جدید قحبہ خانے اور ایک معصوم لڑکی


جناب شورش کاشمیری کی کتاب ”اس بازار میں“ اوائلِ جوانی میں پڑھی تھی۔ اس کے بعد ایک انگریز مصنفہ کی لاہور کے بارے میں ایک کتاب نظر سے گزری جو کہ انہوں نے لاہور کے ریڈلائٹ ایریا میں رہ کر باقاعدہ تحقیقات کے بعد لکھی۔ کافی عرصہ سے پہلے اس موضوع پر لکھنے کا شوق ہوا کہ کیوں نہ اس دشت کے بارے میں کھوج لگایا جائے۔ تقریباً دس سال پہلے اس کے لئے باقاعدہ ہوم ورک شروع کیا۔ اس دوران اندرون ملک بڑے شہروں کا سفر اور مختلف زریعوں سے مواد اکٹھا کرنا جس کے لئے بہت سارا وقت اور بہت زیادہ پیسوں کا بھی زیاں ہوا۔

پھر کمپنی کے تعاون سے بہت سے بیرونی ممالک جن میں یورپ۔ مڈل ایسٹ اور فار ایسٹ کے ملکوں مین جانے کا اتفاق ہوا۔ اس دوران تقریباً سو سے زیادہ انٹرویوز اور مختلف ملکوں کے مختلف مقامات کے حالات جاننے کا موقع حاصل ہوا۔ بہت زیادہ نوٹس اور تصاویر اکٹھی ہوئیں۔ جس کو کتابی صورت میں مرتب کرنے کا کام جاری ہے جن میں سے چند اقتباسات پیش ہیں۔

انٹرنیٹ آنے سے جہاں دنیا میں بہت سے کام آساں ہوئے ہیں وہاں پر اب کاروبار بھی آسان ہو گیا ہے۔ مختلف بڑی بڑی کمپنیوں نے اپنی ویبسائٹ بنائی ہوئی ہیں۔ جہاں پر اپنی پسند سے آپ چیزیں خریدتے ہیں اور آپ کی خرید کردہ اشیاء آپ کے گھر پہنچ جاتی ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسی سہولیات موجود ہیں۔

جنس کا کاروبار بھی اب انٹرنیٹ کے ذریعے ہو رہا ہے۔ آپ گوگل پر سرچ کریں۔ مختلف ویبسائیٹس پر مختلف انواع و اقسام کے اشتہار آپ کو نظر آئیں گے۔ انہی میں آپ کو ایسے اشتہار ملیں گے جس میں فون نمبر کے ساتھ دعوت ہے کہ ہمارے پاس آپ کی پسند کا مال مناسب قیمت پر دستیاب ہے۔ آپ فون کریں اور اپنی پسند اور جیب قیمت کا تعین کریں اور اپنی جگہ یا ہوٹل کا نام بتائیں اور مقررہ وقت پر آپ کا مال حاضر۔ دوسری صورت میں آپ ان کے ٹھکانے پر چلے جائیں۔ جنس کا یہ کاروبار پاکستان کے ہر بڑے شہر میں بہت ہی منظم طریقے سے اور پولیس اور انتظامیہ کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ ۔

کچھ عرصہ قبل ایک دوست کے ساتھ اس کے کام کے سلسلے میں لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم اپنے شہر سے صبح جلدی روزانہ ہوئے اور تقریباً دس بجے اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئے۔ دوست کو متعلقہ فرم میں چھوڑا اب میرے پاس چار پانچ گھنٹے تھے۔ ایک بہت اچھا موقع تھامیرے لیے اپنی کتاب کے لئے مواد اکٹھا کرنے کا۔ سمارٹ فون میں اب آپ ایک پورا کمپیوٹر لے کر گھوم رہے ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر گوگل سے ایک ویبسائیٹ پر اشتہار پڑھا اور وہاں سے فون نمبر لے کر ڈائل کیا۔

ایک خوبصورت نسوانی آواز نے ہیلو کیا۔ میں نے اشتیار کے حوالہ سے بات کیا اور ان کی جگہ پر آنے کا عندیہ دیا۔ فون پر اقبال ٹاؤن میں واقع مون مارکیٹ میں آنے کا کیا گیا۔ وہاں پہنچ کر فون کیاتو ایک بلاک اور گھر کا نمبر ملا۔ میں نے گاڑی کے GPRS پر مطلوبہ ایڈریس فیڈ کیا اور دس منٹ میں متعلقہ مقام پر پہنچ گیا۔ گاڑی گھر سے چند گز دور کھڑی کر کے گیٹ پر پہنچ کر بیل بجائی۔ ایک نوجوان بلکہ نو عمر جوان نے دروازہ کھولا اور اندر آنے کا اشارہ کیا۔

اس کے پیچھے پیچھے اوپر والے پورشن پر پہنچا۔ سامنے صوفے پر ایک گہرے سانولے رنگ کی ایک نوجوان خاتون نے خوش آمدید کہا۔ اتنی خوبصورت آواز کا ایسا چہرہ دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی۔ میں اس کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔ اس نے کسی کو آواز دی۔ جواب تو نہیں آیا لیکن تین لڑکیاں آ گئیں اور قطار میں کھڑی ہو گئیں۔ میری کسی طرف توجہ نہ پا کر اس نے لڑکیوں کو اندر بھیج دیا اور میری طرف سوالی نظروں سے دیکھا۔

میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا۔ جناب ہمارے وقت کی ہی قیمت ہوتی ہے۔ آپ جس کام کے لئے آئے ہیں وہ کریں اور جائیں۔ میں نے اس کی مطلوبہ رقم اس کے حوالہ کی اور پھر کہا کہ صرف آپ سے بات کرنی ہے۔ اور کچھ نہیں کرنا۔ وہ پہلے تو ڈر گئی کہ میں کسی ایجنسی کا آدمی تو نہیں ہوں۔ کافی تسلی اور تشفی کے بعد وہ بات کرنے پر راضی ہوئی۔ گھر کرایہ پر تھا اور ایک آدمی نے لیا ہوا تھا اور وہی یہ دھندہ چلا رہا تھا۔

اور اس لڑکی کا کام ایک منیجر کا تھا۔ چار لڑکیاں تھیں اور فون پر تمام معاملات اسی کے ذریعے طے ہو رہے تھے۔ وہ تین سال سے اس آدمی کے ساتھ کام کر رہی تھی۔ اور خود اس دھندے میں ملوث نہیں تھی۔ اس سے زیادہ وہ کسی اور بارے میں بتانے سے راضی نہیں تھی۔ میں نے واپسی کا ارادہ کیا۔ تو وہ بڑی حیران ہوئی کہ آپ رقم خرچ کر کے بھی ایسے ہی واپس جا رہے ہیں۔

وقفے وقفے سے کافی دفعہ لاہور۔ کراچی۔ اسلام آباداور کچھ اور بڑے شہروں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اور ہر دفعہ کسی نہ کسی ایسے اڈے پر جانے کا قصد ہوتا رہا۔ ٹاؤن شپ میں اسی طریقے سے ایک اڈے پر پہنچا۔ گاڑی کافی دورکھڑی کر کے میں گیٹ کے اندر پہنچا تو ایک نو عمر لڑکے نے استقبال کیابمشکل وہ پندرہ سولہ کا ہو گا۔ یہ ایک بہت بڑا گھر تھا۔ جیسے ہی میں لاؤنچ میں داخل ہوا اندر کا منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ چھ سات لڑکیاں مختلف صوفوں پر بیٹھی تھیں اور ساتھ ہی دو تین لڑکے بھی ان سے باتیں کر رہے تھے۔ یہاں آکر میں حقیقتاً ڈر گیا کہ شواہد لیتے لیتے کہیں عزت نہ خراب ہو جائے۔ اور میں واپس آگیا لڑکے نے گیٹ تک میرا ساتھ دیا اور بضد ر ہا کیہ انکل آپ کچھ دیکھ تو لیں۔

اسی طرح کے شہر میں بے شمار اڈے ہیں۔ جو باقاعدہ رازداری کے ساتھ جاری ہیں۔ اور خوفناک بات یہ ہے کہ اس دھندے میں چودہ سال سے 30 سال تک کے بچے اور جوان ملوث ہیں۔

ایسے ہی ایک دن لاہور ایک دوست کے ساتھ جانا ہوا۔ وہ اپنے بزنس میں بزی ہو گیا۔ میرے پاس کافی وقت فارغ تھا۔ اس دفعہ میں نے ویبسائیٹ سے نمبر لے کر فون کیا اقبال ٹاؤن میں بلایا گیا۔ پانچ منٹ میں مطلوبہ جگہ پر پہنچ گیا۔ گاڑی گھر سے دور کھڑی کی اور گیٹ پر بیل بجائی ایک نوجوان نے دروازہ کھولا اور اندر آنے کا اشارہ کیا۔ اوپر والے پورشن میں لاؤنچ میں ایک صوفہ پر خاتون بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے اپنے پاس بیٹھنے کو کہا۔ اور کہا صاحب آپ بہت جلدی آگئے ہیں۔ ابھی صرف ایک ہی لڑکی آئی ہے۔ میں نے اسے اس کی مانگی ہوئی رقم ادا کی اور اس نے مجھے ایک کمرے کا راستہ دکھایا۔ میں کمرے میں بیٹھ گیا۔ چند لمحے بعد ایک تیس بتیس سال کی لڑکی کمرے میں داخل ہوئی۔ ایک عجیب سی اُداسی تھی اس کے چہرے پر۔

آتے ہی اس نے دروازہ لاک کیا اور دوپٹہ ایک طرف رکھا اور جب وہ اپنی قمیض اتارنے لگی تو میں نے اس سے کہا آرام سے بیٹھو پہلے کچھ باتیں کرتے ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ میں صرف تم سے باتیں کرنے آیا ہوں اور ہم صرف باتیں کریں گے تم آرام سے رہو۔ اور اپنا نام بتاؤ۔ نام پوچھ کر کیا کریں گے صاحب اگر میں غلط بھی بتا دوں تو! اس نے جواب دیا۔ کیا آپ نے رقم صرف باتیں کرنے کے لئے خرچ کی ہے۔ اس نے کہا۔ جی ہاں صرف تم سے تمہاری کہانی سننی ہے۔ آپ کب سے یہاں ہو۔ میرا جواب سن کر وہ کچھ ڈر سی گئی اور پوچھا۔ آپ کا تعلق کسی اخبار یا پھر کسی ایجنسی سے تو نہیں ہے۔ نہیں نہیں! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ میرے پاس ہی کاریٹ پر بیٹھ گئی۔ اس سمے وہ بہت معصوم سی ڈری ڈری اور سہمی سی عام سی لڑکی لگی۔

اچھا تو پھر باتیں کرتیں ہیں۔ آپ کا نام کیا ہے۔ شاہین اس نے جواب دیا۔ اور یہ میرا اصل نام ہے۔ میرا نام شاہد چوہدری ہے اور مین ایک بہت بڑی کمپنی میں ایگزیکٹو ہوں اور ادب سے کچھ شغف رکھتا ہوں۔ میں نے اپنا تعارف کروایا۔ باتوں باتوں اس سے پوچھا۔ تم اس رستے پر کیسے چل پڑیں۔ چھوڑیں صاحب آپ نے پھر کیا تحقیقات شروع کر دیں۔ اپنا کام کریں اور رخصت ہوں۔ آپ کا وقت گزر رہا ہے۔ جواب آیا۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ میں صرف باتیں کرنے آیا ہوں۔

میری یہ بات سن کر وہ کچھ فریز ہوئی چہرے پر کچھاؤ ہوا۔ اچھا یہ بتاؤ تمہیں کیا ملتا ہے۔ میں نے پوچھا۔ یہ کاروباری باتیں ہیں۔ جو بتانے کی نہیں ہیں۔ پھر میرے اصرار پر اس نے بتایاکہ تیسرا حصہ مجھے ملتا ہے۔ اور مہینے میں کتنا کما لیتی ہو؟ بس جناب گزارہ ہو جاتا ہے۔ جواب دیا۔ اچھا تو تم اس دھندے میں کیسے آئیں۔ میرے سوال پر اس نے میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں کے کونوں میں نمی در آئی۔ جب میرا سنجیدہ چہرہ دیکھا تو رونے لگی۔ میں نے اسے دلاسا دیا اور چپ کروایا۔ وہ پھر بولنے لگی۔

میں ایک کوالیفائیڈ فزیوتھراپسٹ ہوں۔ اور ایک ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ان کے کلینک میں کام کرتی تھی۔ بہت شریف النفس اور ددر دل رکھنے والے ڈاکٹر صاحب تھے۔ میرابہت خیال رکھتے تھے۔ اسی دوران میری شادی ہو گئی۔ دو بچے ہوئے۔ شوہر بہت ہی اچھا ملا جو ایک معقول جاب کر رہا تھا۔ بھائی باہر چلے گئے اور والد کے انتقال کے بعدمیں والدہ کو اپنے پاس لے آئی۔ زندگی بڑے آرام سے گزر رہی تھی۔ پھر گھر کو کسی کی نظر لگ گئی۔ اچانک ایک دن ٹریفک حادثہ میں شوہر کا انتقال ہو گیا۔

میں تو اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھی۔ لیکن ماں نے مجھے سنبھالا دیا۔ سسرال بہت دور دیہات میں تھا۔ میں وہاں نہیں رہ سکتی تھی۔ بچوں کے لئے پھر ڈاکٹر صاحب کا کلینک پھرجوائن کر لیا۔ زندگی ایک ڈگر پہ چل رہی تھی کہ ڈاکٹر صاحب جن کے کلینک میں کام کر رہی تھی۔ انہوں نے بیرون ملک بسنے کا پروگرام بنایا اور اپنا کلینک ایک اور ڈاکٹر صاحب کو بیچ دیا۔ نئے ڈاکٹر صاحب شروع دن سے میرے پیچھے پڑ گئے۔ اور سارا دن ان کی خوفناک نظروں کا سامنا رہنے لگا۔ ایک دن انہوں نے تنہائی میں پیش قدمی کی تو میں نے ان کے کلینک کو خیرآباد کہہ دیا۔ اور دوسری جگہوں پر کام تلاش کرنے لگ گئی۔ ایک تنہا لڑکی اور پھر بیوہ۔ چھ ما ہ میں کافی ساری نوکریاں کیں اور چھوڑنی پڑیں۔ بچوں کا ساتھ تھا۔ جو بڑے ہو رہے تھے۔ اخراجات بڑھنے لگے اور جمع پونجی ختم ہونے لگی۔

ایک دن ایک دفتر میں نوکری نہ ملنے کا سندیسہ سن کرگھر واپسی کے لئے رکشہ کے انتظار میں کھڑی تھی۔ کہ ایک کار میرے نزدیک آکر رُکی۔ میرے کالج کے زمانے کی ایک دوست کار سے نکلی اور مجھ سے گلے ملی اور پوچھا۔ کہ یہاں کیوں کھڑی ہواور اپنے ساتھ کار میں بٹھایا اور میرے گھر آگئی۔ میری ساری باتیں سنی اور پھر اس نے مجھے اس کام پر لگا دیا۔ مین پہلے ہی بہت ڈری ہوئی تھی۔ حالات سے۔

اب میں مہینے میں اتنا کما لیتی ہوں کہ میرے بچے بہت اچھے سکول میں پڑھتے ہیں۔ گزارہ بہت اچھے طریقے سے ہو رہا ہے۔ میں تین بجے سے رات دس بجے تک کام کرتی ہوں۔ صبح بچوں کو سکول خود چھوڑتی ہوں۔ اور دوپہر کو ان کو خود لے کر گھر آتی ہوں۔ ماں کے پاس اور پھر میں گھر سے نکل کر یہاں آ جاتی ہوں۔ ماں کے لئے میں اب بھی کلینک میں کام کرتی ہوں جہاں تین سے دس بجے تک میری دیوٹی ہوتی ہے۔ اکثر رات گزارنے یا پھر دوپہر سے قبل کسی کی ڈیمانڈ آتی ہے تو میں معذرت کر لیتی ہوں۔ آنے والے گاہک بہت تنگ کرتے ہیں۔ غلط تقاضے کرتے ہیں۔ جن کا پورا کرنا بہت مشکل ہوتاہے۔ بہت ہی غلیظ زندگی ہے یہ!

کیا اس کام سے خوش ہو۔ میں نے پوچھا۔ جناب اس کام سے کون خوش ہو سکتا ہے۔ مجبوری ہے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ اچھی زندگی گزار سکوں۔ لیکن مردوں کے اس معاشرے میں بہت مشکل ہے۔ میری کوشش ہے کہ میرے بچے پڑھ جائیں اور اچھے کاموں پرلگ جائیں۔ ہماری باتیں جاری تھیں کہ دروازہ کھٹکا۔ میں نے گھڑی کی طرف دیکھاتو میرا وقت ہو گیا تھا۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور جتنے پیسے تھے۔ اس کو پکڑائے تواس نے لینے سے انکار کر دیا اور میرے گلے لگ کر رونے لگی۔ میں نے پوچھا۔ کیوں رو رہی ہوتم نے تو خود یہ زندگی اختیار کی ہے۔ بس صاحب تین سال میں آپ واحد آدمی ہیں جس نے صرف باتیں کی ہیں ورنہ تو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).