انسانیت انسانوں سے پناہ مانگتی ہے


آج صبح نہیں بلکہ رات کے آخری پہر آنکھ کھلی اور غیر سردی طور پر میرا ہاتھ ٹی وی کے ریموٹ پر جا پڑا سی این این پہ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ہونے والے اندہناک واقع کی خبر تھی بس اب کیا سونا تھا دل مضطرب ہو گیا اور میرے ذہن میں آج تک ہونے والے دہشت گردی کے واقعات فلم کی طرح چلنے لگے۔ پاکستان میں اگر بم دھماکوں کی آوازیں معصوم انسانوں کی چیخوں میں ڈھل کر انسانیت کا منہ چڑھاتی رہیں وہیں ویسٹ میں ماس مرڈر اور فائیرنگ سپری جیسے واقعات تواتر سے رونما ہوتے رہے اور ہر دو نے مل کر انسانی زندگیوں کا چیونٹیوں اور کیڑوں مکوڑوں سے بھی کم تر سمجھنا اور نظام قدرت و فطرت میں اپنی حد بندیوں کی پرواہ تک نہ کرنا انسانیت کی سب سے بڑی شکست ہے۔

صرف اگر امریکہ ہی کا ذکر کیا جائے تو گذشتہ چند برسوں میں ایسی وارداتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ہماری دانست میں اس کی ایک وجہ جو ابھر کر سامنے آئی ہے وہ یہ کہ ستمبر 11 کے بعد ایک طویل جنگ جو تادم تحریر جاری ہے جس نے انسانی عصاب پر انتہائی دباؤ پیدا کیا ہے مگر اس سے بھی بڑھ کر انتہا پسندی کو بھی پروان چڑھایا ہے یہی انتہاء پسندی اب پرانی نسلی امتیاز کی سی صورتحال کی برف مائل ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں جہاں مذہبی اور نسلی امتیازیت نے اپنے پر تولے ہیں وہاں ان ممالک کی چند حکمرانوں نے بھی اس رجحان کو پنپنے سے نہیں روکا۔ وائٹ سپریمیسی کے دہشت گرد اپنی سرگرمیوں میں تیز سے تیز تر ہوتے چلے جارہے ہیں ڈوملڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد صرف امریکہ ہی میں تقریباً سات اندھا دھند فائرنگ کے واقعات ہوئے اور دو سو کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔

اسی طرح مذہبی تعصبات کی بھی ایک لہر جو افغان جنگ کی غیر معمولی طوالت کی وجہ سے شدت پسندی کے رجحانات میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ اگر حقیقتاً دیکھا جائے تو مذہبی بنیادوں پر نفرت مغرب میں اپنی روایات کے برعکس عروج پر ہے۔

کرائسٹ چرچ نیوزی لینڈ کا ہولناک واقع جس میں پچاس معصوم لوگ ایک ہی شخص نے منٹوں میں ختم کردے اسے ہی مذہبی بنیاد پر نفرت کا ایک زندہ ثبوت ہے۔

امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک نے اس واقع کو دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا ہے۔ مجرم جو اٹھائس سالہ نوجوان ہے جو آسٹریلیا سے آیا نے واضح طور پر اپنی وابستگی سفید فام انتہاء پسند ظاہر کی ہے اور اس نے اس واقعہ کو عملی جامہ پہنانے کی ناصرف منصوبہ بندی کی بلکہ اپنے زیر استعمال آنے والے ہتھیاروں پر سفید فام انتہاء پسندانہ نشانات اور تحریریں بھی لکھیں اور پھر تی اور تسلی سے مسجد میں موجود نمازیوں کو نشانہ بنایا۔

اس غیر انسانی فعل کو لے کر امریکہ اور یورپ سمیت آسٹریلیا اور نیوزیلینڈ میں دھائیوں سے آباد مسلمان کمیونٹی میں غم و غصے کے ساتھ اپنے آپ کو غیر محفوظ بھی سمجھنے لگے ہیں۔ جو ایک پریشانی کا باعث تو ہے ہی مگر ساتھ ہی ان سب حکومتوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کیونکہ اگر یہ روش چل نکلی تو خدشہ جے کہ اس کی آگ دنیا میں شروع ہونے والی حالیہ امن کوشیشوں کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے اور اگر اس چنگاری نے ہوا پکڑی تو پھر پلٹ کر دوسری جانب سے بدلے کے طور پر جوابی حملوں کا خدشہ بھی بڑھ جائے گا۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس واقعہ کے ذمداروں کو جلد از جلد نشان عبرت بنا دیا جائے اور عالمی امن کو کوئی بڑا خطرے سے محفوظ بنا لیا جائے۔ اس کی ساتھ عالمی دنیا کو سورش زدہ علاقوں بشمول کشمیر اور فلسطین شام عراق و افغانستان کے مسائل کو بھی تیزی سے حل کرنے پر توجہ دینی ہوگی وگرنہ اگر کوئی بھی چھوٹا سا واقعہ پوری دنیا کو جنگ میں مبتلا کرسکتا ہے جس کا نتیجہ انسانیت سوزی اور انسانی بدحالی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).