انڈین پائلٹ کی رہائی کے بعد وزیراعظم کا قوم سے تاریخی خطاب


پاکستان نے انڈین جنگی طیارہ کے ایک پائلٹ کو گرفتار کرنے کے بعد ’جذبہ خیر سگالی‘ کے تحت پائلٹ کو رہا کردیا۔ جس کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کا مثبت تشخص ابھر آیا۔ اس موقع پر وزیراعظم پاکستان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور خطے میں امن و امان کے قیام کے لئے مذاکرات کی دعوت دیدی۔ وزیراعظم کے قوم کے نام عزیز ہموطنوں اور برادران وطن کے خطاب میں واضح الفاظ میں کہا گیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملات میں جس طرح بگاڑ پیدا ہوا اور ایک جنگ کا خطرہ جس طرح سرپر منڈلانے لگا وہ کئی راز نہیں ہے۔

وزیراعظم پاکستان کے قوم کے نام کیے گئے خطاب سے چند اہم اقتباسات زیل میں پیش کیے جاتے ہیں تاکہ پاکستان کی مسئلہ کشمیر، خطے کے امن اور قومی ترجیحات واضح ہوسکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان ریت کا گھروندا یا دیوار نہیں ہے بلکہ ہر جارحیت کا مقابلہ کرنے اور منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جنگ مسلط کردی گئی تو ضرب حیدری حملہ آور کی مقدر ہوگی لیکن ہم جنگ کی تمنا نہیں کرتے ہیں اور اس کی دعا بھی نہیں مانگتے ہیں کیونکہ دو ایٹمی قوتوں میں فاتح کو تلاش نہیں کیا جاسکتا ہے۔

کشمیر کے معاملے میں میری سوچ صاف اور واضح ہے کہ اس کا حل پر امن ذرائع سے نکالنا ہوگا جنگ کسی بھی مسئلے کو حل تو نہیں کرسکتی البتہ بگاڑسکتی ہے۔ حالیہ چند اقدامات سے معلوم ہورہا تھا کہ طویل ترین جنگی ریکارڈ رکھنے والے دونوں ممالک ماضی کی تلخیوں کو دفن کرکے نئے تعلقات شروع کریں گے جس پر بین الاقوامی برادری بھی خوش ہوگئی تھی لیکن انتخابات اس مسئلے کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ آزادی کشمیر کے مجاہدین کی جدوجہد میں بڑی تیزی آئی ہے اور وہ پہاڑیوں تک جا پہنچے ہیں۔

ہم کوشش کرتے تو کشمیر کا مسئلہ پر امن طریقے سے حل ہوسکتا تھا لیکن بھارت نے مذاکرات سے قبل ہی گولے اگلنے شروع کردیا، جنگ کی آگ بھڑکادی اور پورے بھارت میں جنگی جنون پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس کے برعکس ہم نے ٹھنڈے دماغ سے کام لیا اور اپنی قوم کو کسی بھی قسم کے جذباتی ردعمل سے روکے رکھا جس پر اپنی پوری قوم کاشکرگزار بھیہوں۔

وزیراعظم پاکستان نے ان الزامات کو مسترد کردیا کہ پاکستان نے کسی کے پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے اور کہا کہ دو ایٹمی ممالک کے درمیان سازش یا جنگ کی خواہش وہی کرسکتا ہے جس نے اجتماعی خودکشی کرنے کا تہیہ کرلیا ہو جو کہ پاکستان کی خواہش یا کوشش نہیں ہے۔ بھارت نے اپنے بری افواج کا رخ پاکستان کی طرف کرکے خطے میں تناؤ پیدا کرنے کی کوشش کی اور جس انداز میں فضائی قوت کو استعمال کیا ہے وہ مکمل ایک جنگ کی سطح پر تھا۔ میں پاک افواج کو خراج تحسین پیش کرتاہوں کہ جنہوں نے اس اچانک خطرے سے نمٹنے کی تیاری حیرت انگیز مستعدی اور تیز رفتاری کے ساتھ کی۔

ہم نے عجلت پسندی اور جلد بازی سے فیصلہ کرنے کی بجائے ڈپلومیسی کو ایک بار پھر موقع دینا کا فیصلہ کیا ہے جو کہ میرے قوم کے مفاد میں ہے جس کے پیچھے تناؤ اور جنگوں کی ایک داستان ہے۔ جنگ کے بادل گہرے ہونے کے باوجود ہم نے انڈین حکومت کے ساتھ تعلقات یا رابطوں کو مکمل ختم نہیں کیا ہے۔ ہر طاقت اور قوت کو پاکستان اور پاکستان کی قوم کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ امریکہ کے صدر پر بھی واضح کردیا کہ کشمیریوں کی جدوجہد زیر زمین چلنے والے لاوے کی صورت ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔

کشمیر ی عوام کو حق خودارادیت نہ ملنے تک ایک کے بعد دوسرا لاوہ پھٹے گا ایک ایک کرکے ہم آتش فشاؤں کو ٹھنڈا نہیں کرسکتے ہیں۔ جس پر امریکی صدر نے کہا کہ دوطرفہ مذاکرات اور مسئلہ کشمیر کے حل کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور ذاتی دلچسپی بھی لوں گا۔ جس کے بعد واضح ہوگیا ہے کہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر کی نزاکت اور حساسیت کو مرکوز رکھتے ہوئے اس پر دلچسپی لے گی۔

وزیراعظم پاکستان نے میرے عزیز ہموطنوں کے خطاب سے اپنے قوم کو کہا کہ صحیح قیادت وہ ہوتی ہے جس کی نظر حکومت اور اقتدار پر نہیں ہوتی بلکہ وطن کی سلامتی اور قوم کی فلا ح و بہبود پر ہوتی ہے۔ وطن اور عوام کے تحفظ کے لئے اپنی مقبولیت اور اقتدار کو داؤ پر لگانا پڑے تو ایک لمحہ سوچے بنا کردوں گا۔ میں نے جو بھی فیصلہ کیا ہے وطن اور قوم کے مفاد کے تحفظ کی خاطر کیا ہے مجھے نہ اپنے اقتدار کی پرواہ ہے نہ ہی جذباتی نعروں سے لگن ہے۔ طاقت کے بل بوتے پر کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو کچلا نہیں جاسکتا ہے وہ جاری رہے گی۔ آزادی ان کا بنیادی حق ہے اور جب تک آزادی نہیں ملتی ہے پوری قوم کشمیریوں کے موقف کے تائید میں کھڑی رہے گی اور انہیں تنہا نہیں چھوڑے گی۔

پاکستان کو بلندی کی عظمتوں پر پہنچانا میرا خواب ہے اور اس خواب کی تکمیل کے لئے کبھی خوف نہیں کھاؤں گا اورنہ ہی کوئی مفاد عزیز ہوگا۔ ہم نے وہ دن بھی دیکھا ہے جب عالمی برادری نے ہمیں کہا کہ پاکستان کو اپنی اوقات میں رہنا پڑے گا لیکن ہم کسی دھمکی سے مرعوب نہیں ہوئے اور ہر لمحے کا جواب دیدیا۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ کشمیر کے مسئلہ کو حل نہیں کرپانے کی وجہ سے ہمارا کوئی بھی دن کشیدگی سے خالی نہیں جاتا ہے۔

بھارت کشمیر کے حوالے سے حقیقت سمجھنے کے لئے اور کتنے زندگیوں کے چراغ کو گل کرے گا۔ کب تک جوانوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟ کب تک خواتین پر ظلم و تشدد جاری رہے گا؟ عالمی رہنماؤں کو بھی سوچنا پڑے گا کہ کشمیر کے مسئلے کے حل میں اتنی تاخیر کیوں؟ اقوام متحدہ نے پچاس سال قبل قراردادیں پاس کیں، بھارت نے اب تک ان پر کتنا عملدرآمد کرایا ہے؟ ایک ہی بات پر اڑے رہنا معاملات کو احسن طریقے سے حل کرنے میں کبھی معاون ثابت نہیں ہوتا ہے۔ اس ایک ضد کی وجہ سے بھارت بھی ترقی کی دوڑ سے باہر ہورہا ہے۔

ہم کب تک اپنے عوام کے منہ سے نوالے چھین کر توپیں خریدتے رہیں گے؟ کب تک اپنے عوام کا مستقبل بیچ کر توپوں کے گولے بناتے رہیں گے؟ بھارت کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ طاقت کے بل بوتے پر تحریکوں کو دبایا نہیں جاسکتا ہے، خون بہہ جاتا ہے لیکن رنگ بھی لاتا ہے۔ بھارت کب تک دنیا کو یہ جھوٹ بولتا رہے گاکہ پاکستان کشمیر میں مداخلت کررہا ہے کوئی ملک سالوں تک کیسے اپنے بندے بیچ کر تخریب کرسکتا ہے؟

وزیراعظم پاکستان نے عوام کی جانب سے دیے گئے مینڈیٹ کو امن و امان اور قوم کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے قوم کے لئے دعا کی کہ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

اس کالم نما تقریر میں پاکستان کا وزیراعظم نواز شریف ہے۔ بھارت کا وزیراعظم واجپائی ہے اور امریکہ کا صدر بل کلنٹن ہے اور اس تقریر کا پس منظر کارگل کی جنگ ہے۔

پاکستان کا خطے میں امن و امان کے حوالے سے موقف دلائل پر مبنی ہے اور وزیراعظم نواز شریف ہو یا وزیراعظم عمران خان ہو اس موقف کو تسلسل اور مزید دلائل کے ساتھ آگے بڑھارہا ہے۔ طارق اسماعیل ساگر کی کارگل کرائس میں نواز شریف کی مکمل تقریر پڑھ کر ایک لمحے کو بھی ایسا نہیں لگا کہ یہ بیس سال پرانی تقریر ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے آج جن اقدامات کو اٹھایا ہے آج سے بیس سال قبل وزیراعظم نواز شریف نے بھی اٹھایا تھا۔ البتہ نواز شریف کی تقریر میں بعض مقامات پر ملک کے اندرونی سیاسی جماعتوں اور دھرنا باز پارٹیوں پر سخت تنقید بھی ملی جو جذباتی نعروں کو پروان چڑھاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).