کوہستان ویڈیو سکینڈل کے مرکزی کردار افضل کوہستانی


معجزے تو عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ ہاں البتہ بعض دفعہ اتفاق ضرور ہوتے ہیں۔ پہلی ملاقات تو یاد نہیں۔ آخری ملاقات عجیب سا اتفاق تھا۔ کمرہ امتحان، خاموش فضا، پرچہ لکھتے طلبہ، جسموں پر اثر انداز مئی کی گرمی۔ اور بدن پر ہلکی ہلکی پسینے کی لہریں۔ ویسے ہمارے ہاں امتحان بھی روز محشر سے کم نہیں ہوتے۔ افراتفری تو نہیں ہوتی مگر نفسانفسی میں ایک آواز سنائی دی۔ ایک گلاس پانی۔ سر اٹھا کر دیکھا تو پہلی قطار کی پہلی کرسی ایک دبلا پتلا، کلین شیو، ہم عمر لڑکا، بال کچھ بکھرے بکھرے۔

کچھ سیکنڈز کے لیے آنکھوں ہی آنکھوں میں ملاقات اور ہلکی سی مسکراہٹ کا تبادلہ۔ مسکرائے کیوں، شاید اس مشکل گھڑی میں ایک امید، ایک حوصلہ جو ہر طالب علم کو اس وقت ضروری ہوتا ہے۔ مگر معلوم نہ تھا کہ وہ لڑکا اس سے ہزار ہا بڑا حوصلہ اور امید اپنے اندر جذب کیے ہوئے ہے۔ یاد نہیں آ رہا کہ کمرہ امتحان اس نے پہلے چھوڑا کہ میں نے۔ لیکن زندگی کے امتحانات اور کٹھن راستے۔ افضل کا حوصلہ اور امید۔ کہتے ہیں کہ ایک جاھل سماج میں شعور رکھنا ناقابل معافی جرم ہے۔

اور جس معاشرے میں جھوٹ اور جہالت کو افضل مانا جائے۔ تو وہاں سچائی اور حق کی بات کرنا بہادری نہیں بلکہ بے وقوفی ہوتی ہے۔ لیکن افضل باشعور تھا کہ بیوقوف۔ ایک نہایت ہی قابل احترام استاد نے بتایا تھا کہ جو شخص اپنے آپ سے پیار کرنا نہیں جانتا وہ دوسروں سے بھی پیار نہیں کرسکتا۔ لگتا ہے افضل کو بھی انقلابی کتابیں اور ناول پڑھنے کا شوق تھا۔ جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر انصاف، عدل اور حق کی بات کرتا تھا۔ واقعی، افضل اک بے وقوف تھا۔

افضل کی موت کا سن کر دکھ ہوا۔ سمجھ نہیں آئی یہ واقعی دکھ تھا یا پھر منافقت۔ انصاف اور حقوق کی تو باتیں بہت کرتا ہوں مگر جب کسی کو ضرورت ہو تو بقول منیر نیازی دیر کردیتا ہوں۔ دیر۔ کتنی دیر۔ دیر کی بھی حد ہوتی ہے مگر یہ دیر نہیں منافقت ہے جواب بز دلی بن چکی ہے۔

دوسرے زاویے سے سوچتا ہوں تو یہ منافقت ٹھیک ہی لگتی ہے۔ بھائی اپنے مسائل تھوڑے ہیں کیا۔ ہم تو اپنے ماں باپ کے بڑھاپے کا سہارا ہیں۔ اچھی تعلیم، اچھی ڈگری، اچھی نوکری اور بہت سا پیسہ۔ آج کل پیسے سے بڑا بھی شعور کوئی ہے کیا۔ جو عدل و انصاف کے لئے نکل آئیں۔ اور اگر نکل بھی آئے۔ تو باپ اس عمر میں کورٹ کچہریوں میں فائل اٹھاتا پھرتا رہے۔ اور ماں بچاری کے سر بیٹیوں کا بوجھ۔ اور معاشرے میں بسنے والے لوگوں کے چند بول۔

سوچتا ہوں افضل کی موت پر دکھ کس بات کا۔ یہ رستہ تو افضل نے خود اپنے لئے چنا تھا۔ اس کا جرم ہی ناقابل معافی تھا۔ کتنا بے وقوف تھا افضل کے جو انسانیت کی بات کرنے نکل آیا۔ انصاف کے لیے لڑنے نکل آیا۔ اس معاشرے میں عدل و انصاف۔ جہاں قانون، انصاف، حق، انسانیت نہیں بلکہ جنس دیکھتے ہوں۔

کاش افضل بھی ہمارے معاشرے سے، تعلیمی اداروں سے، ڈگریوں سے منافقت سیکھ لیتا۔ لیکن افضل تو بے وقوف تھا۔ میڈیا کے چکر میں پڑ گیا۔ اور انصاف کے نام پر استعمال ہوتا رہا۔ بیچارا عدالت کے نام پر جوا خانہ پہنچ گیا۔ اور جواری انصاف کے نام پر جوا کھیلتے رہے اور افضل پیسے لٹاتا رہا۔ کاش اسے کوئی سمجھا دیں تا کہ یہاں جوا نصیب سے کھیلا جاتا ہے اور ایسا نصیب منافقوں کو ملتا ہے۔

باقی رہا انصاف، تو وہ یہاں سیاسی نعروں میں استعمال ہوتا ہے یا پھر کوئی مسیحا یا لیڈر آئے گا الہ دین کا چراغ رگڑے گا اور انصاف کا بول بالا ہو گا۔ ہمارے معاشرے میں زندہ انسانوں کی تو قدروقیمت نہیں۔ ہاں شہداء کی بڑی عزت اور اہمیت ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں شہداء ہی زندہ رہتے ہیں مگر اس کے لیے عدل و انصاف، حق اور انسانیت کو قتل اور انسانوں کو مرنا پڑتا ہے۔ جہاں تک افضل کے خون کی بات ہے۔ تو افضل نے انصاف، حق اور انسانیت کی بات کی ہے۔ افضل کا خون رائیگاں نہیں ہونے دیں گے۔ یہ جاھل، بزدل اور منافق سماج ”ہیرو“ اور ”شہید انسانیت“ جیسے الفاظ افضل کی بھٹکتی روح کو نواز دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).