درویش میں صحرا


یونانی مؤرخ ہیروڈوٹس رقمطراز ہے کہ شہنشاہ ایران دارا جب سیتھیوں (ایک جنگجو قوم جو بحیرہ اسود کے شمال میں آباد تھی) کی سرزمین پہ حملہ آور ہؤا تو دشمن کی طرف سے اُسے ایک تھیلا موصول ہؤا جو ایک چڑیا، ایک چُوہے، ایک مینڈک، اور چند تیروں پہ مشتمل تھا۔ آنکھیں سُکیڑ سُکیڑ کے پیشانیوں پہ بَل ڈالتے مفکرین وزرا کی جماعت ان اشیا کا مطلب نکالتی اس نتیجے پر پہنچی کہ مد مقابل نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اوّل سے مراد کہ مثل پرند اڑ گئے ہیں، دوّم (چُوہا) خشکی کا مظہر اور سوّم مینڈک پانی کی دلیل۔

مطلب وطن کے خاک و آب پر بادشاہی قبول کر لی گئی ہے۔ اور تیروں سے مراد ہتھیاراُتارنا۔ لیکن یہ تاویل یکسر غلط ثابت ہوئی کیونکہ دن گزرتے ہی حریف نے شب خون مارا۔ بعد میں یہ عقدہ کُھلا کہ جب تک ایرانی پرندوں کی طرح اڑنا، چوہے کی طرح بِل میں گُھسنا اور مینڈک کی طرح پانی میں چُھپنا نہ سیکھ لیں وہ سیتھی تیروں سے بچ نہیں سکتے۔

فن تحریر کی ایجاد سے پہلے پیغام رسانی کے تقاضوں نے کئی سہارے لئے۔ ڈھول پر ضربات کی تعداد کبھی ترجمان بنی تو کبھی ما فی الضمیر کا اظہار آگ کے شعلوں پہ بلند ہوتا رہا۔ خطرات سے آگاہی کے لئے بلند کی جانے والی روشنی بیکن کہلائی اور مقام روشنی منار اور مینار کہلایا۔ دھوئیں اڑنا ابھی بھی برباد ہو جانے کے مفہوم میں مستعمل ہے کبھی دھوئیں اڑا کر موت کی خبرقرب و جوار تک ابلاغ کی جاتی تھی۔ کلہاڑی جنگ کا پیام تو تمباکو پینے والا پائپ صلح کا سندیسا سمجھا جاتا کیوں کہ صلح کے وقت مل کے پائپ پیتے تھے۔

مادی اشیا سے مجازی تعبیرات لیتی تہذیب نے صوری ارتقا کے زینے پہ پاؤں دھرے تو حقیقی و مجازی تشریحات دونوں کو کام میں لایا جانے لگا جیسے سورج کی تصویر سے مراد سورج لینا یا پھر دن مراد لینا یا سال اسی طرح چاند سے مراد چاند یا چاندی وغیرہ۔ تصویری نشانات مختصر ہوتے ہوتے لکیروں میں بدل گئے اور یوں ارتقائی حمل نے حروف کو جنم دیا۔ حروف کی آپس میں رشتہ داریاں ہوئیں تو تحریر وجود میں آئی جس نے پیغاما پیغامی کی رِیت کو ترقی کی نئی ڈگر پہ ڈال دیا۔

یوں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ انسانی تہذیب کو بلندیوں پہ لے جانے والی تحریر کے الفاظ در حقیقت وہ تصویریں ہیں جو انسان کی قوت بصارت کا کمال ہیں۔ اور بلا تشکیک مذکورہ کمال نے بصیرتوں کے نئے دریچے وا کیے۔ مکتوب نگاری کی تاریخ تہذیبوں کے جنم دن جتنی قدیم ہے۔ پرائے دیس جانے والے گھر کا پالتو کبوتر ساتھ لے جاتے منزل پہ پہنچ کر چھوڑتے جو واپس پہنچتا تو دائیں پاؤں میں بندھا دھاگہ اس کی خیریت کی علامت ہوتا تھا۔ تحریر کی تاریخ میں کاغذ کی ایجاد گویا خاک سے ترقی کے افلاک تک کا زینہ ہے۔ چینی ماہر نباتات سائیلُن کے ماتھے پہ یہ سہرا سجا ہے۔

پچھلے دنوں سیفما ہال شادمان لاہور میں اجلے خوابوں کی مانند سجی بزم میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔ جب میدان صحافت کے شمشاد جناب امیر حیسن جعفری پیغام سحر دیتی سورج کی پہلی کرن کی مانند فرائض نقابت کا آغاز فرما رہے تھے تو اسٹیج پہ دونوں درویش علم و ہنر کی قبائیں زیب تن کیے جلوہ افروز تھے۔ مشتاقین ادب کی آمد کا سلسلہ دھیرے دھیرے بڑھتا رہا کہ ہال لبریز ہو گیا۔ سامعین کی سماعتیں معطر ہوتی رہیں، جچے تُلے اُدبا، سخن سنج شخصیات جن میں محترمہ آپا سلمیٰ اعوان، محترمہ سیدہ عذرا نقوی، محترم ڈاکٹر سعادت سعید، محترمہ رابعہ رحمٰن، محترم اقبال راہی، محترم عابد حسین عابد، محترمہ نیلم احمد بشیر، محترم امتیاز عالم، محترمہ رابعہ الربا، محترم ڈاکٹرخالد سہیل شامل تھے۔

ان سب کی گفتگو سے عقدہ کُھلا کہ ادبی شادابیوں سے مہکتی روشنیوں پرچاہتوں کے پیغام لکھتی، قاریوں اور لکھاریوں کے بیچ جذب و کشش کی لہروں کے دوش پہ لفظ وصل لکھتی، معلوماتی، صحافتی، ادبی تقاضے احسن انداز میں نبھاتی ہم سب نامی ویب سائٹ کے پنگھٹ پہ ادب کے دو پریمیوں کے پرگت کیا ملے جیسے مسافتوں و تفاوتوں کے بے کنار دشت میں بھٹکتے تشنہ گان محبت کو منزل مقصود مل گئی ہو دو ایسے راہی جنہوں نے بے صوت و صدا الفاظ کے دوش پہ سفر کرتے کرتے منزلوں کے نشاں ڈھونڈ نکالے ہوں۔

آکاش کے دامن کی طراوتیں زمین کی نرم گود کی تمازتوں میں جذب ہونے لگیں، انکار کی نہیں نہیں دُھول اڑاتے راستوں پہ بھٹکتی بہکتی اقرار کی منزلوں پہ جا سستائی، شاہراہ گماں پہ گامزن اندیشوں کے قافلے وادی گیان میں جا اترے، بیگانگی کے سیاہی مائل دھندلکوں میں یگانگت کے پو پھٹ پڑے، ہچکچاتے لہجوں میں ادھورے سدھورے جھجکتے بدکتے لفظوں نے صبح خاموش میں اتنی ریاضت کی کہ تکمیل کے متلاشیوں پر نئی راہیں کُھلنے لگیں، دیس سے سمندر پار تک کی مسافتیں افکار انسانی کے ہاتھوں اس قدر محدود ہوئیں کہ ایک ایک بالشت قلمی پیمائش میں مقید ہو گئی۔ سہمی سہمی امس زدہ شب میں مجبوریوں کے لحاف مین سسکتی حسرتیں سوالی بننے کی جرات کرنے لگیں۔ مصلحت کوشی کے ہاتھوں روایات کے کولہو میں بیل کی طرح جُوتی گئی اپنے حقوق سے چشم پوشیاں کرتی بنت حوّا کو زبان مل گئی۔

تخیلات کے تانے بانے لفظوی پیرہن پہنے مکالمہ نگاری کی طیلسان پہ اترنا شروع ہوئے، دونوں طرف کی تخلیق کاریاں قلم کی نوک سے ٹپکنے لگیں اور یوں دونوں تخیلق کار تواتر و تسلسل کی کڑیوں کو زنجیر کرتے کافر ہو گئے۔ گردش تخیلات کی باگ تھامے کچے پکے، اونچے نیچے گھرانوں سے، زمانوں سے دُور کہیں دُورسخن سازیوں کے راستے ناپتے سالکین نے شعوریت کے ٹیلے پر ایک کٹیا جا بنائی ہے اور اس کُٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے درویشوں کا ڈیرہ

یہ مشترکہ تصنیف ہے کینیڈا میں رہائش پذیر ڈاکٹر خالد سہیل اور پاکستان میں مقیم رابعہ الربا کی۔ دونوں شخصیات نے عنفوان تہذیب کی روایت جس کا ورق زمانہ جدید نے الٹ دیا۔ کو زندہ کیا۔ اوربرقی صفحات نے قاصد سے حل پوچھنے کی زحمت تک نہیں دی۔

خط کبوتر کس طرح لے جائے بام یار پر

کہ پر کترنے کو لگی ہیں قینچیاں دیوار پر

آدھی ملاقات کا درد دونوں درویشوں نے خوب لکھا اور ہم اپنا درد بھی لکھتے چلیں کہ اس تصنیف کے تانے بانے مغرب سے مشرق تک بُنے جا چکے لیکن ہم ابھی تک کتاب کی حقیقی زیارت سے محروم۔ پی ڈی ایف فائل میں ارسال کرنے کا وعدہ بھی نہ جانے کہاں مرحوم۔

ڈاکٹر خالد سہیل صاحب جب بولے توسماعتوں کی مسافتیں اس شعر پہ جا منتج ہوئیں

تو نے بس دیکھا ہے صحرا میں اک درویش

تو نے درویش میں صحرا نہیں دیکھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).