ترجیحات کا ٹکراؤ


سیاست میں بنیادی اہمیت سیاسی ترجیحات کی ہوتی ہے۔ مسائل تو بہت ہوتے ہیں اور ان کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن ایک اچھی، موثر، بہتر اور شفاف حکمرانی سمیت عوامی مسائل کی اہمیت کو سمجھنے والی حکومت یا قیادت کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ بہت زیادہ بردباری اورتدبر و فہم کے ساتھ اپنی سیاسی، سماجی اور معاشی ترجیحات کا تعین کرتی ہے۔ ترجیحات کا درست سمت بنیادی طو رپر حکومت اور عوامی سطح پر ایک دوسرے کے بارے میں اعتمادسازی یا بھروسا کی سیاست کو تقویت دینے کا سبب بنتی ہے۔ ہماری جمہوری حکمرانی کا المیہ ہے کہ یہاں جو کچھ حکمرانی کے نام پر ہورہا ہے اس سے عوام اور حکمران طبقہ کے درمیان واضح خلیج پیدا ہورہی جو حکمرانی کے مروجہ نظام کی مجموعی ساکھ اور شفافیت پر سوالات اٹھاتی ہے۔

اسی طرح جب سیاست بنیادی طور پر عوامی مسائل سے ہٹ کر سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں یا ارکان پارلیمنٹ کی ذاتی ترجیحات سے جڑ جاتی ہے تو اس کا نتیجہ بھی معاشرے میں ایک ٹکراؤ کی صورت میں پیدا ہوتا ہے۔ حال ہی میں پنجاب میں وزیر اعلی، صوبائی ؒ وزرا، مشیروں اور صوبائی ممبران کی تنخواہوں، مراعات اور دیگر لوازمات کے حوالے سے منظور ہونے والا بل کی صورت بھی ایک بڑے تنقیدی پہلو کے طو رپر سامنے آئی ہے۔ وزیر اعلی، وزرا اور ارکان صوبائی ممبران کی تنخواہوں میں اضافہ یقینی طو رپر ان کے لیے اہمیت رکھتا ہوگا اور اس کی ضرورت کو بھی تسلیم کیا جاسکتا ہے۔

مگر بڑا سوال ٹائمنگ کا ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے اور اس کا اعتراف وزیر اعظم، وزیر خزانہ سمیت حکومتی سطح پر بڑی شدت سے کیا جارہا ہے تو ارکان اسمبلی سمیت وزیر اعلی اور صوبائی وزرا یا مشیروں کی تنخواہوں اور مراعات میں عوامی نمائندگان قانون ترمیمی بل 2019 کی منظوری سمجھ سے بالاتر ہے۔

وزیر اعظم عمران خان بنیادی طور پر اس نکتہ پر زور دے رہے ہیں کہ ان کی اولین ترجیح اپنی سیاست، حکومت اور حکمرانی کی مدد سے عام طبقہ اور بالخصوص کمزور طبقہ کی معاشی حالت کو بدلنا اور ان کو غربت سے باہر نکالنا ہے۔ وہ انسانوں پر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے اور عام طبقہ کی حالت سدھارنے کی بات کررہے ہیں۔ اسی سوچ کے تحت انہوں نے سادگی اور کفایت شعاری پر مبنی حکمرانی کا نظام پیش کیا ہے۔ مگر لگتا ہے کہ یہ سوچ عملی طو رپر محض ان کی ذاتی سوچ ہے اور اس میں حکومت، سیاسی جماعت اور بالخصوص حکمرانی سے جڑے ہوئے طبقہ شامل نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں بہت سی دفعہ حکمرانی کے نظام میں وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کی سوچ میں تضاد یا ٹکراؤ کی سوچ کو غلبہ نظر آتا ہے۔

پنجاب کا یہ حکمران طبقہ یہ بھی بھول گیا کہ اس طرز کے بل کی منظوری جس کا براہ راست تعلق ان کے اپنے مفاد سے ہے اس کا مجموعی طور پر حکمرانی اور بالخصوص عمران خان کی سیاست پر کتنا منفی اثر پڑے گا۔ اس منفی اثر کا ایک بڑا مظاہرہ ہم نے دو دنوں میں سوشل میڈیا اور میڈیا سمیت سیاسی و سماجی محاذ پر دیکھ لیا ہے۔ جس طرز کا خوفناک ردعمل عوامی سطح پر پنجاب اسمبلی اور حکومت کے خلاف آیا وہ ظاہر کرتا ہے کہ عوام نے اس فیصلہ کو کیسے دیکھا ہے۔

خود وزیر اعظم عمران خان کے ٹویٹ اور اس کے بعد گورنر پنجاب کو اس بل کی منظوری سے روکنے کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ خود بھی اس فیصلے سے سخت نالاں نظر آتے ہیں۔ خود پی ٹی آئی کے نوجوان ووٹرز اور خواتین نے بھی اپنی ہی پارٹی کے صوبائی فیصلے اور حکومت کی شدید مخالفت کرکے ثابت کیا ہے وہ لولے، لنگڑے یا بہرے، گونگے نہیں بلکہ اپنی ہی حکومت اور قیادت کے غلط فیصلوں پر سخت مخالفت کرسکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ذاتی مفاد سے جڑے مسائل پر حکومت اور حزب اختلاف دونوں نے اپنی کمزوری یا ذاتی مفاد کو دکھا کر ثابت کیا کہ ان کی بڑی ترجیح کیا ہے۔ جب قیادت دانش مندی اور مستقبل کی صلاحیت کو سمجھنے میں ناکام ہوجائے تو اس کا اثر عوامی، جمہوری حکمرانی کے برعکس ہوتا ہے۔

پنجاب کی حکمرانی کے بارے میں ایک عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ اصل طاقت وزیر اعلی نہیں بلکہ خود وزیر اعظم عمران خان ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ ماہانہ بنیادوں پر خود پنجاب کی کابینہ سمیت وزیر اعلی، گورنر اسپیکر سے براہ راست رابطہ اور فیصلہ سازی میں رہتے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا پنجاب کی حکومت نے یہ سب کچھ وزیر اعظم عمران خان کی مشاورت کے بغیر کیا اور ان کو اندھیرے میں رکھ کر وہ کیا نتائج حاصل کرنا چاہتے تھے۔

اب وزیر اعظم کے ردعمل کے بعد پنجاب کی حکومت، کابینہ اور سربراہ کی کیا ساکھ باقی رہتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو بھی سوچنا ہوگا کہ ان کی اپنی سیاسی گرفت پنجاب کی حکومت اور ان سے جڑے لوگوں پر کتنی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ان کی حکمرانی کے فلسفہ اور ان کی کابینہ اور وزرائے اعلی کی سوچ اور فکر میں یہ تضاد اور خلیج کیوں۔ ایک منطق یہ دی گئی ہے کہ دیگر اسمبلیوں کی تنخواہ پنجاب سے زیادہ ہے وہ کیونکر ہے اور کیوں اس تضاد کو رکھا گیا ہے جو دوسروں میں بھی مقابلہ بازی کا عمل پیدا کرتا ہے۔

حکمران طبقہ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اصل قربانی حکمران طبقہ ہی دیتا ہے اور ا س قربانی کی پیچھے اہم نکتہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے وہ عوام کے مفاد میں کام کریں گے اور پھر خود مفاد لیں گے۔ موجودہ حکومت میں میڈیا سمیت مختلف شعبو ں میں جو بدترین معاشی بدحالی اور بے روزگاری کا عمل دیکھنے کو ملا، بجلی، گیس، پٹرول اور مہنگائی میں ہو شربا اضافہ کے بعد اگر خودارکان اسمبلی اپنے لیے اس قسم کا قانون پاس کریں گے تو کون ان کی حمایت کرسکتا ہے۔

وزیر اعظم محض ٹویٹ یا اس بل کی منظوری کو روکنے تک خود کو محدود نہ کریں بلکہ اپنی وفاقی، صوبائی کابینہ سمیت اپنے من پسند وزیر اعلی کی بازپرس کریں یا جوابدہی کریں کہ یہ فیصلہ کس اصول کے تحت کیا گیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقہ کی ایک پرانی سوچ ہے کہ زیادہ سے زیادہ ارکان کو مراعات دے کر ان کو اپنی حمایت پر مجبور کرسکیں۔

حکمرانی میں وزیر اعظم کے سامنے تین بڑے چیلنجز ہوتے ہیں۔ اول ان کی اپنی حکمرانی کی سوچ، فلسفہ اور فکر کی ترجمانی ان کی پوری حکومت، کابینہ اور ارکان اسمبلی سمیت جماعت میں واضح نظر آئے۔ دوئم حکومت کی نگرانی عملی طو رپر حکمران سیاسی جماعت کرتی ہے کہ ان کی حکومت کی پالیسی پارٹی پالیسی کے تابع ہے یا انحراف کررہی ہے۔ پارٹی قیادت اور حکومت کے درمیان موثر رابطہ کاری حکمرانی کے نظام کو موثر بناتی ہے۔ سوئم حکومتی نگرانی کانظام اوپر سے نیچے تک کتنا شفاف اور موثر ہے کہ جو بھی غلطی کرے اس کی جوابدہی بھی ہو لیکن اہم فیصلے کرتے وقت کس حد تک ان کو حکومت کے سربراہ، پارٹی قیادت کی حمایت حاصل ہے۔ کیونکہ جب یک طرفہ فیصلہ ہوں گے تو اس سے بدمزگی پیدا ہوگی جو ہمیں وزیر اعظم کے ٹویٹ کی صور ت میں دیکھنے کو ملی ہے۔

پنجاب کی یہ حکومت اپنے لیے مراعات اگر ایسے وقت میں کرتی جب معاشی صورتحال بھی بہتر ہوتی اور لوگوں کو بھی زیادہ سے زیادہ ریلیف مل رہا ہوتا تو یقینا عوامی سطح پر بھی اس کی حمایت کی جاسکتی تھی۔ مگر لگتا ہے کہ مسئلہ محض اپنے مفادات کو طاقت فراہم کرنا ہے۔ ایسے فیصلے عمومی طور پر ان لوگوں میں بھی مایوسی پیدا کرتے ہیں جو حکومت سے یا وزیر اعظم عمران خان سے بہت سی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ انصاف پر مبنی حکمرانی کے نظام کو کو مستحکم کریں گے۔ اب وقت ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنی حکومت کے پہلے چھ ماہ کی کارکردگی کی بنیاد پر اپنی ٹیم کا بھی ایک جائزہ لیں کہ کون ان کی سوچ کے ساتھ ہے اور کون حکمرانی کے نظام کو محض اپنی ذاتیات پر مبنی سیاست کے لیے استعمال کرکے عوام میں بداعتمادی پیدا کررہا ہے۔

اب بھی وقت ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ خدارا عوامی نبض کوسمجھے اور دیکھے کے لوگ کس کرب میں اور کس بدحالی میں اپنی زندگی گزارہے ہیں۔ ہمیں اپنی ترجیحات کو عوامی مفاد کی ترجیحات سے جوڑنا ہوگا وگرنہ روایتی اور مفاداتی سیاست کا یہ انداز اس حکومت کو بھی ایک روایتی حکمرانی کے شکنجے میں جکڑ لے گا اور اس کا نتیجہ تحریک انصاف کی ناکامی کی صور ت میں سامنے آئے گا۔ اس لیے امتحان وزیر اعظم عمران خان کا ہے کہ وہ سمجھوتے کی سیاست کا شکار ہونے کی بجائے وہ ہی کچھ کرکے دکھائیں جو بڑی تبدیلی کو پیدا کرسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).