انتہا پسندی کے خاتمہ کے لئے ریاست کی ذمہ داریاں


دنیا کے تمام معاشرے سیاسی اور معاشرتی طور پر ایک خاص ڈگر پر چل رہے ہوتے ہیں۔ معاشی طور پرطاقتوراور حکمران طبقہ کی خواہش ہوتی ہے کہ معاملات جوں کے توں چلتے رہیں اور ان کے مفادات پورے ہوتے رہیں۔ مضبوط لوگ کوشش کرتے ہیں کہ نسل در نسل ان کے اختیارات بڑھتے جائیں۔ ان کے بعد ان کی اولاد اور بھی زیادہ طاقتور بن کر ابھرے۔ معاشرہ میں کچھ لوگوں سے زیادتی ہو رہی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اس کو سمجھ رہے ہوتے ہیں اور اس کو تبدیل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

معاشی اور سیاسی طور پر محکوم یہ طبقہ سٹیٹس کو کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ یہ جدوجہد ہمیشہ سے جاری ہے اور جاری رہے گئی۔ معاشرہ میں ان حالات کے لحاظ سے مختلف طبقات پاے جاتے ہیں۔ معاشرہ ترقی کی طرف جا رہا ہو تو اسٹیٹس کو کی حمائیت زیادہ ہوتی ہے لیکن اگر معاشرہ کی ترقی رکی ہو یا پھر زوال پذیر ہو تو اکثریت اس میں تبدیلی چاہ رہی ہوتی ہے اور انہی حالات میں مفاد پرست تبدیلی کے سخت مخالف ہوتے ہیں۔ مذہب، رواج، رسومات و اخلاقیات معاشرہ میں ان تمام حالات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اس جدوجہد میں معاشرہ کے لوگوں کو ان کے رویوں کی بنیاد پر مختلف نام دیے جاتے ہیں۔ رجعت پسند ماضی کی طرف راغب ہوتے ہیں، قدامت پرست پرانے رسم و رواج پر اڑے رہنے میں بہتری سمجھتے ہیں۔ اعتدال پسند وں کی کوشش ہوتی ہے کہ حالات سے سمجھوتا کر کے چلتے رہیں۔ آزاد خیال رسم وروا ج، مذہب و اخلاقیات کی حدود توڑنے کی کوشش کرتے ہوے ترقی چاہتے ہیں۔ رجعت پسندوں کے سوا معاشرہ میں بہتری کے خواہشمند تمام گروہ پر امن رہتے ہوے قانونی حدود کے اندر جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔

ان کے علاوہ ایک اور طبقہ، انتہا پسند ہر معاشرہ کا حصہ رہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جواپنی پسندیدہ تبدیلی طاقت کے زور پر نافذ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ انتہا پسند اکثریتی رویوں کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوے ان کوبزور بازو بدلنا چاہتے ہیں۔ طاقت کے استعمال کا حق صرف مملکت کو ہوتا ہے یہ اس حق میں مداخلت کرتے ہیں اور مملکت کے اداروں کے ساتھ ٹکراجاتے ہیں۔ اس طرح یہ لوگ حکومت کی نظم و ضبط برقرار رکھنے کی انتظامی صلاحیت کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ انتہا پسند لوگ عام طور پر عوام کی حمایت حاصل کرنے ے لئے مذہب، زبان، علاقہ، رنگ ونسل وغیرہ کو استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے مذہب سب سے زیادہ طاقتور ہتھیار رہا ہے۔

نومبر 63 قبل مسیح میں سینٹ کے سامنے یہ خبرپیش کی گئی کہ کچھ سازشی روم کے شمال کی طرف جمع ہو رہے ہیں وہ کیٹلن جو پچھلا الیکشن ہار چکا تھا کے ساتھ مل کر کچھ معززین شہر کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ سینیٹر سیسیرو جس نے اس کو ہرایا تھا اپنی تیسری تقریر میں بیان کرتا ہے کہ ان میں سے کچھ کا خیال یہ بھی ہے کہ قیامت کی جو پیشگوئی مذہبی کتابوں The Sibylline books۔ میں کی گئی ہے وہ شہر پر اس سال حملہ کرنے سے پوری ہوگی۔ اس طرح وہ لوگ اپنے مفادات کو مذہبی رنگ دینے میں بھی کامیاب ہیں۔

بعض دفعہ سیاسی گروہ جب محسوس کرتے ہیں کہ معاملات ان کی مرضی سے حل کی طرف نہیں جا رہے تو وہ بھی اس روش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ چونکہ تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں تویہ معاشرہ میں بہت تباہی پھیلاتے ہیں۔ اسلام کو شروع کی تاریخ میں ہی ایسے انتہاپسندوں کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت علی اور امیر معاویہ میں جب ثالثی طے ہوئی تو کچھ لوگوں نے اختلاف کیا اور بغاوت کر دی۔ جنگ میں ان کو شکست ہوئی تو ان خارجیوں میں سے تین افراد نے کوفہ میں حضرت علی، شام میں امیر معاویہ اور مصر میں عمرو بن العاص کو ایک ہی دن میں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ خارجیوں کا فتنہ مسلمانوں کی مملکت کو انتہائی کمزور کرگیا۔

کبھی کبھی حکومت خود بھی اسی نتہا پسند رویہ کا شکار ہو جاتی ہے اورانسانی حقوق کو بلاے طاق رکھ کر اپنے ہی عوام کے کسی چھوٹے یا بڑے گروہ کو طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہوے دبانا شروع کر دیتی ہے۔ صدر اوباما نے تشدد اور انتہا پسندی کا ذکر کرتے ہوے کہا: ”انسان اپنی تما م تاریخ میں ان سوالوں کا جواب ڈھونڈتا رہا ہے۔ یاد کرو کہ صلیبی جنگوں میں اور پوپ کے آلہ کاروں نے یورپ میں مسیح کے نام پر کتنے خوفناک کام انجام دیے۔ ہمارے اپنے ملک امریکہ میں غلامی اور جم کرو کا قانون مسیح کے نام پر ہی جواز حاصل کرتا رہا ہے۔ “

پاکستان میں یہ تما م قسم کی انتہا پسندی رہی ہے۔ پاکستان کے بننے سے دو دن پہلے ہی سرحدی صوبہ میں ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت توڑنے کے خلاف مظاہرہ کرنے والے افراد پر فائرنگ سے تقریبا 600 خدائی خدمتگاروں کا قتل مسلم لیگ کا اپنے عوام کے خلاف طاقت کا ضرورت سے زائد استعمال انتہا پسندی ہی تھا۔ بنگال میں جو ہوا سب جانتے ہیں۔

تمام معاشروں میں انتہا پسندی کے جراثیم پاے جاتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ سیاسی اور اقتصادی مسائل ہیں۔ یہ ان معاشروں میں زیادہ پروان چڑھتی ہے جن میں سیاسی کام میں رکاوٹیں ہوں، معاشی عدم استحکام ہو، معاملات کو باہم افہام و تفہیم کی بجاے طاقت سے حل کرنے کا روا ج ہو۔ زیادہ ہمدرد حاصل کرنے کی لئے اس کواکثر مذہب کا رنگ دیا جاتا ہے۔ نوجوان نسل انتہا پسندی کا زیادہ شکار ہوتی ہے۔ نوجوانوں کو جب مستقبل صاف نظر نہیں آتا، معاشی مسائل کا حل نہیں ملتا اور ملک سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے تو وہ اس کی طرف راغب ہوتے ہیں۔

تیس سال یا اس سے چھوٹے افراد کو نوجوانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی 64 فی صد آبادی عمر کے اس حصہ میں ہے۔ ملک دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جن میں بیروز گاری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ملک میں مذہبی لسانی اور علاقائی جذبات کو بعض حکومتیں خود پروان چڑھاتی رہی ہیں۔ نوجوان ان تمام تعصبات سے متاثر ہیں۔ اب اگر ہم چاہتے ہیں کہ انتہا پسندی ختم ہو تو پہلے حکمرانوں اور ملک کے متعلقہ اداروں کو اپنے اندر سے انتہاپسند ختم کرنے پڑیں گے۔

اپنے جذبات کو لگام دینی پڑے گی۔ تمام گروہ اور پارٹیاں پاکستان کا حصہ ہیں۔ تمام کو انصاف کرتے ہوے ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔ تمام کو ان کے حقوق دینا پڑیں گے۔ اپنے لاڈلوں کو نوازتے وقت دوسروں کا بھی خیال رکھنا پڑے گا۔ سیاسی مفادات کے لئے ریاست کو بھی مذہب کا استعمال بند کرنا ہوگا۔ روز روز کی گالی گلوچ، چور ڈاکو کی گردان بند کرناپڑے گی۔ قانون سے بالا اقدامات بند کرنا ہوں گے۔ نوجوانوں کی تعلیمی، معاشرتی، سیاسی اور معاشی ضروریات کا خیال کرنا پڑے گا۔ سیاسی اور معاشی میدانوں میں نوجوانوں کو برابر کے مواقع دینا پڑیں گے۔

اورسب سے بڑھ کر سب سے اہم چیز، اگر آپ چاہتے ہیں کہ معاشرہ اس انتہا پسندی سے نجات حاصل کرے تو سب کی جان مال اور عزت نفس کی حفاظت کرنا پڑے گی۔ جو ریاست کی اولین ذمہ داری ہے اورعوام کا بنیادی حق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).