مسلم کشی اور عالمی منافقت کا چاک ہوتا پردہ


نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں جمعہ کی نماز کے دوران دو مساجد پر گورے دہشت گردوں کے حملے کا شکار ہونے والے شہدا کی تعداد 49 ہوگئی اور 48 افراد زخمی ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی اور حیرت انگیز طور پر اس واقعے کو دہشت گردی قرار دینے سے بھی بڑے ممالک کے رہنما اور ذرائع ابلاغ کتراتے نظر آئے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس حملے میں مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا گیا اور مسلمانوں پر حملہ کرنے والے ”مہذب اور روشن خیال گورے“ تھے۔

چونکہ عالمی میڈیا میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جان بوجھ کر مسلمانوں اور اسلام سے منسوب کرنے کے لئے دو دہائیوں سے کام ہوتا رہا، اس لیے اس منافقانہ طرز عمل پر موثرا ٓواز اٹھانے والا بھی خال خال ہی نظر آرہا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس سفاکانہ حملے کی ویڈیو پوسٹ نہیں ہوسکتی کیوں کہ وہ ان کے بقول ”کمیونٹی سٹینڈرڈ“ پر پورے نہیں اترتے۔ حالانکہ داعش اور القاعدہ وغیرہ کے قتل عام اور بم دھماکوں کی ہزاروں فوٹیج روز انہی سائٹس پر گھومتے نظرا ٓتے ہیں۔

اس سفاکانہ حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ آسٹریلیا کے پیدائشی 28 سالہ دہشہت گرد برینٹن ٹیرنٹ نے حملے سے قبل درجنوں صفحات پر مشتمل اپنے عزائم کو لکھ کر ٹوٹر پر پوسٹ کردیا تھا۔ ان کا مقصد مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیلانے کے لئے خود کش حملہ کرنا واضح تھا اور اس کی منصوبہ بندی کافی عرصے سے کررہے تھے۔ مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگانے والے گوروں کی اصلیت جہاں اس انسان کشی سے دنیا میں آشکار ہوگئی وہیں آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کی اس بات نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ اس قتل عام کا سبب خود مسلمان اور ان کا دین ہے۔

سینیٹر فریسر اننگ نے اسلام کے خلاف شدید بغض و عناد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام خاندانی آمریت کو تقویت دینے والا مذہب ہے اور مسلمان اس ظالم نظام کے پیروکار ہیں۔ تاہم آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے سینیٹر کے ان الزامات پر تنقید کرتے ہوئے اسے نفرت آمیز قرار دیا۔ ان کے مطابق سینیٹر کی سوچ کے لئے آسٹریلیا میں کوئی جگہ نہیں۔

عالمی معتبر ذرئع ابلاغ کے مطابق اس خون آشام حملے کے بعد اب تک تین افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ان میں سے آسٹریلوی شہری کو کل عدالت میں پیش کیا جائے گا جبکہ باقیوں کے خلاف تفتیش جاری ہے۔ آسٹریلوی وزیر اعظم نے سوشل میڈیا پر اپنے ابتدائی رد عمل میں اس حملے کو دہشت گردی قرار دینا ضروری نہیں سمجھا تاہم لوگوں کے شدید رد عمل کے بعد انہوں نے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے دہشت گردی قرار دی اور اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایک حملہ آور آسٹریلوی شہری ہیں۔ دوسری طرف نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے اس دہشت گردی کے واقعے کی وجہ سے آج کے دن کو ملکی تاریخ کا تاریک ترین دن قرار دیا۔

حملہ آور نے جہاں بڑی مہارت کے ساتھ اس انسان سوز حملے کی منصوبہ بندی کی تھی وہیں انہوں نے جرات کے ساتھ اس تمام واقعے کو سوشل میڈیا پر لائیو براڈکاسٹ کرکے دنیا کو دکھایا۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ انہوں نے 74 صفحات پر مشتمل اپنا بیان بھی جاری کرچھوڑا تھا جس میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے اپنے منصوبے کے لئے کئی یورپی قوم پرست تنظیموں سے بھی حمایت مانگی۔

وہ کیوں اور کن کن حوالوں سے یہ منصوبہ بندی کرنے پر آمادہ ہوئے وہ تفصیلات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ انہوں نے مہارت کے ساتھ اپنی منصوبہ بندی میں سوالا جوابا تمام ممکنہ باتوں کو بیان کیا۔ ان کے مطابق وہ اسلام سے خائف نہیں مگر تیزی کے ساتھ پھیلتے ہوئے مسلمانوں کودیکھ کر سمجھتے ہیں کہ اسلام دوسرے لوگوں اور دوسرے عقیدوں کو بدل دیں گے۔ جبکہ وہ ایسا ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ حملہ آور دہشت گرد خود کو نسل پرست، فاشسٹ، عدم برداشت کا شکار، یورپی قوم پرست اور ناروے کے دہشت گرد نائٹ جسٹسیر بریویک سے رابطے میں اور ان سے متاثر قرار دیتے ہیں۔

یاد رہے یہی بریوریک نامی گورا دہشت گرد سن 2011 میں یورپی ملک ناروے میں پیش آنے والے دہشت گرد حملوں میں ملوث تھے اور اب بھی ناروے کی جیل میں بند ہیں۔ حالیہ گورا دہشت گرد لکھتا ہے کہ وہ یورپ یعنی گوروں کے ممالک میں مہاجروں خصوصا مسلمانوں کی آبادکاری کو برداشت نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دوسال پہلے سے تربیت لیتے رہے اور حملے کی منصوبہ بندی کرتے رہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ نیوزی لینڈ میں ان کا حملہ کرنا پہلے سے طے نہیں تھا۔ وہ یورپ میں کہیں اور جگہ بھی ایسا ہی حملہ کرسکتے تھے۔ لیکن تین ماہ قبل انہوں نے اسی شہر کی مسلم کمیونٹی کو انٹرنیٹ پر دیکھا جس کے بعد ان کا ارادہ بدل گیا۔ کافی ساری باتیں ہیں اوربہت سارے سوالات یہاں پر اٹھتے ہیں ہم ان سب کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔

چند اہم معاملات پر غور و فکر ضروری ہے۔ ایک یہ کہ دہشت گردی ایک مسلمہ عالمی مسئلہ ہے۔ دنیا میں 9 / 11 سے پہلے بہت سارے ممالک میں ایسے واقعات ہوتے رہے۔ جن کے مرتکب صرف مسلمان نہیں بلکہ اکثر غیرمسلم ہی ہوئے۔ کسی نے انہیں مذہب کے حوالے سے بیان نہیں کیا۔ امریکہ بہادر جاپان پر ایٹم بم گراکر لاکھوں بے گناہوں کو مارنے والا، مگر آج تک کوئی نہیں کہتا کہ عیسائی امریکی حکومت نے ایسا کیا یا عیسائیوں کی تعلیم پر عمل کرکے انسان کشی کی گئی۔

جنگ عظیم اول اوردوئم دراصل یورپ اور ایشیا کے ان ممالک کے مابین لڑی گئی جو مسلمان ممالک نہیں تھے۔ مگر کوئی یورپی انہیں ان کے ممالک کی اکثریتی آبادی کے مذاہب سے نہیں جوڑتے۔ چین اور جاپان کے افراد مارے گئے وہ نہیں کہتے کہ فلاں مذاہب کے لوگوں نے ہمارے لوگوں پر بمباری کی۔ مگر جوں ہی القاعدہ نامی تنظیم سے منسوب حملے امریکہ میں ہوئے مسلمان دنیا بھر میں ٹارگٹ ہوئے۔ افغانستان اور عراق میں لاکھوں مسلمان قتل کیے گئے۔

شام، لیبیا، یمن وغیرہ سب کے سامنے ہیں۔ پاکستان میں عام شہریوں کے علاوہ ہزاروں فوجی جوان دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نذر ہو گئے۔ حالانکہ خود مغربی دانشور اور سیاست دان بھی اس بات بارہا تسلیم کرچکے ہیں کہ القاعدہ اور داعش کو بنانے اور پالنے والے خود امریکہ اور یورپی ممالک ہی ہیں۔ داعش میں تو یورپ اور امریکہ سے ہزاروں غیر مسلم بھرتی ہوئے۔ مگرآنکھوں پر پٹی باندھ کر لوگ اسلام سے نفرت کے لئے اچھل کود کرتے رہے۔

اب اس حالیہ حملے میں بھی حملہ آور اور آسٹریلوی سینیٹر کے بیان سے واضح ہوا کہ جان بوجھ کر اسلام دشمنی کا سبق پڑھایا گیا اور لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنے کے لئے مغربی ممالک نے تعصب اور نسلی و مذہبی منافرت کو پروان چڑھایا۔ اس سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے اپنے معاشرے میں کئی ایسے طبقات اس اسلاموفوفیا سے اس قدر کنفیو ز ہوگئے کہ وہ مغرب کے دلدادہ ہوکر ان کی میڈیا پراپیگنڈے کی زد میں آگئے۔ حیرت انگیز طور پر یہ لوگ 9 / 11 سے پہلے ہونے والی انسانیت کشی کے واقعات پر غور کرنا ضروری سمجھتے ہیں نا ہی اس کے بعد جاری مسلم کشی کے سلسلے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اب اس حالیہ حملے کے بعد ایک نیا زاویہ سامنے آگیا ہے۔ معتدل یورپی اور گورے بھی جو حقائق کو تسلیم کرنے والے ہیں، وہ کھل کر اس بات کو بیان کرنے لگ گئے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی دین مذہب نہیں ہوتا اور اسلام پر لیبل لگانے کی کوشش کرنے والوں کی فاش غلطیوں اور منافقت کو اب عیاں ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ مزید حقائق وقت کے ساتھ ساتھ آشکار ہوتے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).