نیوزی لینڈ میں مسلمانوں پر حملہ: ایک تجزیہ


نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر دہشتگرد حملوں میں 49 افراد ہلاک اور 20 سے زیادہ لوگ شدید زخمی ہوئے ہیں۔ وزیراعظم جاسنڈا آرڈرن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حملہ آور کے پاس پانچ بندوقیں تھیں اور ان کے پاس اس کا لائسنس بھی تھا۔ 28 سالہ حملہ آور برینٹن کو سنیچر کو عدالت میں ہیش کیا گیا جہاں ان پر قتل کے الزامات عائد کیے گئے۔ برینڈن کے علاوہ حکام کی تحویل میں دو اور لوگ بھی موجود ہیں۔ حملے کے ایک دن بعد کرائسٹ چرچ میں وزیراعظم نے کہا کہ ’اسلحہ سے متعلق ہمارا قانون تبدیل کیا جائے گا۔ انھوں نے بتایا کہ زیر حراست افراد میں سے کسی کا بھی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ملا۔ پولیس نے ابھی تک ہلاک ہونے والے افراد کی شناخت ظاہر نہیں کی ہے۔

یہ افسوسناک واقعہ ایک ایسے ملک میں ہوا جہاں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہاں کوئی ایسا نہیں جو مذہب، رنگ یا نسل کی بنیادپر کسی کو نفرت کی نظر سے دیکھے۔ وہاں رہنے والا چند ٹکڑوں کے غلام بھی جب پاکستان آتے ہیں تو وہ پاکستان اور اس کے معاشرے کی برائی کرتے اور ”اپنے“ یورپ کی وسعت نظری کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ وہاں کا ماحول جس کو وہ تعصب سے پاک تصور کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہاں کسی بھی قسم کی مذہبی پابندی یا تفریق نہیں، ان کے دل و دماغ میں ایسا رچ جس گیا ہے کہ وہ پاکستان واپس آنے کا خیال تک دل میں نہیں لاتے۔ خود اس معاشرے اکابرین اپنے معاشرے کو ہر قسم کی نفرت سے پاک خیال کرتے ہوئے سارے کیڑے مسلمان ممالک اور خاص طور سے پاکستان میں نکالتے ہیں۔

تخریب کارانہ کارروائیاں دنیا کے تمام ہی ممالک میں ہو رہے ہیں جس میں صرف مسلمان ہی شریک نہیں بلکہ ان معاشروں سے بیزار نہ جانے کتنے افراد ایسے ہیں جو اپنے اپنے ماحول سے تنگ آکر اپنے ہی شہریوں کے لئے عذاب بنے ہوئے ہیں۔ وہاں کے سفاک قاتل صرف مسلمانوں کا ہی قتل عام کرتے نہیں پھر رہے، ان کی زد میں جو بھی آجائے وہ اس کا قصہ تمام کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ان کے پاس ٹرک ہو، بڑے بڑے ٹریلرز ہوں یا عام گاڑیاں، وہ راہوں میں چلنے پھرنے والے عام مسافروں کو اس کے نیچے بے دردی کے ساتھ کچلنے، گولیوں سے بھون ڈالنے اور چاقوؤں سے وار کرکے موت کے گھاٹ اتار دینے سے گریز نہیں کرتے۔

اگر سنجیدگی سے سوچا جائے تو اس قسم کی کسی بھی کارروائی کا کوئی تعلق کسی مذہب، رنگ، نسل، علاقے اور زبان سے نہیں ہوتا اس لئے کہ ایسا کرنے والوں کا ایک ہی مذہب ہوتا ہے اور وہ مذہب دہشت پھیلانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوتا یا اپنے اندر پکنے والا وہ مادہ جو معاشرے کی مسلسل نا انصافیوں، محرومیوں اور امتیازانہ سلوک کی وجہ سے دل و دماغ میں پک رہا ہوتا ہے اس کا شاخسانہ ہوتا ہے۔ جب کسی آتش فشاں کا دہانہ ایک زوردار دھماکے کے ساتھ پھٹ پڑے اور اس کا لاوہ آسمانوں کی بلندی رک اٹھ کر آگ اور پتھروں کی برسات کی طرح برسے تو پھر اس کی زد میں صرف سیاہ کار ہی زد میں نہیں آیا کرتے بلکہ وہ ایک اندھے عذاب کی طرح سب پر ہی برس پڑتا ہے۔

یہی حال اس پاگل کا ہوتا ہے جس کا جنون اس حد تک سر چڑھ چکا ہوتا ہے کہ اسے جیتے جاگتے انسان کیڑے مکوڑوں سے بھی زیادہ حقیر نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ جب عالم یہ ہوجاتا ہے تو پھر وہ پاکستان ہو، ہندوستان ہو، امریکہ ہو یورپ ہو یا دنیا کا کوئی بھی ملک، وہاں اسی طرح لاشے تڑپتے اور سسکتے نظر آتے ہیں جیسے نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں جیتے جاگتے اور ہستے مسکراتے انسان اچانک ابدی نیند سلا دیے گئے۔

تخریب کار کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن المیہ یہ ہے کہ جب یہی تحریب کاری کسی مسلمان کے ہاتھوں ہو جائے خواہ دنیا کا سلامی ملک ہو یا غیر اسلامی تو پوری دنیا مسلمانوں کو خونخوار نگاہوں سے دیکھنے لگتی ہے۔ ہر مسلمان اور مسلمان ملک بار بار اس کی مذمت بھی کر رہا ہوتا ہے اور بار بار یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ تخریب کاروں کا تخریب کاروں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن دنیا ایک ہی بات پر اڑ کر بیٹھ جاتی ہے کہ نہیں یہ مسلمان ہیں ہی دہشتگرد اس لئے بہتر ہے کا تمام کا قصہ ہی کیوں نہ تمام کر دیا جائے۔

مسلمان کے ہاتھوں اگر کوئی تخریب کاری ہوجائے ان کے ممالک میں گھس کر بمباری بھی جائز، فوجیں اتارنا بھی جائز اور ان کے ملک میں لشکر کشی بھی جائز لیکن اگر ایسا ہی کوئی کام کسی غیر مسلم کے ہاتھوں ہو جائے تو فقط بیان بازی، ذہنی مریض ہونا یا پاگل پن کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ نا وہاں ڈرون حملے کیے جائیں گے، نہ بمباری اور نہ ہی لشکر کشی اس لئے کہ قانون وہی ہوتا ہے جو ان کی زبان سے نکل جائے۔

خبروں کے مطابق پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر دہشتگردوں کے حملے میں پانچ پاکستانی لاپتہ ہیں جبکہ چار زخمی ہو ئے ہیں جن کا علاج ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا مقامی حکام کی مدد سے لاپتہ افراد کی شناخت کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق نو بھارتی نژاد مسلمان ابھی تک لاپتہ ہیں جبکہ آٹھ بنگلہ دیشی نژاد افراد لاپتہ ہیں۔

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جاسنڈا آرڈرن نے مسجد پر فائرنگ کے واقعے کو دہشتگردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ نیوزی لینڈ کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ پولیس کمیشنر مائیک بُش کے مطابق دوافراد میں ایک عورت بھی شامل ہے جن کے قبضے سے اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد ملا اور وہ حراست میں ہیں۔ پولیس کمشنر نے بتایا حراست میں لیے جانے والے تین افراد میں سے ایک کو رہا کر دیا گیا جبکہ باقی سے پوچھ گچھ ہو رہی ہے۔ حملہ آور جس نے سر پر لگائے گئے کیمرے کی مدد سے النور مسجد میں نمازیوں پر حملے کو فیس بک پر لائیو دکھایا، اپنے آپ کو اٹھائیس سالہ آسٹریلین برینٹن ٹارنٹ بتایا۔

اس فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح النور مسجد کے اندر مردوں، عورتوں اور بچوں پر اندھادھند فائرنگ کر رہا ہے۔ بظاہر پولیس کی لوگوں سے یہ اپیل کہ وہ اس انتہائی دردناک فوٹیج کو فارورڈ کرنے سے گریز کریں، بہت مثبت بات لگتی ہے اس لئے کہ اس سے دیکھنے والوں کو بڑی اذیت ہوتی ہے لیکن غور کیا جائے تو اس میں اپنے ملک کو سبکی سے بچانے کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ یہ دہشتناک مناظر دنیا میں جہاں جہاں بھی دیکھے جائیں گے، دیکھنے والے نیوزی لینڈ کے لئے کوئی اچھا محسوس نہ کریں گے۔

یہاں جو قابل غور بات ہے وہ یہ ہے کہ مسلم ممالک میں جہاں جہاں بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں یا کسی غیر اسلامی ملک میں کوئی مسلمان ایسا کر گزرتا ہے تو اس کی ایک ایک تصویر اور ویڈیو پوری دنیا میں نشر کی جاتی ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے کسی کو یہ خیال تک نہیں آتا کہ کہ اس سے دیکھنے والے کی ذہن پر کتنا برا اثر پڑے گا۔ اگر کسی منظر سے یورپ کی تہذیب کا اصل چہرہ عیاں ہو رہا ہو تو اس کو تو سوشل میڈیا پر نشر کرنا اچھا نہ لگے لیکن یہی کام اگر مسلمانوں میں سے کسی سے سرزد ہوجائے تو اس کو پوری دنیا میں نشر کیا جانا اچھا محسوس ہو تو کیا یہ دہرا معیار انصاف نہیں کہلائے گا۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق نیوزی لینڈ کی آبادی کا صرف 1.1 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ سنہ 2013 میں کی گئی مردم شماری کے مطابق نیوزی لینڈ میں 46000 مسلمان رہائش پزیر تھے، جبکہ 2006 میں یہ تعداد 36000 تھی۔ سات سالوں میں 28 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ آج سے قبل یہ ملک کسی حد تک امتیازات سے پاک تھا لیکن یہ سب کچھ ظاہرہ تھا جبکہ باطن اس کے برعکس تھا، دنیا کے وہ مسلمان جو اب بھی یورپ اور امریکہ کی جانب اپنے اپنے روز گار کی تلاش میں جاتے ہیں، یہ واقعہ ان کے لئے ایک ”وارننگ“ سے کم نہیں ہونا چاہیے اس لئے کہ جنونیت کا تعلق ریاستوں سے نہیں، انفرادی ذہنیت سے ہوتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جس کو پوری دنیا کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے اور کسی بھی واقعے کو پوری ریاست یا قوم کی شکل میں نہیں دیکھنا چاہیے۔

ایک اور خبر کے مطابق بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے ترجمان جلال یونس کا کہنا ہے کہ ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی بس کے ذریعے مسجد گئے تھے اور اس وقت مسجد کے اندر جانے والے تھے جب یہ واقعہ پیش آیا۔ انھوں نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ سب وہ محفوظ ہیں، لیکن وہ صدمے میں ہیں۔ ہم نے ٹیم سے کہا ہے کہ وہ ہوٹل میں ہی رہے۔ دنیا کو یاد ہوگا کہ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم لاہور میچ کھیلنے آئی تھی اور اس پر بھی ایک حملہ ہوا تھا جس کی وجہ سے نہ صرف وہ واپس چلی گئی بلکہ دنیا نے پاکستان سے انٹر نیشنل کرکٹ بھی واپس لے لی۔

اگر ایسا کرنا عین انصاف تھا تو پھر پاکستان بھی اس بات کا انتظار کرے کہ نیوزی لینڈ میں بھی اب کوئی کرکٹ نہیں کھیلی جائے گی تو کیا یہ بے جا ہوگا؟ اگر ایسا ہو تو درست اور اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ اوپر اوپر سے کوئی کتنا ہی اپنے آپ کو ”لبرل“ کہے اندر سے وہ اتنا ہی متعصب ہے جتنا دنیا مسلمانوں کو سمجھتی ہے فرق صرف غلبے کا ہے جو آج کل غیر مسلم ممالک کو دنیا پرحاصل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).