سائنس سے بیزاری کیوں


پرویز ہود بھائی کی فکری حیثیت کو کسی تعارف کی ضرورت نہیں، سائنسی انداز فکر کے فروغ کے لئے ان کے کام کو نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ مانا بھی جاتا ہے۔ گزشتہ برس ان کے تحریر کردہ ایک مضمون کوپڑھنے کا تجربہ ہوا، جو سائنس میں طلبہ کی عدم دلچسپی کے پیچھے مخفی بہت سی وجوہات کو اجاگر کرنے کی ایک موثر کوشش تھی۔ ان کے تحقیقی کام کو تنقیدی مرحلے سے گزارے بغیر بھی مستند تصور کیا جا سکتا ہے۔ مگر ان کی استدلالی اور حقیقت پسندی پہ مبنی تحریر نے مجھے بھی مائل کیا کہ میں بطور قاری کوئی تبصرہ کروں۔

ساتھ ہی ساتھ پرائیمری اور ایلیمنٹری جماعتوں سے اپنی تدریسی وابستگی کے تجربات کی روشنی میں کچھ پہلووں کی نشاندہی کروں جو اس عدم رحجان میں باقاعدہ کردار ادا کرتے ہیں۔ سائنس اور سماج کے درمیان باہمی تعلق کو جب بھی زیر بحث لایا جائے گا یا کوئی بھی سائنسی و سماجی دریافت ہو گی تو یقینا پرویز ہود بھائی جیسی شخصیات کے حوالے کے بغیر وہ نصاب نامکمل ہی رہے گا۔

ابتدائی جماعتوں پڑھائے جانے والے تمام مضامین کے لئے اختیار کیا جانے والا طریقہ تدریس ہماری غیر فعال تعلیمی منصوبہ بندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نصاب سازی سے لے کے تدریس تک، بچے کی حقیقی تعلیمی ضرورت کو مدنظر نہیں رکھا جاتا ہے۔ ایک تخیلاتی مقصدیت کے تحت ترتیب دی جانے والی کتب تعلیم کی رسم تو ادا کر دیتی ہیں، مگر ان کے اندر فکری اور استدلالی تحریک پیدا نہیں کرتی ہیں۔ جیسے ہی تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے مختلف اشاعتی کمپنیاں نجی اداروں کی مارکیٹ کا رخ کرتی ہیں۔

جو کمپنی فروخت کے بہتر گر جانتی ہے، وہ زیادہ کامیاب رہتی ہے۔ کچھ بڑے بڑے برانڈز بھی اس لحاظ سے اپنے کاروبار کو بنائے ہوئے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود طلبہ میں وہ مثبت تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتی جو سائنس کا مطالبہ ہے۔ ان تمام کتابوں میں موجود مواد معلومات تو فراہم کر رہا ہے اور لگ بھگ ایک جیسی ہی معلومات کچھ الفاظ اور گرافکس میں فرق کے ساتھ موجودہوتی ہیں۔ سائنسی حقائق کو تو نقل کرنا کوئی بڑا کارنامی نہیں ہے، مگر وہ وجوہا ت ہمارے منصوبہ ساز ادارے نہیں کھوجتے ہیں کہ جن کے سبب سائنسی انداز فکر اور سائنس میں دلچسپی جیسے اہداف کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے یہاں تعلیمی نطام سے رنگ برنگ تصورات برآمد ہوتے ہیں، مختلف اسناد کے بعد کئی لوگ اعلی منصب تک پہنچ جاتے ہیں۔ مگر وہ تعداد انتہائی قلیل ہے جو مطلوبہ ستعداد کار بھی رکھتی ہے۔

تعلیم بحثیت مجموعی ایک رسم ہے، بالکل اسی طرح کہ جیسے ہم دیگر کئی رسوم ادا کرتے ہیں، مگر ان کو انجام دینے کے لئے ہمارے پاس منطقی حوالے نہیں ہوتے۔ ہمارا اکثریتی مقصد اور زبان زد عام نعرہ یہ ہے کہ تعلیم حاصل کرو تا کہ بڑے آدمی بن جاؤ۔ اب یہاں بڑے آدمی سے مراد وہ عہدہ ہے جو اسے نمایاں کرتا ہے، رعب اور دبدبہ جس مرتبے سے قائم ہو وہی منصب بڑا خیال کیا جاتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت کم بچے ’شعبہ تدریس ”کی طرف آنا چاہتے ہیں۔

ایک شعبے سے وابستہ ہونے کی وجہ سے مجھے ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی ہے ورنہ یہ تعداد اتنی کم ہے کہ صفر کے برابر ہے۔ اس کا لازمی مطلب یہی ہے کہ ہمارا تحقیقی میدان بالکل خالی ہے، بالکل اس وسیع و عریض خلا کی طرح کہ جس میں چمکتے چھوٹے بڑے ستاروں کے بارے میں ابھی بھی ہماری اکثریت بس اتنا ہی جانتی ہے کہ یہ سب آسمان یعنی چھت سے جڑے ہیں۔ ہمارے یہاں کمرہ جماعت میں سوال کرنے کا کلچر کبھی رائج نہیں ہو سکا اور نہ نصاب ساز لوگ اس طرف اپنے دھیان کو بھٹکنے دیتے ہیں۔ سوال سے گرہ کھلتی ہے، ایک نیا باب کھلتا ہے جو آگہی کی منزل کی طرف آپ کو لے کے جاتا ہے۔ مگر ہم ابھی تک اسی روایتی کمرہ جماعت سے منسلک ہیں جو یورپ کے عہد تاریک میں بنا تھا بلکہ شاید اس سے بھی قبل۔ کیونکہ ہماری بربریت کی صفت میں ماقبل تاریخ کی جھلک دکھاتی ہے۔

ہمارے ہاں حافظے اور یاداشت کو ”سیکھنا“ کہتے ہیں، جسے جتنا زیادہ یاد ہو گا۔ وہ اتنے نمبر لے گا اور آخر میں اسے ہی کامیاب مانا جائے گا۔ ہمارا نظام تعلیم اس ذہین بچے کو کھو دیتا ہے کہ جو زباندانی کی رکاوٹ عبور نہیں کر سکا مگر اس کی فکر اعلی ہے۔ جب تعلیم کو بطور رسم پورا کیا جائے گا تو اس وقت تک ہم سائنس کی طرف بچوں کی بیزاری پہ بات کرتے رہیں گے۔ تعلیم کو معمول سے ہٹ کے لیا جانا چاہیے، جبکہ اس کے لئے نصاب میں بھی ممکنہ تمام مراعات شامل ہوں۔

زبان سے متعلق ایک قومی بیانیہ سامنے آنا چاہیے تا کہ ابتدائی جماعتوں مختلف زبانوں کے امتحان سے طلبہ کو بچایا جا سکے۔ 10 سے 12 سال کے بچے کے لئے قدرت اور کائینات جیسے موضوعات کو کھلا رکھنا چاہیے، اسے مشاہدات کی مشق کی طرف لانا چاہیے، بستے کا بوجھ کم کر کے، مشاہداتی ریکارڈ مرتب کرنا چاہیے۔ سوال پہ انعام رکھنا ہو گا، بجائے اس کے کہ ہم مقابلے کروا کے پوزیشنز کی پیچیدگیوں میں طلبہ کو الجھا دیں۔ پودے کی ساخت کے بارے میں معلومات رٹوانے کی بجائے، انہیں مائل کیا جائے کہ وہ مشاہدہ کریں کہ پودے کی نشوونما میں کون سے عوامل کارفرما ہیں، پودے کے ممکنہ حصے وہ خود پہچانیں۔

اس طرح ان کا اپنا جسم کیسے اپنی ضروریارت پوری کرتا ہے، ہم کس طرح ہرکت کرتے ہیں۔ اس طرح بتدریج افزائیش نسل سے متعلق جانکاری دی جانی چاہیے۔ ہمارے اکثریتی طلبہ ان ممنوعات کو اتنے مخفی طریقے سے سیکھتے ہیں کہ اگر ان کا برملا اظہار کیا جائے تو سب کے سب لوگ کہیں گے کہ اس طرح جاننا تو ہمیں اچھا نہیں لگا۔ اگر چہ تمام بچے انہی ناپسندیدہ حرکات کے ذریعے ہی جانتے ہیں کیونکہ آپ نے درست طریقے پہ خود ہی پابندی لگا رکھی ہے۔

نصاب تعلیم کو جب تک ہم روز مرہ زندگی سے نہیں جوڑینگے تب تک ہم جیسے معاشروں میں تعلیم کے مسائل حل پزیر ہی رہیں گے۔ ہم یہ تو یاد کرا دیتے ہیں کہ تمام چیزیں مادے سے بنی ہیں لیکن روزہ مرہ زندگی سے مثالوں کے ذریعے ہم طلبہ کو سیکھنے پہ آمادہ نہیں کرتے کہ مادہ ہے کیا؟ مادے کی حالتوں کے بارے میں انہین یاد کرادیا جاتا ہے، لیکن یہ سیکھنا مشکل کر دیا جاتا ہے کہ وہ ان حالتوں کے ایک دوسرے میں تبادلے کو جان سکتے۔ اس کا ثبوت یہ ہے جماعت میں وہی بچے مادے کی حالتوں اور تبادلے کا بتائیں گے جو اچھے حافط ہیں، جبکہ باقی خاموش رہیں گے یا غیر متعلق جواب دیں گے۔

یہ بدقسمتی ہے کہ ابھی تک نصاب اور تدریسی استعداد کو ان خطوط پہ بہتر نہیں کیا جا رہا کہ جو حقیقی مقصدیت کی طرف ہمیں لے جا سکیں۔ ابھی ہم اسی گاڑی کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں کہ جس کا انجن اپنی عمر پوری کر چکا ہے۔ یہاں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی سائنسی انداز فکر سے ہم محروم رہتے ہیں۔ سائنس میں بھی ہم وہی گھسی پٹی منطق کے تحت فطری قوانین کی تشریح کرتے ہیں اور جوابات تلاش کیے جاتے ہیں۔ سائنس کے مضامین پڑھنے کے بعد اور اس مضمون میں امتیازی مقام حاصل کرنے کے بعد بھی ہمارے ہاں ہود بھائی جیسے لوگ کتنے ہیں ہاں مگر پروفائل میں ان سے کئی بہتر شمار ہوں گے۔

ہماری المیاتی صورتحال کا جائیزہ اس وقت مکمل ہوتا ہے، جب ہم دیگر اقوام کی سائنسی ترقی کی خدمات سے فائدہ لیتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ ان کو کوستے بھی ہیں۔ ہمارے یہاں پاکدامنی پہ فخر ہوتا ہے جبکہ باقی دنیا سب کی سب بدچلن ہو جاتی ہے۔

ہمیں اس میں عار محسوس ہوتی ہے کہ ہم انہیں اپنا محسن مانیں کہ جن کی بدولت انجینیرنگ، طب اور دوسرے شعبہ ہائے جات میں ہمیں کئی سہولیات حاصل ہوئی ہیں۔ ان کے متوازی ترقی کی سمت میں بڑھنے کے لئے ہمیں اپنے تعلیمی نطام کی کانٹ چھانٹ کرنا ہو گی۔ ہمیں من جان لینا چاہیے کہ نقص ہمارے منصوبہ ساز ادروں میں ہے یا پھر کسی آسیب کا سایہ ہے کہ ہماری نسلیں لاعلمی اور غیر یقینی کی دلدل میں دھنستی جا رہی ہیں۔ جب ہم زیادہ گہرائی میں جائیزہ لیں گے تو زیادہ ٹھوس نتائج سامنے آئین گے۔ پھر یہ جاننا بھی اسان ہو گا کہ تاریخ سے تاریکی کو کیسے خارج کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).