے کلمات کو عامر لیاقت نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اس بارے میں شمائلہ کا کہنا ہے کہ ٹھیک ہے ان پلے کارڈز پر درج نعرے مزاحیہ طریقے سے توجہ طلب انداز میں لکھے ہوسکتے ہیں کیوں کہ وہ نئی نسل کے لوگوں نے بنائے ہیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’ہر پلے کارڈ پر درج نعرے کے پیچھے حقیقی کہانیاں اور جائز مطالبات ہیں۔ مذاق میں کہا جا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سچ نہیں۔‘
ان کا مذید کہنا تھا کہ اس طرح کے مارچ اور ان کوششوں کو کمزور یا کھوکھلا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیوںکہ یہ نوجوان لوگ ہیں اور یہی ہماری سوسائٹی کو آگے لے کر جائیں گے۔ ’اگر ان کی آوازوں کو مذاق بنا دیں یا ان کو ان پلے کارڈز پر ہراساں اور بدنام کیا جائے تو یہی عورتیں آگے نہیں بڑھ سکیں گی اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ نہیں ڈال سکیں گی۔‘
’عامر لیاقت کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا‘
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سابقہ چیئرپرسن زُہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ عامر لیاقت کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا۔ ’پہلے بھی ان کے پروگرام اور بیانات ایسے رہے ہیں جن میں انہوں نے سوسائٹی کے کچھ کمزور طبقوں کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا ہے، کئی سال پہلے انہوں نے احمدی کمیونٹی کے بارے میں بھی اسی باتیں کیں تھیں۔‘
’بجائے یہ کہ وہ سوسائٹی کی بہتری کی کوئی بات کریں، ان کی پرسینیلٹی ایسی بن گئی ہے کہ وہ لوگوں کو بھڑکاتے رہیں۔ لیکن ایک ایسا طبقہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ان کے خیالات کو نظر انداز کرنا چاہیے کیونکہ وہ اپنی پرسنیلٹی کو پروجیکٹ کرنے کے لیے ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں۔‘
زہرہ کا کہنا ہے کہ مشہور شخصیات کے ایسے منفی بیانات کا سوسائٹی پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود عورت مارچ میں شرکا کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور عورتیں اب کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کررہی ہیں اور اس طرح کے بیانات اب عورتوں کو روک نہیں سکتے۔
عورت مارچ کے لیے بنائے گئے پلے کارڈز اور ان پردرج نعروں کو سوشل میڈیا پر جس تنقید کا سامنا ہے اس کے بارے میں زہرہ کا کہنا ہے کہ اس مارچ میں استعمال کیے گئے پلے کارڈز میں تمام اہم مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔
’اصل مسائل کو پیچھے چھوڑ کر زبان پر اعتراض کرنا ٹھیک نہیں۔ چاہے جو بھی زبان استعمال کی جارہی ہے ان میں وہ اپنے مسائل اور مطالبات کا اظہار کر رہی ہیں جو بالکہ صحیح ہے کیونکہ عورتوں کو اپنے جسم پر حق حاصل ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ عامر لیاقت کی پارٹی کو اس کا نوٹس لینا چاہیے کہ ان کا ایک ممبر کیسے عورتوں کے حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو نہ صرف پسپا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بکلہ عورتوں کو نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔
یاد رہے گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں خواتین کے مختلف گروپس نے عورتوں کے حقوق کے حصول اور آگاہی پھیلانے کے سلسلے میں مختلف شہروں میں عورت مارچ کا اہتمام کیا، جس میں مختلف طبقہِ فکر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے پرجوش انداز میں شرکت کی۔
مارچ کے شرکا نے معاشرے میں خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے کے علاوہ حکومت اور سیاسی جماعتوں سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ خواتین کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
- نتن یاہو اور حماس رہنماؤں کے خلاف وارنٹ گرفتاری کی درخواست کرنے والے پاکستانی نژاد پراسیکیوٹر کریم خان کون ہیں؟ - 21/05/2024
- ابراہیم رئیسی کی آخری رسومات میں لوگوں کی بڑی تعداد کی شرکت لیکن ان کی موت پر جشن منانے والے کون ہیں؟ - 21/05/2024
- لندن سے سنگاپور جانے والی فلائٹ پر شدید ٹربیولنس، ایک مسافر ہلاک: دورانِ پرواز غیر متوقع جھٹکوں کی وجہ کیا ہوتی ہے؟ - 21/05/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).