23 مارچ اور قرارداد


مارچ آتا ہے تو 23 مارچ 1940 کی قرار دادِ لاہور (قرار دادِ پاکستان) کی یاد تازہ کرتا ہے، قرار داد پاکستان ہمارے ملک کے قیام کی بنیاد بنی اور 23 مارچ 1940 کو شروع ہونے والا سفر پندرہ اگست 1947 کو اپنی منزل پر پہنچا۔ مارچ کے مہینے ہی میں 12 مارچ 1949 کو قرار دادِ مقاصد منظور کی گئی۔ ہماری پہلی دستور ساز اسمبلی کی پاس کردہ یہ قرار داد ایک تاریخی ڈاکیومنٹ ہے، جو 1956 اور 1973 کے دساتیر کا حصہ بنی۔ اس قرار داد کو پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور تحریکِ پاکستان کے اہم لیڈر لیاقت علی خان نے پیش کیا اور اسے مسلمانان پاکستان کی آرزوؤں کا ترجمان اور اسلامی جمہوریت کا نمونہ قرار دیا۔

قیام پاکستان کے ذریعے مسلمان اپنے سیاہ و سفید کے مالک ہو گئے ’ورنہ وہ ہمیشہ ہندو اکثریت کے زیر فرمان رہتے اور ان کے دین و فرہنگ کے پنپنے کے کوئی امکانات نہ تھے۔ پاکستان کبھی ناکسی قوم اور مذہب کے آگیجھکاہے اور نا کبھی جھکیگا۔ امتِ مسلِماں اس وقت وہ واحد قوم ہیں جس کو اپنا کر ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنا دین بدل رہیں ہیں یہ مسلمان کی پہچان اور اس پاک مذہب کی شان ہے جس کے باعث مسلمانو کی تعداد بتدریج بڑھ رہی ہے۔

تاریخ سے واقفیت رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ جواہر لعل نہرو سمیت کئی اہم رہنماؤں کے سامنے مہاتما گاندھی نے قائداعظم کو مشترکہ ہندوستان کی وزارتِ عظمیٰ کی پیشکش کی تھی مگر قائداعظم نے اس پیشکش کو بڑے آرام سے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ ”آپ بے اعتبارے لوگ ہیں، جو بات آج آپ کر رہے ہیں، کل کو اکثریت کے بل بوتے پر آپ اس سے مکر جائیں گے لہٰذا میں پاکستان بنانے کو ترجیح دیتا ہوں“۔ آج سکھ خالصتان بنانے کے لئے بے چین ہیں، وہ خالصتان اور کشمیر کی آزادی کے لئے نعرے بلند کر رہے ہیں، اسی طرح میزو رام، آسام، تری پورہ سمیت کئی ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں، ہندوؤں کے ظلم کے شکار لوگ ہندوستان سے جان چھڑوانا چاہتے ہیں، جدوجہد کی ان گھڑیوں میں انہیں قائداعظم کی یاد بہت آتی ہے۔

موجودہ بھارتی حکومت کی کشمیر میں انتہائی ظالمانہ پالیسی نے عالمی دنیا میں بھارتی امیج خراب کردیا ہے۔ بھارت کے اندر یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ کشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں فوج کیوں موجود ہے مسئلہ کشمیر کو اب حل ہونا چاہیے۔ انتخابات سے قبل سرحدوں اور روایتی حریف سے جارحانہ رویہ اختیار کرکے دونوں ممالک کو انتہائی کشیدگی کے بعد جنگ کے بگل بجادینے کی مودی پالیسی بھی ناکامی کا منہ دیکھ چکی۔ 65 ء کی جنگ ہو یا 71 ء کی، بھارت نے سوائے زہر اگلنے کی اور کچھ نہ کیا۔

مشرقی پاکستان میں منفی کردار نبھاتا رہا یہاں تک کہ بنگلادیش الگ ہوگیا۔ بھارت کو پھر بھی سکون نہ ملا۔ وقتاً فوقتاً اپنی اوقات دکھاتا رہا۔ پاکستان نے کئی مرتبہ دل سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا، مسئلہ کشمیر بیٹھ کر بات چیت سے حل کرنے کی دعوتیں دیں لیکن مثبت کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ حقیقت میں سوا ارب آبادی والے رقبہ میں پاکستان سے چار گنا بڑے بھارت کا دل بہت چھوٹا ہے۔ کشمیر میں جدوجہدِ آزادی پھر سے زور پکڑنے لگی اور کشمیری نوجوانوں نے قابض بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف نئے جذبہ کے ساتھ نعرہ حق بلند کرنا شروع کردیا۔ اور وہ آج تک بھارت سے آزادی کے مطالبے پر زور دے رہے ہیں۔

مارچ کے مہینے ہی میں 12 مارچ 1949 کو قرار دادِ مقاصد منظور کی گئی۔ ہماری پہلی دستور ساز اسمبلی کی پاس کردہ یہ قرار داد ایک تاریخی ڈاکیومنٹ ہے، جو 1956 اور 1973 کے دساتیر کا حصہ بنی۔ اس قرار داد کو پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور تحریکِ پاکستان کے اہم لیڈر لیاقت علی خان نے پیش کیا اور اسے مسلمانان پاکستان کی آرزوؤں کا ترجمان اور اسلامی جمہوریت کا نمونہ قرار دیا۔ اس قرار داد کے ناقدین کو اعتراض ہے کہ اس سے اقلیتوں کے حقوق پر زد پڑی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریت میثاقِ مدینہ کی مانند اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیتی ہے اور ہر قسم کا تحفظ فراہم کرتی ہے۔

23 مارچ کو پاکستان کے ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ یہ تجدید عزم کرے کہ وہ قرارداد پاکستان کی رو ح کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا۔ کیونکہ موجودہ پاکستان اس قرارداد کی روح سے ہٹ چکا ہے جس پر صدق دل سے عمل کر کے ہی ہم اپنی کھوئی ہوئی منزل دوبارہ تلاش کر سکتے ہیں اور پاکستان کو قائد اعظم اور علامہ اقبال کے نظریات کے مطابق ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔ پاکستان اپنی سلامتی میں کامل اور دفاع میں بے حد مضبوط ہے۔ پاکستان کا قیام ایک ایسی حقیقت ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال ملنا محال ہے ’اگر ہم نے پوری دیانتداری‘ خلوص اور مستعدی سے کام کیا تو پاکستان بہت جلد اہلِ عالم میں شاندار حیثیت اختیار کر لے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).