وزیراعظم صاحب! پی ٹی آئی پر رحم کیجیے


پنجاب کابینہ اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں میں مجوزہ اضافے کے بل پر وزیراعظم عمران خان نے سخت مایوسی ظاہر کرکے ثابت کیا ہے کہ ان سے نا امید ہونے کا وقت ابھی نہیں آیا۔

لیکن کیا وہ اب وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے پی ٹی آئی حکومت کی سادگی و کفایت شعاری کے اصولوں کی اس واضح خلاف ورزی پر بازپرس بھی کریں گے اور اپنی پارلیمانی پارٹی کو یہ اضافہ فوراً واپس لینے کا بل پنجاب اسمبلی میں لانے کی ہدایت بھی دیں گے یا نہیں، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

خان صاحب کے مطابق یوٹرن عظیم قیادت کی نشانی ہے لیکن درحقیقت یوٹرن ایسے ہی اقدامات پر فیصلے تبدیل کرنے پر مستحسن اور قابل فخر ہوتا ہے۔

ملکی معیشت کی حالت ابتر ہے، کم ٹیکس محصولات و برآمدات کی وجہ سے بجٹ خسارہ بڑھ رہا ہے چنانچہ حکومت نے ترقیاتی بجٹ بھی گھٹایا اور اخراجات جاریہ کو کم کرنے کے لیے سادگی و کفایت شعاری اپنانے اور کئی مدات میں عوام کو دی گئی سبسڈی واپس لینے کا فیصلہ بھی کیا جب کہ اسے آئی ایم ایف اور دوسرے بیرونی ذرائع سے مالی امداد کے لیے بھی رجوع کرنا پڑا۔

پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت ایک طرف کفایت شعاری کے نام پر کئی اداروں کو ختم یا ضم کر رہی ہو اور دوسری طرف پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت ارکان اسمبلی و کابینہ کی تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ کرکے اس پالیسی کا کھلم کھلا مذاق اڑا رہی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب حکومت پارٹی کے ویژن سے بے خبر ہے یا لاپروا۔

پہلی صورت ہو تو یہ پنجاب حکومت کی نا اہلی کا ثبوت ہے۔ دوسری ہو تو یہ خان صاحب اور پی ٹی آئی کے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی۔

اگر تنخواہیں کم ہونے یا مہنگائی کی وجہ سے بڑھائی گئیں تو کیا یہ چھ گنا اضافہ اب عام سرکاری ملازمین کو بھی دیا جائے گا؟ اگر ہاں تو کیا اس سے تنخواہ کے بجٹ میں ہوشربا اضافہ نہ ہوگا جو کمزور ملکی معیشت پر ناقابل برداشت بوجھ ہوگا؟ اور اگر نہیں تو کیا یہ بے انصافی نہ ہوگی؟

سوال یہ ہے کہ اگر کابینہ اور اسمبلی ارکان کی تنخواہیں مہنگائی کے تناسب سے کم اور ناکافی تھیں تو ان لوگوں نے یہ جانتے ہوئے خود کو کیوں ان عہدوں کے لیے پیش کیا؟ لیکن اب اگر یہ آچکے ہیں اورموجودہ مراعات یا ان میں عام ملازمین جیسا اضافہ انہیں قبول ہے نہ ان سے گزارہ کرسکتے ہیں تو استعفیٰ دے کر ان افراد کے لیے موقع خالی چھوڑ دیں جو موجودہ تنخواہوں میں گزارہ کرسکتے ہیں۔

اب یہ تو کوئی مناسب طرزعمل نہیں کہ خود تو سابقہ حکومتوں پر شاہ خرچیوں کے الزامات لگاتے پھریں اور جب خود موقع ملے تو مراعات کے لالچ میں سب کو ہی مات دے دیں۔

پی ٹی آئی اور اس کی حکومت کو اپنے بلند بانگ دعوٶں کے پیش نظر دوسری پارٹیوں اور حکومتوں سے ممتاز نظر آنا چاہیے اور ہر لحاظ سے بہترین کارکردگی دکھاکر اونچے عوامی توقعات پر پورا اترنا چاہیے۔ لیکن لگتا ہے انہوں نے دوسری پارٹیوں و حکومتوں کی پیروی کرنے اور اس طرح کے اقدامات اٹھا کر اپنے حامیوں کو مایوس کرنے کا پکا ارادہ کر لیا ہے۔

کیا لازم ہے کہ پی ٹی آئی حکومت ساہیوال واقعے میں اپنے طرزعمل سے ماڈل ٹاون واقعے کی اذیت بھلائے؟ یا عدلیہ سے سزایافتہ افراد کو حکومتی اجلاسوں میں بلاتے رہنے سے اپنی ساکھ خراب کرے؟

جناب وزیر اعظم صاحب! پی ٹی آئی پر رحم فرمالیجیے۔ مداہنت چھوڑ دیجیے۔ اپنی شہرت کے مطابق عمل کرکے دکھائیے۔ بد عنوان اورنا اہل لوگوں کو فارغ اور خود سے دور کرلیجیے۔ با الخصوص پنجاب جیسے بڑے اور مستقبل کے انتخابی امکانات کے لیے اہم ترین صوبے کو مزید سادہ لوح، آپ کے انقلابی ویژن سے بے خبر یا لاپروا لوگوں سے نجات دلاکر کسی اچھے منتظم کے حوالے کر لیجیے۔ یہ آپ کی نیک نامی و کامیابی اور ملک میں جمہوریت کی بقا کا راستہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).