مرد اور عورت کے درمیان دوستی میں بے جا خواپشات رکھنے کا ذمہ دار مرد قرار


ایک معاصر ویب سائیٹ میں مشہور لکھاری لالہ صحرائی صاحب کا ایک زبردست مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے مرد اور عورت کے درمیان دوستی کو ڈسکس کیا ہے۔ راقم یہاں اس مضمون کے کچھ اقتباسات کے ذریعہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے کہ مرد اور عورتوں کے درمیان دوستی میں زیادہ تر مرد یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ ان کی خاتون دوست ان سے رومانوی اور جنسی تعلق بھی رکھے حالانکہ اس کے مقابلہ میں بہت کم عورتوں کے ذہن میں ایسا کوئی خیال ہوتا ہے۔

ریمونڈ والٹر کالج (Raymond Walter College) کے ریسرچر ڈان اومائیرا کا کہنا ہے کہ جنسِ مخالف کے درمیان سچی دوستی کا تصور تو موجود ہے جس میں ایک دوسرے کے لئے پیار محبت، عزت و احترام اور ایک دوسرے کی مدد کرنا وغیرہ سب کچھ شامل ہے لیکن کسی وقت تنہائی میں قریب بیٹھنا یا عام روٹین میں فریقین کا گلے ملنا بھی کسی ایک کے دل میں جنسی کشش اور جنسی تعلق کی خواہش پیدا کر سکتا ہے۔ یہ خواہش اس دوستی کے بیچوں بیچ کہیں نہ کہیں گھومتی ضرور رہتی ہے جو کسی نازک وقت میں ایک تقاضے کے طور پہ سامنے آجاتی ہے۔ اس خواہش کو نظر انداز کرنا بھی فریقین کے لئے خاصا مشکل کام بن جاتا ہے۔

درج ذیل کچھ نتائج پر غور فرمائیں :۔

1) :۔ ریسرچرز کے مطابق 62 % لوگ اس تعلق کو قائم کر جاتے ہیں پھر ان 62 % لوگوں کا آدھا حصہ اس تعلق سے باہر بھی آجاتا ہے جبکہ باقی 50 % اس تعلق سے باہر نہیں نکل سکتے۔

2) :۔ جنس مخالف سے دوستی کو درست سمجھنے والے لوگ 83 % ہیں، 11 % اس کے حق میں نہیں اور 6 % کا ووٹ غیریقینی کے حق میں ہے۔

3) :۔ اس دوستی میں جنسی اور رومانوی تعلق ہو سکتا ہے یا نہیں اس سوال کے جواب میں 62 % کا جواب ہاں میں ہے، 36 % کا جواب نہ میں ہے اور 02 % کا جواب نیوٹرل ہے۔

4) :۔ اس رشتے میں جنسی تعلق کا محرک کون بنتا ہے، اس سوال کے جواب میں 64 % نے مرد کو ذمہ دار قرار دیا، 25 % نے عورت کو اور 11 % کا جواب نیوٹرل ہے۔

5) :۔ فریق ثانی کو جب پتا چلے کہ فریق اول اس سے محبت کرنے لگا ہے تو کیا فریق ثانی اس دوستی سے کنارہ کش ہو جائے گا، اس سوال کا جواب 71 % نے ہاں میں دیا ہے، 09 % نے نہ میں اور 20 % نیوٹرل ہیں۔

6) :۔ اس رشتے میں جنسی تعلق سے دور رہنے میں کون زیادہ باہمت ہے، خواتین 67 % اور مرد صرف 13 %۔

اس ریسرچ میں ایک بات بہت نمایاں طور پر سامنے آئی ہے کہ ہر ریسرچر نے جنسی تعلقات کا متقاضی صرف مرد کو ہی ٹھہرایا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ عورت کی فطری نرمی اور لگاؤ پر مبنی طبیعت کو دیکھ کر مرد ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ صنف نازک ان کی کشش میں مبتلا ہو گئی ہیں جبکہ یہ ایک کنفیوژن کے سوا کچھ بھی نہیں، مردوں کا ایسا سوچنا خواتین کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ ریسریچر نے یہ بھی کہا کہ جو خواتین کہیں آپ کا ہاتھ پکڑ لیں، آپ کے کسی لطیفے پر کھلکھلا کر ہنس پڑیں یا کسی بات پر آپ کے ہاتھ پر ہاتھ ماریں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ان کے اس عمل میں کوئی رومانوی یا جنسی تعلق قائم کرنے کی دعوت موجود ہے۔

ریسرچرز نے اور بھی کئی دلائل دیتے ہوئے نتیجہ دیا ہے کہ مرد و عورت کی دوستی آج کے دور میں ناممکن نہیں لہذا سوال یہ نہیں کہ جنس مخالف باہم دوست ہو سکتے ہیں یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ آیا یہ صرف اچھے دوست ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ ریسرچرز نے اس سوال کے جواب میں نتیجہ دیا ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان دوستی میں موجود کئی نفسیاتی تضادات کی موجودگی میں اس کا جواب ہے، نہیں۔ ریسرچ کے مطابق مرد اور عورت کے درمیان دوستی میں رومانوی اور جنسی تعلق قائم کرنے کی خواہش پیدا ہونا فطری ہے جس میں زیادہ تر مرد ذمہ دار ہوتا ہے۔

راقم مگر یہ سوچ رہا ہے کہ آج کل کے دور میں ہر جگہ مرد اور عورت ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ مخلوط تعلیم، مخلوط کیرئیر، موبائل فون اور انٹرنیٹ کمیونیکشن کی موجودگی میں ہم کیسے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ مرد اور عورت میں دوستی نہیں ہو سکتی۔ اگر دوستی ہو گی تو پھر اس میں جنسی اور رومانوی تعلق ہونے یا اس تعلق کے قائم ہونے کی خواہش رکھنے، پھر اس تعلق کی خواہش کو دوسرے فریق (زیادہ تر عورت) کی طرف سے مسترد ہونے یا کچھ عرصہ بعد منقطع ہونے یا کر لینے سے پیدا ہونے والے نفسیاتی اور معاشرتی مسائل سے نبردآزما ہونے کی کوئی منصوبہ بندی وجود نہیں رکھتی۔

یہ ایسی ہی صورتحال ہے جس میں وکالت کے طلبہ خدیجہ اور شاہ حسین شکار ہو جاتے ہیں جس کا انجام شاہ حسین کی طرف سے خدیجہ پر خنجر سے جان لیوا حملہ کی کوشش پر نکلتا ہے۔ اس ہائی فائی کیس کے علاوہ ہزاروں دوسرے واقعات پورے ملک میں موجود ہیں جس میں مرد اور عورت میں دوستی کے نتیجہ میں پنپنے والی محبت میں ناکامی پر کسی ایک فریق یا دونوں کی جان گئی یا شدید معاشرتی مسائل پیدا ہوئے۔

ہمیں اپنے معاشرہ میں بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی مخالف جنس کے بارے پائے جانے والے پرکشش جنسی تصورات کو حدود و قیود میں رکھنے کی تربیت دینے کی منصوبہ بندی کرنی ہو گی اور انہیں یہ سمجھانا ہوگا کہ فریق مخالف بھی ایک انسان ہے جو سوچنے سمجھنے اور پسند و ناپسند کرنے کا بنیادی حق رکھتا ہے۔ جس میں دوستی کو صرف دوستی کی حد تک رکھنے کا بنیادی حق بھی شامل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).