ننگر پارکر میں جنگ کی کہانیاں


محبت اور نفرت میں بظاہر اتنا فرق تو نہیں، ایک نقطے کا ہی تو فرق ہے تین اور چار، اور وہ فرق جنگ ہے کیونکہ جنگ میں دو نقطے ہوتے ہیں تین یا چار نہیں۔ جنگ نفرت میں جائز ہے یا نہیں، پر محبت میں جائز سمجھی جاتی رہی ہے، بدقسمتی سے پاکستان اور ہندستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد بہت سے ایسے جنونی پائے گئے ہیں جو ”جنگ کے شوقین“ لگتے ہیں، لیکن کیا یہ ان کی خوشقسمتی کہی جاسکتی ہے کہ وہ جنگ کی باتیں بتانے کے لیے زندہ ہی نہیں رہ پائیں گے، تو اب کیا سمجھا جائے کہ جنگ کے یہ شوقین جو ہندستان اور پاکستان کی سرحد کے دونوں اطراف سے جنگ کی صدائیں بلند کر رہے ہیں وہ ایک دوسرے سے محبت کی وجہ سے کر رہے ہیں یا نفرت کی وجہ سے؟

کیا ہمارے برصغیر کا اجتماعی شعور اس حد تک آ پہنچا ہے کہ ہم محبت کی باتیں کرنے لگے ہیں؟ محبت والی جنگ میں تو کوئی اصول نہیں ہوتا، کیا نفرت والی جنگ کے اصولوں کو بنانے کا تردد کیا جاسکتا ہے؟ میرے خیال میں جنگ تو خود ایک اصول ہے، وہ اپنے قواعد بشمول جائز اور ناجائز خود طے کرتی ہے۔ جنگ کی تاریخ خون سے بھری پڑی ہے، لیکن خون کی تاریخ بھی تو جنگ سے لکھی جاسکتی ہے۔ کیا بات بن گئی ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ جنگ خود ایک مسئلہ ہے، یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔

اور وہ کہیں کہ کئی مسئلے جنگ سے بھی تو حل ہوئے ہیں، انگریزوں کو آزادی کی جنگ کے بعد پتا چلنا شروع ہوگیا تھا کہ اب آگ بھڑک اٹھی ہے، یہاں رہنا مشکل ہے۔ کیا یہ بڑی بات نہیں! ۔ اور بھی تو تاریخ کے بڑے واقعات ہیں۔ سری لنکا میں کئی دہائیوں سے فورسز تامل باغیوں سی لڑتی رہیں، صلح کی باتیں بھی ہوئیں، لیکن کچھ نہ بن سکا، بلاآخر 2009 میں فورسز کے آپریشن میں تامل چیف کو قتل کردیا گیا تب جا کہ مسئلہ حل ہوا۔ یہ بڑا واقعہ نہیں چھوٹا واقعہ ہے۔

جنگ کے ان شوقینوں سے کوئی پوچھے تو سہی کہ جنگ چھوٹی یا بڑی تو نہیں ہوتی، جنگ کے اسباب چھوٹے یا بڑے نہیں ہوتے، جنگ تو بس جنگ ہوتی ہے، چھوٹا منہ اور بڑی بات تو ہوتی ہے پر چھوٹی بات اور بڑا منہ نہیں ہوتا، شاید آپ چھوٹی بات اور بڑے منہ والی بات کر رہے ہیں۔ تاریخ میں ایسا بھی ہوتا آیا ہے کہ بڑی سے بڑی بات پہ بھی جنگ لگتے لگتے نہ لگ سکی، اور کبھی کبھی تو اک معمولی سی بات پر ہی کئی انسان گاجر مولی کی طرح کاٹ دیے گئے، میرے حلقہ احباب میں ایک شخص ایسا بھی ہے، جس کو جنگ کا شوقین کہا جاسکتا ہے، وہ کتابیں تو پڑھتا ہے پر اس کو کتاب کے صفحوں پر الفاظ نہیں گولیاں نظر آتی ہیں، ”ہتھیاروں کی انسائیکلوپیڈیا“ بھی اس کے زیر مطالعہ رہتی ہے۔

ابھی کل ہی میں اس دانشور سے جنگ کے بارے میں مندرجہ بالا خیالات سن کر تھوڑا حیران ہوا لیکن بہت نہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ میں تمھیں یہاں کی ایک چھوٹی سی جنگ کا بتاؤں؟ اس نے ہاں کہا۔

میں نے کہا کہ ہم دور کیوں جائیں دنیا کی تاریخ میں اپنے آپ کو الجھانے کی ضرورت بھی نہیں، ننگرپارکر جہاں اپنے فطری حسن سے پر ہے، وہاں تاریخ کے گمشدہ اوراق بھی اس کے سینے میں دفن ہیں، مھاویر کے ذہن میں الجھتی ہوئی سوچوں کی بکھری مالا کی طرح ادھر اُدھر بکھرے ہوئے جین مذہب کے مندر ہوں یا پولن آستان، بھوڈیسر کا تلا ہو یا اس کے دامن میں گجرات کے حاکم محمود بیگڑہ کی اپنی ماں کی یاد میں بنائی گئی ایک چھوٹی سی مسجد، ہندؤوں کے مقدس مقامات، ساردھڑو اور گؤاستھان بھی یہاں ہیں، اور پتہ نہیں کئی جگہیں جن کی تاریخ دلچسپی سے بھری پڑی ہے۔

ان سب کے قریب ہی ایک شہر ویراوہ ہے، جو کبھی بندرگاہ بھی رہا ہے۔ یہاں ”سانگا“ نامی جھیل ہے، یہاں بھی ایک چھوٹی سی بات پہ ایک جنگ لگی تھی اور پوری کی پوری بارات کو قتل کردیا گیا تھا! ہوا یوں کہ ایک دن سانگا کے قریب سے برہمنوں کی بارات پارکر جارہی تھی، اس وقت ویراواہ میں ستوجی سوڈھو کا اثر رسوخ تھا، ان کے نذرانے میں باراتیوں کی طرف سے کچھ چاول بھیجے گئے، لیکن ستوجی نے اور زیادہ دینے کی مانگ کی، اور کہا کہ ان کے بدلے باجرہ لے جائیں، لیکن یہ بات باراتیوں کی طرف سے منظور نہ کی گئی اور وہ غصے میں آکر ساری کی ساری بارات کو قتل کرنے کے بعد سارے چاول اٹھا کر لے گیا۔

میرا دوست میری بات سننے کے بعد بہت حیران ہوا کہ صرف دو چار من چاول کے لیے ایک بارات کو قتل کر دیا گیا، میں نے کہا کہ دو چار من چاول تو بہت زیادہ ہیں، تین چار سو گرام والے تیتر پرندے کے لیے بھی جنگ کی جاسکتی ہے، اور کی گئی ہے۔ اب ذرا اس کے لہجے میں سنجیدگی آنے لگی اس کی آنکھیں تجسس سے بھر گئیں، وہ میرے طرف تو دیکھ رہا تھا لیکن اس کا ذہن تاریخ کے سفر میں تھا، یہ بہت پرانے وقت کی بات ہے جب راجپوتوں کے دو گروہوں میں سے ایک شکار کرنے جنگل میں گیا، اس نے پرندے کو گھائل کیا لیکن پرندہ زندہ بچ کر پرمار راجپوت کے اوتارے (اوطاق) میں آگرا، چاوڑی راجپوتوں نے وہ تیتر طلب کیا لیکن پرمار راجپوتوں سے جواب ملا کہ ہمارے دامن میں پناہ لینے والے کو دشمن کے حوالے نہیں کیا جاتا چاہے وہ کوئی پرند ہی کیوں نہ ہو، پھر کیا ہونا تھا، جنگ چھڑ گئی، پانچ چھ سو چاوڑے مارے گئے، اس کے بعد یہ محاورہ مشہور ہوا کہ ”چاہے پربت پھٹ پڑے، قطب ستارہ اپنی جگہ چھوڑ جائے، گرنار قلعہ زمین بوس ہوجائے لیکن پرمار راجپوت اپنے دشمن کو کبھی پیٹھ نہ دیں گے“

اب ان جنگوں کا سارا منظر اس کے سامنے دوڑ گیا، اس کی آنکھوں میں وہ اداسی آگئی جو سانگا کے کنارے والی بارات کی دلہن جیسی تھی، وہ ہلکی ہنسی مسکراتا رہا، میں سمجھ رہا تھا کہ وہ میری بات نہیں سمجھا لیکن وہ اس لیے ہنس رہا تھا کہ وہ حیران رہ گیا کہ چھوٹی بات پہ بھی کیا سے کیا ہوسکتا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے کہا کہ کیا جنگ ایسے بھی لگ سکتی ہے، میں نے کہا ہاں جنگ ایسے بھی لگ سکتی ہے۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).