اوڑی اور چکوٹھی کی دو کہانیاں


اقوام متحدہ نے یکم جنوری 1949 کو ہندوستان اور پاکستان کی فوجوں کے درمیان کشمیر میں جنگ بندی کرائی تو جنگ بندی لائن کے قیام سے ریاست کشمیر دو ملکوں کے قبضے میں تقسیم ہو گئی۔ صرف ریاست ہی نہیں بلکہ ریاست کے لوگ، خاندان بھی جابرانہ طور پر ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ سرینگر کی دہلیز شالہ ٹینگ میں بھارتی فوج سے فیصلہ کن لڑائی میں نقصان اٹھانے کے بعد پاکستان کا قبائلی لشکر تیزی سے پسپا ہونے لگا اور ہندوستانی فوج بارہ مولہ پر قبضے کے بعد مظفر آباد کی جانب پیش قدمی کر تے ہوئے اوڑی کے مقام تک پہنچ گئی۔

ہندوستانی فوج کی اس پیش قدمی پر بڑی تعداد میں لوگ آزاد کردہ علاقے آزاد کشمیر کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ اوڑی علاقے کے ایک گاؤں کے متعدد افراد ہندوستانی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہوئے اور بچے کچے لوگ اوڑی سے ملحقہ آزاد کشمیر کے علاقے چکوٹھی چلے گئے۔ انہی افراد میں دو بھائی بھی شامل تھے جن کے تمام گھر والے اوڑی میں مارے جا چکے تھے۔ دونوں بھائی سیز فائر لائن کے ساتھ واقع چکوٹھی کے ایک گاؤں میں رہنے لگے۔

چند سا ل گزرنے پر بڑے بھائی نے گاؤں میں ہی شادی کر لی۔ چھوٹے بھائی کا نام عبدالمجید تھا جس کی کفالت اس کا بڑا بھائی ہی کرتا رہا۔ بھائی کے بچے ہوئے تو عبدالمجید لڑکپن میں داخل ہو چکا تھا۔ خونی ہجرت کے اثرات دونوں بھائیوں کے جسموں اور ذہنوں پر نمایاں تھے۔ اسی دوران بڑا بھائی بیمار ہو کر بستر سے جا لگا۔ علاج کرانے کے باوجود اس کی حالت اتنی بہتر نہ ہوئی کہ وہ کام کاج کر سکتا۔ یوں بستر ہی اس کا مستقل ٹھکانہ بن گیا۔ انہی حالات میں عبدالمجید نے چھوٹی عمر میں ہی لوگوں کے گھروں میں کام کر نا شروع کر دیا۔ عبدالمجید اپنی تمام تنخواہ اپنی بھابھی کے حوالے کر دیتا تا کہ اس کے بھائی کی دوائیوں اور گھر کے کھانے پینے کا خرچہ چلتا رہے۔

عبدالمجید ہمارے گھر بھی کام کرتا تھا۔ وہ ایک اچھا باورچی تھا اور قسم قسم کے لذیذ کھانے پکاتا تھا۔ راولپنڈی /اسلام آباد میں اس نے چار پانچ مخصوص گھر رکھے ہوئے تھے۔ ایک گھر میں کچھ عرصہ کام کرتا اور کبھی اچانک ناراض ہو کر یا تبدیلی کی غرض سے دوسرے گھر جا کر کام شروع کر دیتا۔ ان گھر والوں نے اسے خود کبھی نہیں بلایا بلکہ وہ خود ہی اپنی مرضی سے کسی بھی گھر جا کر کام شروع کر دیتا۔ میں بچپن سے ہی اسے دیکھتا آ رہا تھا۔

ایک دو سال ہمارے گھر کام کرتا اور کبھی اچانک غائب ہو کر کسی دوسرے گھر جا کر کام شروع کر دیتا۔ پھر کسی دن اچانک خود ہی واپس آ کر بغیر کسی کو بتائے گھر میں کام شروع کر دیتا۔ دوسری طرف اس کے بھائی کی بیماری بڑھتی گئی۔ عبدالمجید نوجوانی کی عمر میں تھا کہ اس کے بھائی نے اسے کہا کہ میں شدید بیمار رہتا ہوں، میری زندگی کا کچھ پتہ نہیں کہ کب مر جاؤں، اگر میں مر گیا تو میرے بچے بے آسرا ہو جائیں گے، اس لئے اگر میں مر گیا تو تم اپنی بھابھی سے شادی کر لینا۔

یوں عبدالمجید نے کبھی شادی کرنے کی کوشش نہیں کی اور اپنی کمائی باقاعدگی سے اپنی بھابھی کو دیتا رہا۔ عبدالمجید کے بالوں میں سفیدی آنے لگی اور پھر سالوں بعد اس کے کافی بال سفید ہو گئے۔ عبدالمجید سادہ اور معصوم طبیعت انسان تھا۔ چند ماہ بعد چکوٹھی اپنے گاؤں جاتا اور بھائی کی خیریت دریافت کرتا۔ بھائی کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی اور وہ چارپائی پر پڑا کھانستا اور ہائے ہائے کرتا رہتا۔

پھر ایک دن عبدالمجید، راولپنڈی میں ایک گھر میں کام کرتے ہوئے اچانک مر گیا۔ کئی سال گزر گئے، اس کا بھائی اسی طرح بیماری کی حالت میں چارپائی پر پڑا رہا۔ عبدالمجید نے اپنے بھائی کے حکم پر کبھی شادی کا سوچا بھی نہیں، اس انتظار میں رہا کہ اس کا شدید بیمار بھائی مر جائے گا اور اس نے اپنے بھائی کے بچوں کو بے آسرا ہونے سے بچانے کے لئے اپنی بھابھی سے شادی کرنی ہے۔ عبدالمجید مر گیا لیکن اس کا بھائی شدید بیماری کی حالت میں سالہا سال زندہ رہا۔

دوسری کہانی بھی اوڑی کے ایک چند سال کے بچے کی ہے جو کشمیر میں ہندوستانی فوج آنے پر اپنے گھر والوں کے ساتھ اوڑی سے آزاد کشمیر ہجرت پر مجبور ہوا۔

میں ریاست کشمیر کے منقسم خاندانوں کے افراد کے ہمراہ ’سرینگر مظفر آباد بس سروس‘ کے ذریعے چکوٹھی اور اوڑی کے درمیان جنگ بندی لائن پہ واقع کمان پل عبور کر کے مقبوضہ کشمیر کے علاقے داخل ہوا۔ کمان پل کے درمیان دونوں طرف کے سول اور فوجی افسران و اہلکار خاموشی سے کھڑے تھے۔

پل عبور کرتے ہی گورکھا رجمنٹ کے ہندوستانی فوج کے سپاہیوں نے تمام 17 مسافروں کو روک لیا اور سب کی الگ الگ تصاویر لینے کے بعدہم سب کو چند قدم دور واقع ایک ہال نما کمرے میں بٹھایا گیا۔ کمرے کے دونوں طرف بلند شیشے لگے ہوئے تھے جن سے باہر کا منظر بخوبی نظر آتا تھا۔ آزاد کشمیر کی جانب شیشے کی دیوار کے ساتھ ہی درختوں، پودوں کی دیوار نے منظر کو چھپا رکھا تھا جبکہ دوسری جانب ایک سڑک جو کمان پل سے سیدھی کئی فوجی رکاوٹیں عبور کرتی اوڑی، بارہ مولہ اور سرینگر جاتی ہے۔

کمرے کے داخلی دروازے کے متوازی دوسرے دروازے سے باہر چند فٹ کھلی جگہ کے بعد پہلے کمرے کی مانند دوسرا کمرہ تھا۔ دونوں کمروں میں مسافر بیٹھے ہوئے تھے، مقبوضہ کشمیر سے آزاد کشمیر جانے والے اور آزاد کشمیر سے پار جانے والے۔ دونوں کمروں میں فرق دوسرے کمرے میں میز کرسی کے دو اطراف بیٹھے دو گورکھا فوجی تھے۔ آزاد کشمیر سے آنے والے تمام افراد کو ایک ایک فارم تھما دیا گیا جس میں مطلوبہ معلومات درج کر کے واپس جمع کرانا تھا۔

پہلے تو میں دونوں کمروں میں چہل قدمی کرتا رہا لیکن جب صاف دکھائی دینے لگا کہ بات آدھ پونے گھنٹے کی نہیں، کئی گھنٹوں کی ہے تو میں ایک کرسی پہ بیٹھ گیا۔ میرے ساتھ ایک ادھیڑ عمر کے بزرگ بیٹھے تھے جن کی بینائی بھی بہت کمزور تھی، عینک لگانے کے باوجود وہ بہت کم دیکھ پاتے۔ میرے علاوہ ہر مسافر کے ساتھ کوئی نہ کوئی تھا، کسی کے بیوی بچے ساتھ تھے، کوئی اپنی والدہ کے ساتھ تھا اور ایک نوجوان اپنی بہن کے ساتھ اپنے رشتہ داروں سے ملنے جا رہا تھا۔

ہر کوئی سامان کی معقول تعداد لئے ہوئے تھا لیکن میرے ساتھ بیٹھے بزرگ اکیلے بھی تھے اور ان کے ہاتھ میں صرف ایک پلاسٹک کا شاپنگ بیگ تھا جس میں زیادہ سے زیادہ ایک یا دو کپڑے ہوں گے۔ ان بزرگ کا فارم میں نے بھر کر دیا۔ اس کے علاوہ مجھے چار پانچ دوسرے افراد کے فارم بھی بھرنے پڑے۔ کم نظر والے بزرگ سے بات چیت ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ چکوٹھی اور چناری کے درمیان واقع ایک گاؤں میں رہتے ہیں۔ میں نے کمرے کے اگلے دروازے سے باہر نکل کر دیکھا تو سامنے ہی دو باتھ روم تھے، اس سے آگے تلاشی کا کمرہ، پھر سامان کی سکیننگ کی مشین، پھر اسی کمرے میں ہی امیگریشن اور کسٹم کا کمرہ۔

میں واش روم سے ہو کر واپس آیا تو انہی بزرگ نے بھی واش روم جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ان کا ہاتھ پکڑے یہ سعادت حاصل کی۔ وہ بزرگ مجھے کچھ بجھے بجھے مایوس سے نظر آئے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے اپنے کسی رشتہ دار کو اپنے آنے کی اطلاع کی ہے؟ کیا انہیں کوئی لینے آئے گا؟ اس بزرگ نے بے چارگی، بے یقینی کے عالم میں دھیرے سے کہا کہ اطلاع تو فون پر دے دی تھی، اب پتہ نہیں کہ کوئی آتا ہے یا نہیں۔

جنگ بندی لائن عبور کر کے پہلا گاؤں اڈوسہ اور اس کے بعد سلام آباد کا قصبہ آتا ہے جہاں مسافر اتر سکتے ہیں۔ یہاں ہماری گاڑیوں کا قافلہ پندرہ بیس منٹ ر کنے کے بعد سرینگر کے لئے روانہ ہونے لگا تواچانک مجھے یاد آیا کہ کم نظر والے بزرگ نے یہیں اترنا تھا۔ میں نے بس سے باہر نظر دوڑائی تو دیکھا وہ بزرگ پچیس تیس افراد میں گھرے کھڑے تھے، جو تین چارگاڑیوں میں انہیں لینے آئے ہوئے تھے۔ وہ بزرگ مسکراتے ہوئے بڑے فخر کے ساتھ ایک جیپ کی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ رہے تھے۔ اس بزرگ کے چہرے کی خوشی اوراطمینان سے مجھے بھی تسلی ہوئی۔

میں وادی کشمیر میں تقریبا ایک مہینہ گزار کر واپس آر ہا تھا۔ عید کی وجہ سے 80 کے قریب مسافر واپس آزاد کشمیر جا رہے تھے۔ کمان پل پہ ہندوستانی فوجیوں نے سب مسافروں سے فارم دوباہ فل اپ کرائے اور اس میں کافی وقت لگ گیا۔ میں ویٹنگ روم کے باہر کھڑا تھا کہ میں نے ہلکی سفید داڑھی والے ایک شخص کو قریب کھڑے دیکھا، جو مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ میں نے بھی اسے مسکرا کر دیکھا اور اس کا مزید جائزہ لیا۔ وہ مجھ سے چند ہی سال بڑا ہو گا۔

اس نے سفید شلوار قمیض کے اوپر کوٹ پہن رکھا تھا۔ اس کی پر اعتماد بامعنی مسکراہٹ دیکھ کر میں سوچ میں پڑ گیا۔ اس کا چہرہ کچھ شناسا سا لگا۔ اس کی مسلسل بامعنی مسکراہٹ سے مجھے کوفت ہونے لگی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ جناب آپ مجھے جانتے ہیں؟ اس شخص نے مزید مسکراتے ہوئے کہا آپ نے آتے ہوئے میرا فارم بھرا تھا اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے باتھ روم لے گئے تھے۔ میں فورا پہچان گیا، یہ حضرت وہی کم نظر والے بزرگ تھے جو مجھے آتے ہوئے اسی جگہ ملے تھے۔

کہاں وہ بوڑھا، ضعیف باباجسے صاف نظر بھی نہ آتا تھا، ٹٹول ٹٹول کر چلتا تھا اور ہاتھ میں فقط شلوار قمیض سے بھرا ایک شاپر۔ کہاں پراعتماد مسکراہٹیں بکھیرتا یہ جوان جو مجھ سے کچھ ہی سال بڑاہے۔ نظر اس کی بالکل ٹھیک کام کر رہی ہے۔ نئی اوردرست نمبر کی خوبصورت عینک نے اسے چمکدار آنکھیں دے دی تھیں۔ ساتھ میں سامان بھی ہے۔ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے؟

جو کم نظر والا بوڑھا مجھے آتے ہوئے ملا تھا، وہ آزاد کشمیر میں اپنے رشتہ داروں سے دور مہاجرت کے دکھ سہتے سہتے نڈھال ہو جانے والا شخص تھا۔ اب جو ملا ہے وہ اپنے رشتہ داروں کی محبت کا اعتماد رکھنے والا شخص ہے۔ وہ، ایک مجبور و عاجز شخص تھا۔ یہ، ایک پر اعتماد اور پرعزم جوان ہے۔ وہ انسیت سے مجھے دیکھتے ہوئے مسلسل مسکرا رہا تھا۔ محبت کی طاقت کے یہ رنگ دیکھ کر بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس کے لئے اپنی مسکراہٹ اور میرے لئے اپنے آنسوؤں کی وضاحت کرنا ممکن نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).