پاک بھارت کشیدگی بین الاقوامی تناظر میں


پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بہت زیادہ ہونے کے بعد اب معاملات بہتری کی طرف جا رہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کشیدگی صرف اس وجہ سے ہوئی کہ پلوامہ میں بھارتی فوجیوں پر حملہ ہو گیا اور بھارت نے اس کے اثرات زائل کرنے کے لئے اپنی فضائی فوج تک کے استعمال کا فیصلہ کر لیا؟

یا یہ سب کچھ صرف بھارت میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی غرض سے مودی حکومت کر رہی ہے یا ان حالات کی طرف لیکر جانے کی بین الاقوامی طاقتیں خواہش مند تھیں اور جب پلوامہ واقعہ ہو گیا تو انہوں نے جان بوجھ کر بھارت کو روکنے اور بھارت کی جانب سے پیدا کردہ جنگی حالات کے انسداد کی کوشش اس لئے نہیں کی کہ یہ سب کچھ ان طاقتوں کے مفاد میں تھا۔

اگرچہ پہلی دو وجوہات ایسی ہیں کہ جن کی وجہ سے بھارت نے یہ سب کچھ کیا لیکن اگر تیسری وجہ موجود نہ ہوتی تو بھارت پہلی 2وجوہات کی وجہ سے اس حد تک جانے کا فیصلہ نہ کرتا کہ اپنی فضائی قوت کو استعمال کر بیٹھتا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بین الاقوامی طاقتوں کو ایسی کیا ضرورت در پیش تھی کہ وہ اس موقع پر جنوبی ایشیا کی 2ایٹمی طاقتوں کے درمیان حالات کے خراب ہونے کو اپنی حکمت عملی میں جگہ دینے کے لئے تیار ہو گئیں۔ بظاہر تو اس لڑائی جھگڑے میں تحمل کا درس دیا جا رہا ہے لیکن جو بظاہر نظر آتا ہے وہ حقیقت میں نہیں ہوتا۔

عام تصور یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کو ناپسند کرتا تھا لیکن شروع میں اس نے اس لئے کوئی خاص ردعمل نہیں دیا کہ وہ سمجھتا تھا کہ سوویت یونین کو اس سے روکا نہیں جا سکتا لیکن اس وقت خطے میں امریکہ کے اہم اتحادی رضا شاہ پہلوی کے دست راست اور ایرانی انٹیلی جنس سروس ساواک کے سابق سربراہ جنرل حسین فردوست جنہوں نے ’’شاہ ایران کے زوال میں خفیہ ایجنسیوں کے کردار‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی.

وہ تحریر کرتے ہیں کہ ’’جرمنی، فرانس اور اٹلی نے جنوبی افغانستان میں سرمایہ کاری کی پیشکش کی تھی لیکن امریکہ نے شدید مخالفت کی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کابل سے ساواک نے مجھے اطلاع دی کہ امریکہ کابل پر روس کا قبضہ کرانا چاہتا ہے۔ ساواک کے نمائندے نے بتایا کہ جرمنی، فرانس اور اٹلی نے امریکہ سے درخواست کی تھی کہ وہ کابل کی صورت حال پر توجہ دے لیکن امریکہ نے انکار کر دیا‘‘۔

یہ پڑھنے کے بعد یہ سمجھنا بالکل بھی مشکل نہیں ہے کہ امریکہ جان بوجھ کر کابل میں حالات ایسے ہوتے دیکھنا چاہتا تھا کہ جس کی وجہ سے دوسری سپر پاورز وہاں براہ راست اپنی فوج کو لے جائیں۔ بعد کے حالات ایک تاریخ ہیں۔

اس طرح بھارت کو اس خطے میں بہت زیادہ اہمیت دینا صرف اس غرض سے نہیں ہے کہ بھارت ایک بڑی تجارتی منڈی ہے بلکہ بھارت کی فوجی برتری کی خواہش کو استعمال کرکے خطے میں دیگر چیزوں کو خراب کرنا ایک حکمت عملی کے تحت کیا جا رہا ہے اور اسی حکمت عملی کی وجہ سے یہ واضح طور پر محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان سفارتی دنیا میں اپنے اس موقف کو اہمیت نہیں دلا سکا کہ بھارت نے فضائی خلاف ورزی کرکے جارحیت کی تھی۔

یہ بات ایک پاکستانی کے طور پر تلخ محسوس ہوتی ہے لیکن اگر ہم دیکھیں تو یہ حقیقت بالکل سامنے موجود ہے کہ سلامتی کونسل کے اراکین، یورپی یونین سے وابستہ ممالک اور عرب دنیا میں سے کسی ایک نے بھی بھارت کی جانب سے کی گئی فضائی خلاف ورزی کی مذمت نہیں کی۔

ایسی صورتحال پاکستان بھارت کے تنازعات میں اس سے قبل دیکھنے میں کبھی نہیں آئی بلکہ اسی دوران او آئی سی کے اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ کو مدعو کرنا اور پھر بھارت کی او آئی سی میں باقاعدہ رکنیت دینے کے حوالے سے باتیں بھی سامنے آنے لگی ہیں۔ اس پر پاکستان کی ناراضی کے باوجود اس کے اعتراضات کو اہمیت نہ دینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کو اب وہ اہمیت نہیں دی جا رہی جو دی جاتی تھی۔

یہ سب کچھ صرف ان ممالک کی وجہ سے نہیں ہو رہا بلکہ پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان اور سی پیک کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستان کو اس سفارتی ہنگامی صورتحال تک لے جایا گیا ہے تاکہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان اپنے مفادات کا افغان طالبان اور امریکہ سے مذاکرات کے موقع پر مکمل طور پر تحفظ نہ کر سکے اور اس کو زبردست خطرے کا احساس دلایا جا سکے۔

یہی طریقہ کار اس وقت اختیار کیا گیا تھا کہ جب سوویت یونین کی مداخلت کا افغانستان میں آخری دور چل رہا تھا اور پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کرنے کی غرض سے بھارتی پنجاب میں ہونے والے واقعات کو بنیاد بناکر بھارت اپنی افواج کو پاکستان کی سرحد تک لے آیا تھا، اگرچہ بعد میں اس نے فوج کو واپس بلا لیا لیکن اس کے اثرات جنیوا معاہدے اور بعد تک کی صورتحال پر پڑتے نظر آتے ہیں ۔

 یہ سب کچھ وطن عزیز میں صرف اس وقت تک ہوا جب تک حکومتیں منتخب نہیں بلکہ چنیدہ ہوتی تھیں۔ بھارت سے سندھ طاس کے معاہدے سے 65ء اور 71ء کی جنگوں، سانحہ مشرقی پاکستان، سیاچین سے جنیوا معاہدوں کے واقعات تک سلیکٹڈ حکومتیں کمزور سیاسی طاقت کی وجہ سے ہمیں برابر کا جواب دینے کی صلاحیت سے عاری نظر آتی ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).