”تذکار رفتگاں“ اھل علم کے لیے ایک علمی سوغات


اسوقت مولا نازاہد الراشدی صاحب کی تازہ تصنیف ”تذکار رفتگاں“ ہمارے سامنے ہے، کتاب کیا ہے پڑھ کر ہی اندازہ ہو سکتا ہے کہ کس پائے کی کتاب ہے اور اس میں کتنا قیمتی تاریخی علمی مواد موجود ہے، یہ کتا ب تقریباً نصف صدی سے زائد کے اکابر علماء، زعماء، مشائخ، قائدین، سربراہان مملکت اور قومی وبین الاقوامی شخصیات کے حالات زندگی کا احاطہ کرتی ہے، کتاب میں اس فانی دنیا سے رخصت ہوجانے والے اکابر اھل علم کی وفات پر ہلکے پھلکے انداز میں مولانا نے اپنے قلبی تاثرات وجذبات کا اظہار پیش کیا ہے، مولانا کو اللہ رب العزت نے گوناں گوں کئی صفات وکمالات سے نوازا ہے، علم وعمل، درس و تدریس، تقریر وتحریر، خطابت وصحافت، فقہ واجتہاد، تواضع وانکساری، جیسی صفات سے مالا مال فرمایا ہے، مولانا کا قلم عجب قلم ہے، آپ کی تحریر کی خوبی یہ ہے کہ آپ کو مشکل سے مشکل بات آسان پیرائے میں بیان کرنے کا ملکہ حاصل ہے، پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کا حل نکالنے میں مولانا اپناثانی نہیں رکھتے، غبی اور کم علم بھی آپ کی تحریر کو شوق سے پڑھ اور سمجھ سکتا ہے، اھل علم کا ایک بڑاطبقہ آ پ کے قلم کا گر ویدہ ہے، آپ کے قلم سے نکلی شستہ تحریر محبت کا پیغام دیتی، مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑتی اورپست ہمت لوگوں کو باہمت بنا دیتی ہے، آپ کی تحریر بھٹکے ہوؤں کو راہ راست پر لاتی، فرقوں اور گروہو ں میں بٹے ہوؤں کو وحدت آشناکرتی اور گم کردہ راہوں کو نشان منزل عطا کرتی ہے

میری کیاحیثیت! کہ میرا قلم مولانا کو سلام عقیدت پیش کرے، میرے کیا الفاظ وحروف! کہ مولانا کو محبت کا نذرانہ پیش کریں، جن کے قلم کو سلام، عالم اسلام کے عظیم مبلغ مولانا طارق جمیل صاحب عقیدت سے پیش کریں، جن کی تواضع و انکساری کو مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی اپنے لیے قابل رشک قرار دیں، جن کے فصیح اللسان بیان اور رواں قلم کی تعریف ڈ اکٹر محمود احمدغازی جیسے دانشور کریں، جن کو نصف صدی سے زیادہ تک امت کے اساطین علم اوراکابر اھل علم کی سرپرستی میں دینی خدمات کا موقع ملا ہو، حافظ الحدیث مولانا عبد اللہ درخواستی، مفتی محمود صاحب، مولاناعبید اللہ انور، مولانا غلام غوث ہزاروی اور مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمھم اللہ جیسی عظیم ہستیوں سے حصول علم اورکسب فیض کا موقع میسر آیاہو، اس کی عظمت کے کیا کہنے۔

اللہ رب العزت مولانا کو اور زیادہ صحت وعافیت سے نوازیں اور ان کی قومی، ملکی، دینی، ملی خدمات کے دائرے کو وسیع فرمائیں۔ زیر نظرکتاب کو چار مرکزی عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے، اساتذہ واکابر، قومی وبین الاقوامی شخصیات، رفقاء واحباب، مختصر تعزیتی شذرات، تقریباً ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے اھل علم وقلم اصحا ب علم و دانش، صاحب ثروت شخصیات کا تذکرہ عقیدت ومحبت کے ساتھ بڑے والہانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے، بالخصوص چند عظیم شخصیا ت کا تذکرہ تو بڑی چاہت ومحبت اورتفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے، جن میں سے حضرت مفتی محمود صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلوپر لگ بھگ پچپن صفحات میں اظہا ر خیال کیا گیا ہے، مرکز ی جامع مسجد گوجرانوالہ کے سابق خطیب حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحبؒ کو چودہ صفحوں میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے، مولانا عبیداللہ انورؒ اور مولانا عبداللہ رخواستی ؒ کا تذکرہ بھی محبت وعقیدت کے ساتھ بڑی تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، لیکن سب سے زیادہ قلبی جذبات وتاثرات کا اظہار مولانا صوفی عبدالحمید سواتی ؒ اور شیخ الحدیث مولانامحمد سرفراز خان صفدر ؒ کے تذکرہ میں ہوا ہے، اول الذکر مولانا کے عم محترم اور ثانی الذکر مولانا کے والد محترم ہیں، ان دونوں کا تذکرہ مولانا نے بڑی چاہت اور محبت میں ڈوب کر کیا ہے، مولانا اپنے والد محترم کے تذکرہ میں مضمون کا آغاز ان الفاظ سے کرتے ہیں۔

”حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ؒ میرے والد گرامی تھے، استاد محترم تھے، شیخ ومربی تھے، اور ہمارے درمیان دوستی اور بے تکلفی کا وہ رشتہ موجود تھا جو ہر باپ اور ا س کے بڑے بیٹے کے درمیان ہوتا ہے“۔ اس کے بعد مولانا اپنے والد گرامی کے خانگی حالات، بچوں کی تعلیم وتربیت کا انداز، تدریسی اور تحریکی زندگی، تصنیفی اور تالیفی خدمات اور روزمرہ کے معمولات کو سپر دقلم کیا ہے جو ہم سب کے لیے قابل نمونہ ہے۔ مولانا لکھتے ہیں : ”حضرت والد صاحب کی صحت میں شب وروز کا نظام کچھ اس طرح ہوتا تھا کہ سحری کے وقت اٹھ کر بلا ناغہ غسل کرتے تھے اور تہجد کی نماز ادا کرتے تھے، اس وقت ہماری والدہ مرحومہ بھی بیدار ہو کر تہجد پڑھتی تھیں اور ناشتہ تیار کرتی تھیں اذان فجر کے فوراً بعد والد محترم ناشتہ کرتے تھے جو عام طورپرپراٹھے اور چائے پر مشتمل ہوتا تھا، اس کے بعد مسجد میں چلے جاتے تھے، ساتھ ہی والدہ مرحومہ بھی مسجد میں چلی جاتی تھیں، اس لیے کہ فجر کی نماز اور درس میں خواتین بھی باقاعدہ شریک ہوا کرتی تھیں، اور خواتین کے لیے مسجد میں الگ انتظام موجود تھا، نماز فجر پڑھانے کے فوراً بعد حضرت والد محترم درس دیتے تھے، جو تین دن قرآن پاک اور تین دن حدیث پاک کا ہوتا تھا، اس کے بعد وہ گوجرانوالہ میں مدرسہ نصرت العلوم میں پڑھانے کے لیے چلے جاتے تھے، جہاں سے دوپہر سے کچھ پہلے واپسی ہوتی تھی، کھانا کھا کر اور اخبار پڑھ کر سو جاتے تھے، ظہر تک آرام ہوتا تھا، ظہر سے عصر تک اپنی چارپائی پر بیٹھے لکھنے اور پڑھنے کا کام کرتے رہتے تھے اور اسی دوران بچیاں مختلف اسباق کی تعلیم حاصل کرتی رہتی تھیں۔

عصر کی نماز کے بعد قرآن کی منزل پڑھتے تھے جو عام طور پر روزانہ ایک پارہ ہوتا تھا، اس کے بعد گھر کے چھوٹے موٹے کام اپنے ہاتھ سے کیا کرتے تھے، جس زمانے میں ابھی بجلی نہیں آئی تھی، لیمپ اور لالٹین کے شیشے صاف کرنا، چارپائی کی ڈھیلی ادوائن کو کسنا، پیڑھی وغیرہ اگر قابل مرمت ہوتو اسے ٹھیک کرنا اور اسی طرح کے دیگر چھوٹے چھوٹے کام کرنا ان کے معمولات میں شامل تھا، نماز مغرب کے بعد کھانا کھاتے اور مطالعہ کرتے تھے، عشاء کے بعد سردیوں میں مطالعہ کرتے اور گرمیوں میں جلد سونے کی کوشش کرتے تھے۔

“ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب ؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں :حضرت مولانا مفتی محمود صاحب ؒ صرف ایک سیاستدان نہیں تھے بلکہ دینی علوم کے معتبر استاد، بیدار مغز مفتی، فقیہ النفس عالم، حق گو خطیب، شب زندہ دار عارف باللہ بھی تھے، اس لیے ان کی ان متنوع اور گو نا گوں حیثیتوں میں سے سیاستدان اور سیاسی قائد کی حیثیت کو الگ کرنا اور اس کے امتیازات وتخصصات کو جدا گانہ طورپر پیش کرنا ایک مشکل اور دشوار امر ہے، اور یہ شاید ان کے ساتھ نا انصافی بھی ہو کہ ان کو صرف سیاسی قائد کے طور پر سامنے لایا جائے، مولانا مفتی محمود صاحب ایک مفتی اور فقیہ کی حیثیت سے اسلامی احکام کی تعبیر و تشریح، ترجمانی اور دفاع کی ذمہ داری سے تدبیر اور بصیرت کے ساتھ عہدہ برآ ہوتے تھے، افتاء اور تفقہ میں ابتداء اسلام سے دوالگ الگ ذوق پائے جاتے ہیں، ایک ذوق سختی اور تشدد کا ہے کہ مسئلہ بیان کرنے اور فتوی دینے میں کوئی لچک نہ دی جائے، دوسرا ذوق رخصت اور لچک کا ہے کہ مسئلہ پوچھنے والے کو شرعی اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر ممکن سہولت اور لچک فراہم کی جائے اور اسے مشکل اور الجھن سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، حضرت مفتی محمود صاحب کا ذوق نرمی اور سہولت کا تھا اور وہ یہ کہاکرتے تھے کہ کوئی شخص مسئلہ پوچھنے کے لیے آیا ہے تو اس بات کو غنیمت سمجھو کہ وہ دین کے دائرے میں رہنا چاہتا ہے، اس لیے اسے جتنی سہولت فراہم کر سکتے ہو، اس کے لیے پوری کوشش کرواور اصول کے دائرے کو قائم رکھتے ہوئے فروع وجزئیات میں زیادہ سختی نہ کرو، امت کے اجتماعی مسائل ومشکلات کے حوالے سے ان کا ذوق یہی تھا اور ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ کسی بھی مسئلہ میں شرعی اصول اور قواعد کی حدودمیں رہتے ہوئے نرمی اور سہولت کا راستہ اختیار کیا جائے اور مسئلہ کو الجھانے اور ڈیڈلاک کی کیفیت پیدا کرنے کی بجائے مسئلہ کے حل اورسلجھاؤ کی کوئی صورت نکالی جائے، مفتی صاحبؒ کو قدرت نے اسلامی احکام ومسائل کی حکیمانہ تشریح اور دفاع کا بھی خصوصی ذوق عطا کیا تھا اور وہ اسلامی قوانین پر اعتراضات کے جواب میں پورے اعتماد کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے منطق واستدلال کا ایسا حصار قائم کر دیتے تھے کہ کسی بڑے سے بڑے مخالف کے لیے بھی ان کے دلائل کا سامنا مشکل ہو جاتا تھا ”۔

جامعہ رشیدیہ ساہیوال کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہ رائے پوری ؒکا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں۔ “ مولانا عبداللہ رائے پوری ؒکی ذاتی زندگی انتہائی سادگی اور کفایت شعاری سے عبارت تھی، وہ جامعہ رشیدیہ سے اپنی تنخواہ وصول کرتے وقت مہینہ میں کی ہوئی چھٹیوں کا حساب کر کے اتنے دنوں کی تنخواہ وضع کروا لیتے تھے۔ درسگاہ میں پڑھائی کے وقت کے علاوہ جو وقت گزارتے اس کا حساب کر کے اتنا بجلی کا بل مدرسہ میں جمع کروادیتے۔

حضرت کے لیے جامعہ رشیدیہ میں ایک کمرہ الگ مخصوص کیا گیا تھامگر وہ آخر وقت تک جامعہ کو اس کا کرایہ ادا کرتے رہے۔ حضرت مدرسہ کے شیخ الحدیث ہو نے کے باوجود مدرسہ کے لیٹر پیڈ اورقلم دوات کو فتوی نویسی کے علاوہ کسی کام کے لئے استعمال نہیں کرتے تھے۔ وہ مدرسہ کی سالانہ تعطیلات کی تنخواہ بھی وصول نہیں کرتے تھے۔ دوسرے مدارس کے سالانہ اجتماعات اور امتحانات وغیرہ کے لیے جاتے تو ان سے سفر کے اخراجات سے زائد رقم وصول نہ کرتے تھے۔

”مولانا زاہد الراشدی صاحب کا اصلاح وارشاد اور بیعت کا تعلق مولانا عبیداللہ انور صاحب سے تھا، ان کا تذکرہ بھی مولانا نے بڑی محبت سے کیا ہے۔ لکھتے ہیں۔ “ مولانا عبیداللہ انور میرے شیخ تھے، میرا ان کے ساتھ اصل تعلق سلسلہ قادریہ میں بیعت کا تھا میں نے چند بزرگ ایسے دیکھے ہیں جن کا مستقل معمول تھا کہ وہ رات کو نہیں سوتے تھے ایک مولانا عبیداللہ انور، دوسرے مولانا سید حامد میاں ان کا معمول تھا کہ ساری رات نماز، مطالعہ، ذکر میں گزارتے تھے۔

مطالعہ بہت کرتے تھے میں نے اپنی زندگی میں وسعت مطالعہ کے اعتبار سے تین چار آدمی دیکھے ہیں کہ وہ ہر موضوع پر طویل کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کرتے تھے۔ ایک والد محترم مولانا سرفراز خان صفدر مطالعہ وتحقیق کے آدمی تھے۔ دوسرے امیر شریعت مولانا عطاءاللہ شاہ بخاری ؒکے بڑے بیٹے حضرت مولانا سید ابوذر شاہ بخاری۔ تیسرے مولانا عبیداللہ انور۔ چوتھے حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحب بڑے کتاب دوست آدمی تھے۔ ابتدا میں جب میں لکھتا تھا، تو ”زاہد گکھڑوی“ کے نام سے لکھتا تھا، ایک مرتبہ حضرت فرمانے لگے کہ زاہد صاحب! یہ گکھڑوی بڑا ثقیل لفظ ہے، کہتے ہوئے بڑ ا زور لگاناپڑتا ہے۔ کوئی سادہ سا لفظ ساتھ رکھیں۔ میں نے کہا حضرت! گکھڑ سے تعلق ہے اس لیے یہ اپنے نام کے ساتھ استعمال کر تا ہوں۔ فرمانے لگے کہ سلسلہ کی نسبت کرو ہمارا سلسلہ کہلاتا ہے عالیہ قادریہ راشدیہ۔ عالیہ حضرت علیؓ کے حوالہ سے۔ قادریہ حضرت شنخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے حوالہ سے اور راشدیہ حضرت شاہ محمد راشد سندھی کے حوالہ سے۔ اسوقت مولانا سعید الرحمان علوی میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے میں نے کہا علوی تو یہ بیٹھے ہیں اور قادری بھی بہت ہیں اب میں راشدی ہو جاؤں؟

فرمایا ہاں :ہو جاؤ، چنانچہ اس دن سے میں ”زاہد الراشدی“ ہوں۔ غرض مولانا نے تین سو کے لگ بھگ اکابر علماء مشائخ عظام احباب ورفقاء، قومی وبین الاقوامی شخصیات کا تذکرہ بڑے ہی دل نشین انداز میں کیا ہے چند ایک کے نام حسب ذیل ہیں۔ قائد احرار مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی۔ مولانا مفتی محمد حسن۔ مولانا محمد علی جالندھری۔ مولانا محمد ادریس کاندھلوی۔ مولانا غلام غوث ہزاروی۔ مولانا قاری محمد طیب۔ مولانا الشیخ عبدالفتاح ابوغدہ۔

مولانا سید ابوالحسن علی ندوی۔ مولانا خواجہ خان محمد۔ مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف۔ مولانا سلیم اللہ خان۔ شاہ فیصل بن عبدالعزیز۔ ذوالفقار علی بھٹو۔ جنرل محمد ضیاءالحق شہید۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ۔ نوابزادہ نصراللہ خان۔ نواب محمد اکبر خان بگٹی۔ صدر صدام حسین۔ ملا محمد عمر مجاہد۔ اسامہ بن لادن۔ مولانا شاہ احمدنورانی۔ قاضی حسین احمد۔ علامہ احسان الہی ظہیر۔ مولانا حق نواز جھنگوی۔ حکیم محمد سعید۔ مولانا محمد ضیاءالقاسمی۔ ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی۔ ڈاکٹراسرارا حمد۔ مولاناڈاکٹر محمود احمد غازی۔ مولانا محمد اعظم طارق۔ علامہ علی شیر حیدری۔ مجید نظامی اورجنرل حمید گل جیسے اساطین امت شامل ہیں۔ کتاب بہترین کاغذ، خوبصورت ٹائٹل کے ِساتھ تقریباًآٹھ سو صفحات کے لگ بھگ شائع ہوئی ہے، شائقین علم وادب کے لیے بہترین تحفہ ہے، کتاب کا پہلا ایڈیشن ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کی اشاعت خاص کے طور پر منظر عام پر آیا ہے امید ہے اگلا ایڈیشن مزید اضافوں کے ساتھ اس سے بہتر اندازمیں شائع ہو گا ان شاءاللہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).