روشن خیالی کے نام پر تاریک خیالی اور اپنی جہالت کے پوسٹر


جہالت پر کسی کی اجارہ داری نہیں، یہ وہ کیفیت ہے جس کا کسی ڈگری، کسی یونیورسٹی سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہ کس پر اور کب طاری ہو جائے اس کا بھی کوئی اندازہ نہیں۔ ہمارا ملا بھائی نہایت درد مندی سے اسلام کا مقدمہ اس انداز سے لڑتا ہے کہ خود اسلام چیخ اٹھے کہ مجھے ایسے وکیلوں سے بچاؤ۔ عیسائیت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، ہم مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ، جو اللہ کے پیغمبر اور سچے رسول ہیں کو عیسائیوں نے حد سے بڑھی عقیدت میں، ان کی حیثیت اور مقام سے اتنا آگے بڑھایا کہ خدا کا شریک بنا ڈالا اور ایسا انہوں نے حضرت عیسیٰ کی محبت میں کیا نتیجتاً شرک پر اتر ائے، یعنی نہایت عقیدت سے گمراہی کا راستہ چن لیا۔ اب ان کو بہکانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ رب کریم نے نہایت نہایت خوبصورتی سے قرآن میں بتایا ہے کہ ہم روز قیامت عیسیٰ سے پوچھیں گے کہ کیا تم نے ان لوگوں کو بتایا تھا کہ تم ہمارے بیٹے ہو۔ حضرت عیسیٰ کا جواب بھی بتا دیا ہے کہ وہ کہیں گے کہ میرے رب میں نے تو انہیں ایسا کچھ نہیں بتایا تھا۔

روشن خیالی کے وکیلوں نے اس ملک میں ایک جائز مقدمے کا بیڑا غرق اس انداز میں کیا ہے کہ روشن خیال جہاں بھی ہو گا اس نے اپنا سر پیٹ ڈالا ہوگا۔ خواتین کے عالمی دن پر خواتین کے حقوق کے نام پر جو تماشا ہوا، اس سے کیا نتیجہ نکلے گا، اس طرح کے وکیلوں کے ہوتے ملا بھائی کو کیا رنج کہ اس کا مقدمہ تو خود یہ توجہ کی طالب خواتین لڑتی ہیں۔

آپ ان نعروں پر ذرا توجہ دیں جن کو بطور دلیل پیش کیا گیا۔ ”میرا جسم میری مرضی“۔ خود کش حملہ آور کی دلیل اور کیا ہے؟ دنیا بھر میں خودکشی جرم کیوں ہے؟ کیا ایسا ہوا تھا کہ ایک بھٹکتی روح کو جوان جسم کہیں پڑا ہوا ملا اور وہ اس میں حلول کر گئی تھی۔ اس جسم کی ابتدا ہوئی تھی، چند قطروں سے گوشت کا لوتھڑا بنا تھا، ایک طویل صبر، آزمائش اور شدید تکلیف اٹھانے کے بعد یہ جسم نہایت نازک حالت میں ماں باپ کو ملا تھا۔

والدین کی سالوں کی محنت، بے سکونی، راتوں کا چین برباد کر کے دولت خرچ کر کے، جو بے پناہ محبت اور شفقت کے بغیر ممکن نہیں، کے بعد یہ جسم جوان ہوا ہے حضور آپ نے اس کو پلا ہوا نہیں پایا تھا۔ اب آگے آئیں، جوانی گزر گئی، جسم جواب دینے لگا، اب اسے سہارے کی، خدمت کی، آرام کی ضرورت ہے۔ یعنی جسم کے تین مراحل ہیں، بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔ تین میں سے یہ دو مراحل پر یہ دوسروں کا محتاج ہے۔ اگر صرف ایک مرحلے پر جسم پر صرف آپ کا حق ہے تو باقی دو مراحل پر دوسرے کیوں خدمت کریں۔

میرا جسم میری مرضی نامی جو دلیل پیش کی گئی اس سے کیا ثابت کرنا مقصود ہے، یہ کہ میں جو دل چاہے پہنوں یا نہ بھی پہنوں، جس کے ساتھ چاہوں جنسی تعلقات قائم کروں۔ مذہب کو ایک طرف رکھیں، ایسا دنیا کے کس ملک میں ہوتا ہے۔ اگر میں کوئی غیر معمولی لباس پہن کر باہر نکلوں تو کیا لوگوں کی آنکھیں پھوڑ دوں یا خود پر غور کروں۔ عجیب شکوہ ہے کہ میں بندر کا لباس پہن کر نکلوں لیکن مجھے کوئی دیکھے بھی نہ اور سوچے بھی نہ۔

ایک اور پوسٹر تھا کہ ”کھانا گرم کروں گی، بستر نہیں“ کیا واہیات جملہ ہے، غالباً ثابت یہ کرنا چاہتی ہیں کہ بیوی محض جنسی تعلقات کی تسکین کا نام نہیں۔ بالکل درست، مثلاً یورپ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں یہ جرم قرار پا چکا اور بیوی ایسی صورت میں پولیس کو نہ صرف بلا سکتی ہے بلکہ اپنے ہی شوہر پہ ریپ کا مقدمہ بھی کر سکتی ہے، لیکن اس مقدمے کی یہ کیا دلیل ہے کہ بستر گرم نہیں کروں گی۔ یہ دلیل خود اپنے وکیل کی حیثیت کو طوائف بناتی ہے۔

پھر ٹانگیں کھول کر کارٹون بنا ہے کہ ”لو بیٹھ گئی، اب سکون ہے“۔ خود کو سمیٹ کر بیٹھنا مغرب اور مشرق دونوں میں زندگی گزارنے کے آداب میں شامل ہے اور یہ مرد و عورت دونوں پر ایک سا لاگو ہوتا ہے، اگر آپ ایسا نہیں چاہتی تو ٹانگیں کھول کر بیٹھیں اور تقریباً ہر اجنبی بندے کی خواہش بھی ہو گی مگر پھر دوسرے سے یہ امید کہ وہ آپ کو دیکھے بھی نہ۔ سکرٹ پہننے والی گوریاں اس کو پہننے کے آداب سے واقف ہوتی ہیں۔ وہ بسوں میں، دفتر میں حتیٰ کہ کلبز اور ڈسکوز میں بھی ٹانگیں کھول کر نہیں بیٹھتیں۔

لندن میں ایک ریستوران ہے جس میں داخلے کے لئے طویل انتظار کرنا ہوتا یعنی ٹیبل بکنگ کے لئے۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ وہاں صرف برہنہ حالت میں ہی کھانا کھایا جا سکتا ہے۔ سروس دینے والے بھی اور گاہک بھی سب کے سب برہنہ۔ کسی کو اعتراض نہیں۔ مگر کیا وہ برہنہ حالت میں کسی بھی پارک میں بیٹھ جائیں؟ کہیں بھی چلے جائیں؟ ناممکن ہے۔ فوراً پولیس پکڑ لے گی کیونکہ برہنہ حالت میں پبلک مقامات پر آنا جرم ہے۔ کیا وہاں اسلامی نظام رائج ہے کہ وہ آپ کو برہنگی پر پکڑتے ہیں۔ نہیں یہ آداب کے خلاف ہے۔ اس سے مجموعی اخلاقیات متاثر ہوتی ہیں۔ اسی طرح کئی ممالک میں ساحل سمندر پر کچھ مقامات مختص ہوتے ہیں جہاں آپ برہنہ حالت میں آرام کر سکتے ہیں۔ سوال ہے کہ اس برہنگی کے لئے کچھ مقامات ہی کیوں مختص ہیں ایسی آزادی ہر جگہ کیوں نہیں۔ اس لئے کہ جنس اور جنسی ضروریات، زندگی اور معاشرے کا ایک پہلو ہے اور بس۔ ساری معاشرت، مباشرت پر نہیں کھڑی۔

ماہواری پر پوسٹر ہیں کہ ہم شرمندہ نہیں، کمال ہو گیا ساری زندگی میں کبھی ایک بار بھی یہ طعنے دیتے کسی کو نہیں سنا کہ وہ لڑکی بری ہے کیونکہ اس کو ماہواری آتی ہے۔ خواتین عام طور پر اپنے جسمانی معاملات کے حوالے سے حساس ہوتی ہیں مثلاً کھانا کھاتے وقت چپڑ چپڑ کی آوازیں مردوں سے آئیں تو بھی برا لگتا ہے، عورتوں سے کبھی یہ شڑپ شڑپ کی آواز نہیں سنی کہ وہ اس کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ اسی طرح مرد بھی بہت حوالوں سے شرم کرتے ہیں مثلاً اگر اسے لوز موشن یا دست لگے ہوں تو وہ تفصیل صرف ڈاکٹر کو بتائے گا یا زیادہ سے زیادہ قریبی دوستوں کو، اسی بیماری کے حوالے سے خواتین اور بھی زیادہ محتاط رہیں گی۔

تو پھر ماہواری کا آنا یا دیر سے آنا وغیرہ معاشرے کا مسئلہ کیسے بن گیا۔ اگر کوئی ایک لڑکی ایسا محسوس کرتی ہے کہ اس کی ماہواری کا آنا، کسی خاص ہمدردی کا تقاضا کرتا ہے تو بتا دے میں تو سمجھنے سے قاصر ہوں۔ ایک پوسٹر تھا ”dickpics“ اس گالی نما شکوہ کا جواب ایف آئی اے کے پاس موجود ہے۔ جس خاتون کی اتنی ہمت ہے کہ وہ ان الفاظ کو لکھ کر سڑک پہ کھڑی ہو سکتی ہے اسے ایف آئی اے کے پاس جا کر شکایت کرنے سے کس نے روکا ہے۔ قانون موجود ہے سائیبر کرائم والے موجود ہیں اور یہاں وہ کام بھی کرتے ہیں۔ ایک پوسٹر پر گالی کے انداز میں انگلی اٹھائی ہے اور لکھا ہے ”ہمارا وقت آگیا“ اس کا مطلب بھی سمجھنے سے قاصر ہوں۔ دوسرے کو گالی دے کر آپ عزت کمانا چاہتی ہیں۔

”میری شرٹ نہیں تمہاری سوچ چھوٹی ہے“۔ مطلب یہ کہ میں چھوٹی شرٹ پہنوں جس سے میرا جسم نظر آئے تو تم مجھے نہ ہی دیکھو نہ ہی روکو۔ میں جو جی چاہے کروں دوسرے کچھ نہ کریں نہ دیکھیں۔ یہ دلیل اپنے اندر تضاد لئے ہوئے ہے۔ منفرد بننا، سب کی نظروں میں آنا وغیرہ سب فطری خواہشات ہیں اور ایسا سب چاہتے ہیں اسی کے لئے دوڑ ہے، کوئی فنکار بنتا ہے کوئی بینکار، کوئی کسی رستے پر کوئی کسی پر، سب سے آسان اور پست راستہ غیر معمولی کپڑے ہیں۔ یہاں معمول سے مراد وہ ہو گی جو اس معاشرے کا معمول ہو گا، ہمارے معاشرے میں معمول اور ہے مغرب میں اور، میں سویڈن میں دھوتی کرتا پہنوں، یہاں تک تو ٹھیک ہے، لیکن سب سے لڑنے کھڑا بھی ہو جاؤں کہ مجھے کیوں دیکھتے ہو تو پاگل کون ہے؟ سویڈن کے لوگ یا میں۔

ایک پوسٹر تھا ”ناچ میری بلبل تجھے کوئی کچھ نہیں کہے گا“ کمال ہے یہ دلیل تو تھانیدار کی بڑھک لگتی ہے، ناچنے کی آزادی مانگ رہی ہیں آپ، تو ناچیں کون روک رہا ہے۔ کس جگہ ناچنے کی اجازت درکار ہے آپ کو۔ سڑکوں پر، مارکیٹ میں، دفتر میں؟ تو ازراہ کرم یہ بھی بتا دیں کہ کون سا معاشرہ ہے جہاں ان جگہوں پر ناچنے کی حوصلہ افزائی ہو تی ہے۔ ہاں کلب ہوتے ہیں ڈسکو بھی، یہاں وہ نہیں ہے تو اس کا مطالبہ کریں یہ کیا بات ہے کہ ناچ میری بلبل، ایسا ہی کوئی مرد کیے تو غیر اخلاقی بات ہے۔

آزادی دو طرفہ معاملہ ہے ایک طرفہ نہیں۔ مغرب میں رومانوی یا جنسی تعلقات کے لئے ایک ٹرم استعمال ہوتی ہے، casual یاexclusive، مطلب کہ آپ کے کسی لڑکی سے جنسی تعلقات تو ہیں لیکن اگر یہ casual ہیں تو آپ سے جنسی تعلق کا مطلب یہ نہیں کہ کسی اور سے یہ تعلق نہیں ہو گا۔ دوسروں سے بھی ہو گا۔ اگر یہ exclusive ہو گا تو اس کامطلب یہ کہ آپ صرف اس ایک سے ہی جنسی تعلقات رکھیں گے۔ یہ دونوں جانب سے طے ہو گا۔ منافقت نہیں ہو گی۔ یعنی آزادی دو طرفہ ہوتی ہے۔ یہ عجیب نسوانی آزادی ہے کہ، میرا جسم میری مرضی لیکن بوائے فرینڈ یا شوہر کا جسم صرف ایک ہی بیوی کے لئے، یا ایک ہی گرل فرینڈ کے لئے۔ اپنے جسم کی آزادی چائیے اور اسی سانس میں ایک سے زیادہ افئیر تو چھوڑیں شادی تک کو بھی گالی دینا ہے۔

ایسی دلیلیں دے کر اپنے مخالف کو ہی مضبوط کیا جاتا ہے اور ہوا بھی یہ ہی ہے، ملا بھائی کیمپ خوشی سے بھرپور کیمپئین چلا رہا ہے کہ دیکھو ہم نہ کہتے تھے، آزاد خیالی صرف اور صرف جنسیات کو عام کرنے کا مطالبہ ہے۔ یہ کھلم کھلا مادر پدر آزادی مانگتے ہیں، منشیات اور جنس۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3