خواتین کا عالمی دن اور ایک مجرم قرار پایا مرد


لاہور کے ایک معروف ادارے کے سپیشل ٹرنینگ پروگرام، انگریزی بول چال، میں پچاس کے قریب طالب علم تھے اور انگریزی میں باہمی گفتگو، تقریر اورخطاب کے فن کو سیکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ کلاس میں ہر عمر کے لوگ تھے، جن میں مرد و خواتین، نوجوان اور چند ایک ادھیڑ عمر علم کے پیاسے بھی شامل تھے۔ فراست نے کچھ ہی دن پہلے اس پروگرام کی شہرت سن کر اس میں داخلہ لیا تھا۔ اسے بتایا گیا تھا کہ یہ فورم، پڑھے لکھے، برداشت کرنیوالے اور سلجھے ہوئے لوگوں کا اکٹھ ہے سو یہاں سیکھنے کو اور اپنے آپ کو بہتر بنانے کے لئے بہت کچھ ہے۔

فراست کو ادارے میں داخلے کے کچھ ہی دن بعد یہ یقین آنے لگا کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں اس کی انگریزی زبان سیکھنے کی دیرینہ خوائش پر عمل ہو سکے گا۔ ایک مرتب شدہ کورس، نظم وضبط اور طے شدہ قاعدے کے تحت چلنے والے اس پروگرام میں ہر طالب علم، مرحلہ وار اس طرح سے مصروف کیا جاتا تھا کہ لوگوں کے سامنے بات کرنے کا خوف جو لوگوں کے لئے وبال جان ہوتا ہے، رفتہ، رفتہ کم ہوتا اور پھر یکسر ختم ہوجاتا۔ مقررہ کلاس کے بعد طالب علم خود کو پہلے سے با اعتماد محسوس کرتے، اور خود پر ہنستے کہ جس بلا کا نام، انھوں نے خوف رکھا تھا وہ تو محض وہم تھا۔

فی البدیہہ تقریر و خطاب کی اس قدر مشق کروائی جاتی کہ ہر ایک پر اپنی شخصیت کے ہنر اور جوہر کھلتے۔ باری، باری سب کو، قائدانہ کردار دیے جاتے اور یوں فیصلہ سازی کی بھی مشق کرائی جاتی۔ فراست کو اس شفا خانے میں جاتے ہوئے کچھ ہی ہفتے ہوئے تھے۔ فراست کا ابھی سب طالب علموں سے پوری طرح تعارف بھی نہ ہو اتھا کہ ایک عجیب واقعہ ہوگیا، جو اس کی ذات پر نہ صرف یہ کہ انمٹ نقوش چھوڑ گیا بلکہ کئی روز وہ انسانی سوچ کی، بلندیوں اور پستیوں کی گتھیا ں سلجھانے میں لگا رہا۔

ایک دن رات کا کھانا کھاتے ہوئے اسے، اس ادارے کے ایک نمائندے کا فون آیا اور اسے بتایا گیا کہ کلاس کی ایک خاتون کی طرف سے اس کے خلاف ایک شکایت کی گئی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ فراست نے مبینہ خاتو ن کو ایک نا مناسب لفط کاپیغام اپنے موبائل سے بھیجا ہے، لہذا اس کی وضاحت کرو اور نتائج کے لئے تیار رہو۔ فراست یہ سنکر چکرا گیا۔ اس نے ان سے چند ساعتوں کی مہلت مانگی اور دوبارہ فون کرنے کا کہا۔ فوری طور پر اپنا موبائل فون دیکھا تو سٹپٹا گیا کہ واقعی مذکورہ خاتون کو اس کے فون سے ایک پیغام گیا ہوا تھا، جو بلاشبہ بد تہذیبی کے زمرے میں آتا تھا۔

مگر اس کے سامنے سوال دوسرا تھا کہ یہ کیسے اور کب ہوا تھا؟ وہ، ذہن پر بے پناہ بوجھ ڈالنے کے باوجود بھی نہ جان سکا۔ اس نے، ادارے کے نمائندہ افسر کو کال ملائی اور کہا کہ یہ درست ہے کہ میرے موبائل میں یہ پیغام موجود ہے مگر شاید یہ بے خیالی یا عدم توجہی سے ا ن کو گیا ہے اور اس کے پیچھے ان کا دل دکھانا، تضحیک کرنا یا کوئی اور مقاصد نہیں ہیں۔ مجھ سے غلطی ہوئی ہے ورنہ میرا تو ان سے ابھی براہ راست تعارف بھی نہیں ہوا۔ نہ ہی وہ مجھے جانتی ہیں اور نہ میں انکو۔ مزید یہ کہ فراست نے یہ بات واقعی ہی دل کی اتھاہ گہرائیوں سے کہی تھی۔ اسے شدت سے اس بات کا احساس تھا کہ بلاوجہ خاتو ن کو تکلیف ہوئی اور صدمہ پہنچا ہے۔ افسر بولا کہ فراست انھیں فوری طور پر فون کرکے معذرت کرو اور اگلی کلاس کے بعد ایک انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر اپنا موقف پیش کرو۔ اور ذہنی طور پر تیار رہو کہ اگر کمیٹی تمہارے جواب سے مطمئن نہ ہوئی تو تم کلاس سے نکال دیے جاؤ گے۔

فراست سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ خواتین کو پریشان کرنیوالی خبروں کے بے تحاشا اخباری تراشے، میڈیا کی رپورٹس اور ملک میں اس ضمن میں کی گئی سخت قانون سازی، حال ہی میں ہونیوالی اس نوعیت کے معاملات پر عدالتی سزائیں، سب اس کی آنکھوں کے سامنے ایک دم آتے چلے گئے۔ زیادہ رنج اس بات کا تھا کہ اس سے زندگی بھر ایسی کوئی حرکت سرزد نہ ہوئی تھی جس میں شکایت کنندہ کوئی خاتون ہو۔ اس نے کلاس کے واٹس گروپ میں شامل متعلقہ خاتون کو کال کی، دوسری طرف سے فون اٹھایا بھی گیا مگر بارہا کوشش کے باوجود بات نہ ہوسکی۔

فراست کی پریشانی اور بے چینی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اپنے کردار، رویے اور عزت نفس پر اٹھنے والے اس اچانک سوال نے اس کے دماغ میں آندھیاں چلادیں۔ اپنے ہم جماعت طلبا اور اساتذہ کی استفہامیہ نگاہیں، خیال ہی خیال میں اس پر انگارے برساتی رہیں۔ اور کچھ نہ بن پڑا تواس نے خاتون کوایک تحریری پیغام پر معافی کی درخواست کی اور اپنی غلطی پر پشیمانی کا اظہار کیا۔ اپنے تئیں اس امر کی بھی وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ ہمارے درمیان لیکچر سے متعلقہ بات ایک ہفتہ پہلے ہوئی تھی جبکہ جو پیغام غلطی سے ان کو گیا وہ پانچ دن کے بعد گیا۔ لہذا دونوں طرح کی باتوں میں کوئی ربط نہیں ہے۔ ازرہ کرم اس کو نظر انداز کردیا جائے۔ مگر ان کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ شاید دو گھنٹے گزرے ہوں گے، فراست کو کچھ یاد آیا تو وہ چونک اٹھا اور ایک اطمینان کی کیفیت اس پر چھا گئی۔ اسے یاد آیا کہ، انھیں موصول ہونیوالے لفظ، کا تعلق، دراصل فراست کے روزمرہ کام، یعنی، پروف ریڈنگ سے ہے۔ اسے یہ بھی یاد آیا کہ اس نے یہ پیغام، اپنے دفتر میں موجود ایک مضمون کے لکھاری کو بھیجا تھا تاکہ وہ اپنے مضمون میں تصیح کر لیں، مگر غلطی سے یہ ان خاتون کو چلا گیا۔

فراست کے اندر سے احساس جرم کچھ کم ہو گیا اور یوں جس بات کا کوئی سراغ نہ مل رہا تھا اس کا پس منظر یاد آتے ہی اس نے یہ سب تصویری ثبوتوں کے ساتھ ادارے کے نمائندہ افسر کو بھی بھیج دیا۔ گو فراست اب بہتر محسوس کر رہا تھا مگر وہ رات اس پر بڑی بھاری رہی۔ اس خوف سے کہ وہ اس پروگرام سے نکال دیا جائے گا اور اس قدر سرگرم سوشل میڈیا کے ہوتے ہوئے، اس واقعے کی گونج اسے کہیں کا نہ چھوڑے گی۔ ساتھ ہی ساتھ اسے افسوس تھا کہ خاتون کو ہزیمت اٹھانی پڑی ہوگی۔

دو دن بعد کلاس تھی۔ بے دلی سے سارا لیکچر گزر گیا۔ اور وہ وقت آن پہنچا کہ جب دونوں فریقین کو کمیٹی کے سامنے پیش ہونا تھا۔ کمیٹی کے سات ارکان تھے۔ پہلے فراست کو اپنی پوزیشن پربولنے اور وضاحت دینے کا کہا گیا۔ فراست بولا، کہ میں اس غلطی پر شرمندہ ہوں اور یہ غیر ارادی اور غیر شعوری حرکت جس سے آپ کو تکلیف پہنچی ہے اس پر غیر مشروط معافی چاہتا ہوں۔ کمیٹی کے ارکان نے فراست کی وضاحت سنی اور پھر خاتون کو بولنے کا موقع دیا۔

وہ گویا ہوئیں کہ یہ وضاحت ان کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ اور وہ تسلیم نہیں کرتیں کہ کوئی اپنے موبائل سے کسی کو بھی کوئی پیغام بھیجے اور اسے پتہ نہ ہو۔ مزید یہ کہ کلاس میں ہونیوالی بحث سے متفق نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی کو زبانی یا کلامی طور پر ہراساں کرنا شروع کر دیں۔ یہ بات کافی عجیب اور تکلیف دہ تھی۔ وہ بحث کو نہ جانے کیوں ایک ایسی سمت میں لے جارہی تھیں، جس کا اس ساری صورتحال سے کوئی تعلق نہ تھا۔

فراست کو ان سے کسی قسم کا کوئی اختلاف نہ تھا، وہ اپنی سوچ اور خیالات کے انتخاب میں آزاد تھیں اور ان کی رائے کی اپنی اہمیت تھی، جیسے باقی ساتھ پڑھنے والوں کی۔ مگر وہ ان کی بات سے یہ سمجھا جیسے انھیں یہ گمان ہوکہ جو خیالات وہ مختلف موضوعات پر رکھتی ہیں، سننے والوں کو لازمی ان سے اختلاف ہوگا اور ان میں اتنی جرات نہ ہوگی کہ وہ ان سے بالمشافہ یا کلاس میں اختلاف کا اظہار نہیں کریں گے، بلکہ ان کو ذاتی طور پر موبائل پر پیغامات بھیج کر بحث کی بدترین صورت کاراستہ اپنائیں گے۔

ان کی ناراضگی توکسی حد تک درست تھی، مگر اس سے سچ تبدیل تو نہیں ہو سکتا تھا اور وہ پوری ایمانداری سے صورتحال کو واضح کر چکا تھا۔ مگر، خاتون کاموقف شاید زیادہ بڑی حقیقت ہوتا ہے۔ ان کی بات مکمل ہوئی تو کچھ ارکان نے آزادی رائے کی افادیت پرروشنی ڈالی اور کھلے دل سے دوسروں کے خیالات کو ہضم کرنے کی تاکید کی۔ کوئی ماضی میں ہونیوالے اس سے ملتے جلتے واقعات کو بنیاد بناکر، اپنے تئیں ہوشمندی کا سقراط بن رہا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ دودھ کا جلا، چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، مگر ہر دفع پینے کے لئے چھاچھ نہیں ہوتی۔

ایک معزز رکن بولے، سب سے آخری بھیجا ہوا پیغام موبائل میں سب سے اوپر ہوتا ہے، فراست آپ کیسے کہتے ہیں کہ آپ کو پتہ ہی نہ چلا کہ ایک غیر مناسب اور غیر مہذب پیغام موبائل سے چلا گیا اور آپ نے دیکھا ہی نہ ہو؟ اس کا جواب فراست نے یوں دیا کہ چونکہ نئے آنے والے پیغامات، اس کے اوپر آتے گئے لہذا مجھے واقعی ہی پتہ نہ چلا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پہلی بار اس ادارے کے نمائندے نے ہی میری توجہ اس طرف مبذول کروائی۔

کمیٹی کے ارکان جانے اس بات سے مطمئن تھے یا نہیں مگر خاتون، اس بات کو تسلیم کرنے سے بھی عاری رہیں اور کہنے لگیں یہ ممکن نہیں اور فہم سے بالاتر ہے۔ ستم ظریفی کا یہ عالم تھا کہ ان کی بات کو کافی حد تک درست سمجھا جا رہا تھا اور زندگی میں پہلی بار مرد ہونے کا نقصان محض اس دن اٹھایا اور باقاعدہ طور پر صنفی امتیاز کا اصل مطلب سمجھ میں آگیا۔ جانے ایسے تنازعات میں مرد کی وضاحت کو اتنا کمزور کیوں سمجھا جاتا ہے؟

یہ کیوں فرض کرلیا جاتا ہے کہ اگر شکایت کنندہ خاتون ہے تو لامحالہ وہی درست ہے۔ اپنی سی کوشش کرکے ایک بار پھر اس نے یہ وضاحت کی کہ یہ موبائل پیغام محض ایک اتفاقیہ غلطی کا شاخسانہ ہے اور کچھ بھی نہیں۔ مجھے انکوائری کا قواعدو ضوابط کی روشنی میں کیا گیا فیصلہ منظور ہوگا۔ انکوائری میٹنگ ختم ہوئی، فیصلہ کچھ دن بعد آنا قرار پایا۔

شرمندہ، دل گرفتہ اور فکرمند فراست کمرے سے باہر نکل آیا۔ اب وہ گھر کی طرف چلتا جاتا تھا اور سوچتا جاتا تھا۔ معزز خاتون کے پاس ایسی کون سی دلیل ہے کہ جس کی روشنی میں انھیں یہ لگا کہ وہ ایک لفظ پر مبنی پیغام، جس کے نہ آگے کچھ تھا اور نہ پیچھے، ضرور ان کے کسی عمل یا کسی موضوع پر رائے کا ردعمل تھا۔ خاص طور پر جب ان سے کبھی براہ راست ملاقات نہ ہوئی ہو، کوئی بات نہ ہوئی ہو، میری کسی بات سے انھوں نے اختلاف نہ کیا تھا اور میں نے کسی بحث میں انھیں زچ نہ کیا تھا۔

فراست موصوفہ کی دل آزاری کا مرتکب ضرور ہوا مگر یہ ارادی فعل نہ تھا۔ اسی لئے معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہی اس کے فوری معافی مانگ لینے کا عمل اس بات کا غماز تھا کہ انھیں مزید تکلیف نہ پہنچے۔ خیر وہ رات اور کئی دن گزرنے کے بعد نمائندہ افسر سے دوبارہ اس کی بات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ کمیٹی نے فیصلہ کردیا ہے۔ چونکہ آپ معافی مانگ چکے ہیں اور غلطی بھی تسلیم کرچکے ہیں لہذا آپ اپنی کلاس میں آتے رہیں۔ مگر، ایک ماہ تک کلاس میں ہونیوالے مباحثوں میں آپ کو حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔

گو کہ فراست کی رجسٹریشن کو ختم نہیں کیا گیا تھا، مگر، اسے ایک مجرم قرار د ے دیا گیا تھا۔ جس ادارے کا رخ اس نے اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر قابو پانے کے لئے کیا تھا۔ وہاں اسے اب اپنے کردار، شائستگی، تہذیب، شرافت اور وقار بھی کو ثابت کرنا تھا۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اس سے بہتر فیصلہ کہاں ہو سکتا تھا۔
ہماری جان پر دہرا عذاب ہے محسن۔ کہ دیکھنا ہی نہیں، ہم کو سوچنا بھی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).